ہمیں چینی بہت اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ پتہ نہیں کون ہیں


خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں چار ہمسائے دیے ہیں۔ مشرق میں ہمارا ازلی دشمن ہندوستان ہے۔ وہ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا کیونکہ اس نے کشمیر پر بھی قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کرتا ہے۔ مکار بنیا اکھنڈ بھارت چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کو بھارت میں شامل کرنے کا خواہش مند ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ دو قومی نظریہ اس بات کو واضح کر چکا ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور ان کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کفار کا ملک ہے اور ہمیشہ اس پر مسلمان مجاہدین حملے کرتے رہے ہیں اور یہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہندوستان پر حملہ کر کے اسے پاکستان میں شامل کر لیں اور لال قلعے پر اپنا جھنڈا بھی لہرا دیں۔

ہم ہندوستانیوں کے رسوم و رواج کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ بت پرست قوم ہے۔ گو کہ ہندوستان میں اتنی ہی تعداد میں مسلمان رہتے ہیں جتنے پاکستان میں رہتے ہیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں راضی خوشی نہیں رہ رہے ہیں۔ ایک دن وہ اپنا نیا پاکستان بنا لیں گے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی ہم سے خوب نفرت بھی کرتے ہیں۔ ہم ہزاروں برسوں سے ہندوستان سے مار کٹائی کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور ان کا سارا کچا چٹھا خوب جانتے ہیں۔ ہندوستان سے ہماری راہ و رسم ہزاروں سال پرانی ہے۔

مغرب میں افغانستان ہے۔ افغانستان نے پہلے دن سے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ صدر ایوب خان کے زمانے میں تو ہمارے تعلقات اتنے خراب تھے کہ دونوں ملکوں کی سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی تھیں اور سفارتی تعلقات بھی دو ڈھائی برس منقطع رہے تھے۔ افغانوں نے کابل اور جلال آباد میں پاکستانی سفارت خانوں پر حملہ کر کے انہیں لوٹ لیا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے فوجیوں کو قبائلیوں کے طور پر بھیج کر پاکستان میں پراکسی وار بھی لڑ رہا تھا۔

کسی ہمسائے ملک کے خلاف پراکسی وار لڑنے کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے افغان پراکسی وار سے تنگ آ کر افغانستان میں پراکسی وار شروع کر دی جس کے نتیجے میں 1979 میں سوویت یونین نے وہاں اپنی فوجیں اتار دیں۔ اس غیر ملکی قبضے کے خلاف پاکستان نے افغان حریت پسندوں کی بھرپور مدد کی اور افغانستان کی سوشلسٹ کمیونسٹ لیفٹسٹ حکومت کے خلاف پراکسی وار کر کے اسے اور سوویت یونین کو خوب مزا چکھایا۔ نیز پاکستان کو وہاں سٹریٹیجک ڈیتھ بھی دکھائی دے گئی۔ ہماری بھرپور مدد سے افغانوں کو سوویت کفار سے آزادی نصیب ہوئی۔ لیکن ہمارے احسانات کا سلسلہ جاری رہا۔ اب ہم اپنے بھرپور تعاون سے افغانستان کو امریکی کفار سے آزادی دلا کر ہی دم لیں ہے۔ ہم اس کے بعد فیصلہ کریں گے کہ افغانوں کو مزید آزادی کس ملک سے دلائی جائے۔

1947 کے بعد کے افغان حکمران نہایت برے ہیں کیونکہ وہ پاکستان پر حملے وغیرہ کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے کے سارے افغان حکمران اچھے تھے۔ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی نے کبھی بھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ ہمارے ازلی دشمن ہندوستان پر ہی کیا۔ اسی وجہ سے پاکستان نے اپنے میزائلوں کے نام ان افغان فاتحین کے نام پر رکھے ہیں۔ افغانوں کا مسلک بھی بہت اچھا ہے۔ وہ بت شکن ہیں، بت پرست نہیں۔ یہی سبب ہے کہ چند برس پہلے افغانوں نے بامیان کے ہزاروں سال پرانے بدھ کے دیو ہیکل مجسمے توڑ ڈالے تھے۔ امید ہے کہ وہ جلد ہی ہندوستان پر حملہ کر کے اس کے باقی ماندہ بت بھی توڑ دیں گے۔ ہم ہزاروں برسوں سے افغانستان سے بھائی چارے کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور ان کا سارا کچا چٹھا خوب جانتے ہیں اور ان سے ہمارا میل جول ہزاروں سال پرانا ہے۔

بہرحال افغان نہایت ناشکرے ہیں۔ اس بات پر ذرا بھی ہمارا احسان نہیں مانتے کہ لاکھوں افغانی ہم نے پاکستان میں پینتیس چالیس برس سے رکھے ہوئے ہیں اور ان سے اتنی زیادہ محبت کرتے ہیں کہ ان کے ملک کو اپنا صوبہ بنانے کے لئے بھی راضی ہیں۔ ناشکرے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے جنوب کی جانب ایران ہے۔ ایران سے ہمارے تعلقات صدیوں پرانے ہیں۔ کئی سو سال تک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی رہی ہے۔ حتی کہ پنجاب کا پنجابی سپیکنگ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی فارسی بولتا تھا اور اس کے فرامین فارسی میں ہی جاری ہوا کرتے تھے۔ پرانے وقتوں میں فارسی ہوتی بھی تو بہت اچھی تھی۔ دیوان حافظ سے تو فال بھی نکالی جاتی تھی۔ ایران ایک نہایت اچھا ملک تھا۔ ہندوستان سے جنگوں کے دوران شاہ ایران نے پاکستان کی بھرپور مدد کی اور ہندوستان کو اس کی اوقات پر رکھا۔ عقیدے کے لحاظ سے شاہ ایران اور ایرانی عوام اہل تشیع تھے مگر سنی اکثریتی پاکستان کو وہ اپنا بھائی سمجھتے تھے۔

پھر 1979 میں ادھر اسلامی انقلاب آ گیا تو اسی بھائی چارے کے سبب ایرانیوں کا ارادہ ہوا کہ وہ اس اسلامی انقلاب کی برکات سے اپنے پاکستانی بھائیوں کو بھی مستفید کریں۔ پاکستانی اس ایرانی اسلامی انقلاب سے متاثر تو بہت تھے لیکن اسے درآمد کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اب ایران بھارت کا دوست ہے اور سوچ رہا ہے کہ پاکستان پر کوئی چھوٹا موٹا سا حملہ کر دے۔ اب ہمیں احساس ہونے لگا ہے کہ بظاہر تو ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، لیکن سعودی راہنمائی کے سبب ہمیں اس کے عقیدے میں بہت زیادہ مسائل دکھائی دینے ہیں۔ اب وہ ہندوستان کے مشرکین کا برادر ملک بن گیا ہے۔ بد عقیدہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہم صدیوں سے ان کی رگ رگ سے واقف ہیں۔

پاکستان کے شمال کی جانب ہمارا ہمالیہ سے بھی اونچا، سمندر سے بھی گہرا اور شہد سے بھی میٹھا دوست چین ہے۔ چین کا کوئی مذہب ممکن ہے کہ ہوتا ہو۔ ہمیں کوئی خاص علم نہیں ہے۔ دراصل درمیان میں پہاڑ اتنے زیادہ اونچے ہیں کہ کبھی چینیوں سے برصغیر کے عوام کا میل جول ہی نہیں ہوا۔ لیکن چینی اتنے اچھے لوگ ہیں، اتنے اچھے لوگ ہیں کہ ضرور مسلمان ہی ہوتے ہوں گے۔ سنا ہے ان کا کوئی اپنا تقویمی نظام بھی ہے۔ گائے بکری بھیڑ خرگوش وغیرہ کے سالوں والا۔ اب وہ سی پیک پر ادھر پاکستان آنے لگیں گے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ کیسے لوگ ہیں۔ وہ کیا کھاتے ہیں۔ کیا پیتے ہیں۔ کتنا پیتے ہیں۔ ان کے اخلاقی نظریات کیا ہیں۔ ویسے لگتے تو کوئی نہایت سنجیدہ اور کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں کیونکہ ادھر جانے والے غیر ملکیوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ چینیوں کو لطیفے وغیرہ مت سنائیں کیونکہ چینیوں کا مزاح بہت مختلف ہے۔ ہنسنے والے لطیفے پر وہ غصے میں بھی آ سکتے ہیں۔ نہ ہی ہمیں ان کے ادب کا علم ہے، نہ مشاہیر کا اور نہ تاریخ کا۔

ان کے طرز حکمرانی کا بھی ہمیں علم نہیں ہے۔ بس یہ پتہ ہے کہ ادھر بادشاہ ہوا کرتے تھے جو کسی بھی شہری کو فارغ دیکھتے تھے تو اسے پکڑ کر دیوار بنانے پر لگا دیا کرتے تھے۔ یہ بادشاہ نہایت فراخ دل تھے۔ ان بیگاریوں کو ایک دو وقت کا کھانا لازماً فراہم کیا کرتے تھے۔ چراغ والا الہ دین بھی ادھر چین میں ہی کہیں رہتا تھا۔ شاید اس کا جن چینیوں کے لئے ابھی بھی کام کر رہا ہے۔ بے مثل دوستی کے سبب ہمیں وہ چراغ عاریتاً ملنے کی امید بھی رکھنی چاہیے جس کے بعد چین کے صدقے پاکستان یکلخت ایک امیر، ترقی یافتہ اور صنعتی ملک بن جائے گا۔

چینیوں کے لباس اور رہن سہن کا بھی ہمیں علم نہیں ہے۔ گمان غالب ہے کہ وہ لباس پہننے کے قائل ہوتے ہوں گے۔ چین میں سردی بھی تو بہت پڑتی ہو گی۔ ادھر قراقرم اور ماؤنٹ ایورسٹ کے ساتھ جو ہے۔ بہرحال یہ تو ہمیں علم نہیں ہے کہ چینی کیسے لوگ ہیں، ان کا کیا عقیدہ ہے، ان کا سیاسی نظام کیا ہے، وہ اپنے شہریوں سے کیسا سلوک کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ علم ہے کہ چینی بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہندوستان پر حملہ کر کے اسے مزا چکھایا ہوا ہے اور پاکستان کی درخواست پر وہ سلامتی کونسل میں ہر شے کو ویٹو کر دیتے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ ادھر مشرقی ترکستان میں بہت سے مسلمان رہتے ہیں اور حکومت ان کا اتنا زیادہ خیال رکھتی ہے کہ زبردستی ان کو پکڑ پکڑ کر دوپہر کا کھانا کھلاتی رہتی ہے، خصوصاً ماہ رمضان میں۔

جب یہ چینی پاکستانی شہریوں سے ملنا جلنا شروع کریں گے تو پاکستانیوں کو سب پتہ چل جائے گا۔


پاکستان کے برادران یوسف ہمسائے

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar