خان صاحب آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں


(مہر ارم)۔

ارے خان صاحب، رکیے تو سہی؛ کہاں جا رہے ہیں اپنی ہی کرائی ہوئی کسی فاسٹ بال کی طرح؟ جناب اب آپ کھیل کے میدان میں نہیں میدانِ سیاست میں کھڑے ہیں۔ کرکٹ کا دور گذر گیا۔ وہ دور ہوا ہوا جب آپ میدان میں پرفارم کرتے اور تماشائی جھوم اٹھتے، ناچتے، تالیاں بجاتے اور بھنگڑے ڈالا کرتے تھے۔ پر کمال تو یہ ہے کہ آپ میں اب بھی وہ جوش و جذبہ موجود ہے جو ورلڈ کپ جیتنے کے دور میں تھا۔ فرق بس اتنا ہے کہ وہ کھیل کا میدان تھا اور یہ سیاست کا میدان ہے۔ تماشائی اب بھی وہی کرتے ہیں جو اس وقت کرتے تھے۔ یعنی دھوم دھڑکا، تالیاں بھنگڑے۔ تب آپ یہ ساری محنت ورلڈ کپ جیتنے کے لئے کر رہے تھے اور اب بلقیس خانم کے گائے انوکھے لاڈلے کی طرح کھیلنے کے لئے چاند مانگ رہے ہیں اور وہ بھی کُرسی کا۔

کچھ عرصہ پہلے نیا پاکستان بنانے کا نعرہ سنائی دیا تھا جو کہ کانوں کو بہت بھلا لگا۔ یوں محسوس ہوا کہ شاید اب کی بار سیاست وڈیروں کی اوطاق سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لے گی۔ پر بھلا ہو نعرہ لگانے والوں کا جنہوں نے نوجوان نسل کے دلوں پر راج کرتے ہوئے بھی انہیں مرکزی دھارے میں شامل نہ کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں 18 سے 24 سال کے نوجوان نمایاں ہیں۔ اس نوجوان آبادی کا 55 فیصد حصہ شہروں میں آباد ہے جس میں سے اکثریت تو صرف تین کروڑ والے شہروں کراچی اور لاہور میں ہے۔

نیا پاکستان بنانے کی خوشی میں نوجوان نسل جوش و خروش سے جلسہ گاہوں میں پہنچتی رہی پر سوائے دھوم دھڑکے کے کچھ نہ ہوا اور انصاف کے چکر میں نوجوانوں کے ساتھ بے انصافی کی گئی۔ نیا پاکستان بنانے کے لئے جو ٹیم تشکیل دی گئی اس میں پرانے ہی لوگ دکھائی دیے۔ آپ نے شروع میں جس پارٹی سے گٹھ جوڑ کیا آپ کو یہ بھی دکھائی نہ دیا کہ تبدیلی کی راہ میں حائل ہے۔

دورِ جدید کے لوگ مریخ پر رہائش کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ہمارے یہاں تین دہائیوں سے روٹی، کپڑا اور مکان ہی پورا نہیں ہو رہا۔ رہی سہی کسر بجلی اور پانی نے پوری کر دی۔ پر بجائے اس پر توجہ دینے کے آپ بھی اورنج، ایپل اور بنانا ٹرین بنانے کے چکر میں لگ گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کی جانب توجہ اس وقت نہیں دی جانی چاہیے جب عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی سہولیات میسر ہوں؟

ضرورت تو اس امر کی تھی کہ آپ نوجوانوں کو موقع دیتے۔ پڑھے لکھے نوجوان جوش و جذبے سے نئے پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیتے تو سوچیں کہ آج پاکستان کی عمارت کتنی مضبوط ہوتی۔ یہ نوجوان نسل ہمارا مستقبل ہیں اور دورِ جدید کے تمام تقاضوں پر پورا اترتے ہیں۔ اگر آپ نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی بہت سی انفرادی مثالیں نظر آئیں گی جن میں نوجوانوں نے نمایاں کارنامے سرانجام دیے۔

جبکہ تمام سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی بجائے اپنا اپنا الو سیدھا کیا اور نوجوانوں کو لیپ ٹاپ اور نیلی پیلی ٹیکسیوں کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔

تو جناب کچھ رحم فرمائیں اپنی سیاست پر۔ نہ صرف آپ بلکہ باقی سیاسی جماعتیں بھی۔ کرسی تو کہیں سے بھی مل جاتی ہے، بس بیٹھنے کا اہل ہونا چاہیے۔ اب کرسی کے حصول کے لئے محنت تو کرنی پڑے گی نا۔ تو ازراہِ مہربانی اپنی ٹیم پر نظرِ ثانی فرما لیں۔ ورنہ سیاست صرف کبڈی کا اکھاڑہ بن کے رہ جائے گی۔ اور تمام سیاسی جماعتیں صرف ایک ہی گردان کرتی رہ جائیں گی۔ کرسی کرسی کرسی کرسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).