لبرل ویب سائٹ پر مرد مصنف بمقابلہ خاتون مصنفہ


مصنف اور مصنفہ میں بہت سی قدریں مشترک اور بہت سی میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم اپنے ماحول کے پیش نظر مشترک باتوں پر سرسری نظر ڈالیں گے اور اختلافی باتوں کو زیادہ ہوا دیں گے۔

ایک مصنف اور مصنفہ میں بنیادی فرق تو صنف کا ہے اور باقی کی تفریق کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ اگر ایک مصنف تخیل کو استعمال کرتے ہوئے کوئی رومانوی کردار تشکیل دیتا ہے جو صنف مخالف سے تعلق رکھتا ہو۔ تو وہ ایسا کرنے پہ قادر ہے لیکن اگر کوئی مصنفہ یہی کام کرتی ہے تو اس کا سورس (منبع) حقیقی زندگی کا واقعہ ہی ہو سکتا ہے۔ کم عقل عورت ایسے تخیل کی مالک کیونکر ہو سکتی ہے کہ ایسے کردار تشکیل دے سکے۔ یہ اس کی اپنی ہی کوئی کہانی ہوتی ہے جس کا وہ کتھارسس کرتی ہے۔ اس لیے اگر اس سے پوچھا جائے یا بنا پوچھے یہ کہانی اس پہ فٹ کر دی جائے تو اسے برا منانے کا حق بالکل بھی نہیں ہے۔

مصنفہ چونکہ کم عقل مخلوق ہوتی ہے اس لیے دو چار تحریریں لکھنے اور چند لوگوں سے داد سمیٹنے کے بعد خود کو اچھا لکھاری سمجھنے لگتی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ جو سب لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں وہ سب کے سب ٹھرکی ہوتے ہیں اور تعریف کرنا، حوصلہ افزائی کرنا ٹھرک کی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔ جب کہ مصنف چونکہ ”آتے ہیں غیب سے مضامین خیال میں” کی عملی تفسیر ہوتا ہے اس لیے وہ حقیقی تعریف کا حق دار ہوتا ہے۔ اور اپنی محنت کے عوض تعریف وصولتا ہے نہ کہ ٹھرک کی وجہ سے۔

مصنفہ عموماً توجہ کی طالب ہوتی ہے اس لیے اکثریت خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ یا جنس پہ بات کر کے نام کماتی ہے۔ جب کہ جو مرد حضرات ان موضوعات پہ ہاتھ صاف کرتے ہیں وہ انسانیت کے علم بردار اور روشن خیال ہوتے ہیں۔

اگر کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل خاتون سیاسی، سماجی یا معاشی مضوعات پہ بھی بات کرنے لگے تو اس کا منبع عالم قسم کے لوگوں سے کی گئی گفتگو یا ادھر ادھر سے اٹھایا گیا مواد ہوتا ہے۔ وہ خود بھلا کہاں مشاہدہ کر سکتی ہے اور اپنی رائے قائم کر سکتی ہے۔ جب کہ مرد حضرات کے عمومی موضوعات یہی ہوتے ہیں اور وہ اپنے ”من” کی طاقت سے یہ سب معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اور اس پہ رائے قائم کرتے ہیں۔

آج کا دور کیونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ویب سائیٹس عام ہیں اس لیے مقبولیت کا پیمانہ ریٹنگ ہے تو جس خاتون کی تحریر پہ زیادہ کلکس ہوں یہ اس کی تصویر کا کمال ہوتا ہے جب کہ مرد حضرات کی تحریر اتنی جان دار ہوتی ہے کہ تصویر کی جانب نظر ہی نہیں جاتی۔ اس طرح یہ خواتین بے کار لکھ کر بھی مردوں کے حقوق کا استحصال کرتی ہیں۔ جو توجہ مردوں کی تحریر کی جانب جانا ہوتی ہے وہ اس کی تصویر کھینچ لیتی ہے۔

وہ خواتین لکھاری جن کی تحاریر دھڑا دھڑ چھپتی ہیں انہیں خاتون ہونے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ تحریر اچھی ہو یا نہ ہو صرف حوصلہ افزائی کے لیے چھاپا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ آتی بھی اسی کیٹیگری میں ہیں۔ کوئی بہت ممتاز کام تو کر نہیں سکتیں اس لیے حوصلہ افزائی کی وجہ سے یوں ہی لکھتی رہتی ہیں۔ جب کہ مرد حضرات کی تحاریر میرٹ پہ ہوں تب ہی اخبار یا سائٹس پہ جگہ پاتی ہیں۔

بات صرف اتنی نہیں بعض خواتین لکھاری تو اپنے گھر میں موجود اچھے لکھنے والوں سے یا دوستوں سے تحریر لکھوا کر یا پھر چرا کر بھی اپنے نام سے چھپواتی ہیں ان میں وہ تحاریر شامل ہوتی ہیں جو ایک بڑی تعداد کو متاثر کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ آدھی عقل کی مالک خاتون سے آپ بھلا ایسی بات کی توقع کیونکر کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہ بلاشبہ سرقہ ہوتا ہے یا کسی اپنے کی مہربانی۔ جب کہ مرد لکھاری ایسا لکھ سکتے ہیں کیونکہ ان میں یہ صلاحیت پیدائشی طور پہ پائی جاتی ہے۔

درج بالا حقائق کے پیش نظر تحفظ حقوق لکھاری مرداں کے نام کی تنظم کی اشد ضرورت ہے تاکہ خواتین لکھاریوں کے جور و ستم کا خاتمہ ہو سکے اور مرد لکھاریوں کو ان کا صحیح مقام ملے۔ یہ ایک تجویز ہے، متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر استحصال اتنا ہی پسند ہے تو کرواتے رہیں میرا کون سا بل آجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).