صحافت کرنی ہے تو اخلاقیات کو خداحافظ کہو (1)


جیسے جیسے بلیٹن کا وقت قریب آتا جاتا ہے نیوز روم میں ادب و آداب، تمیز، تہذیب موئن جو دڑو تہذیب کی طرح دفن ہوتی نظر آنے لگتی ہے، کبھی عید سے قبل کوئی جوتا یا چپل خریدنے جانے کا اتفاق تو ہوا ہوگا؟ کیا سماں ہوتا ہے وہاں؟ نیچے کھڑا دکاندار اوپر اسٹور میں بیٹھے شخص کو جوتے کا سائز اور ڈیزائن چیخ کر بتاتا ہے اور جوتے کا ڈبہ دھپ کر کے سب کے سروں پر سے گزرتا ہوا دکاندار کیچ کرلیتا ہے، تاخیر ہو تو سب کے سامنے گالیاں اور کوسنے غلط آجائے تو فی امان اللہ ، یہی حال لگتا ہے نیوز روم کا، اوئے نالائق فلاں سیاسی پیکج بھیجا یا نہیں؟ کھیل کی وہ رپورٹ اب تک کیوں نہیں گئی؟ فلاں ایز لائیو ابھی تک تم ایڈٹ پر رکھے بیٹھے ہو کیا وہ انڈے بچے دیں گے؟ ارے وہ جو لڑکی غیرت کے نام پر قتل ہوئی اس کے پیکج میں مونٹاج پر دکھیاری گانا ضرور لگا دینا ورنہ میرا بینڈ بج جائے گا، کورٹ کی خبر کہاں رہ گئی؟ اس سارے سیاپے میں اگر وزیر داخلہ چوہدری نثار ہنگامی پریس کانفرنس پر آن ائیر آجائیں تو یقین جانیں سیٹوں سے کئی کئی فٹ اچھلنے والے اسائنمنٹ ایڈیٹرز اور پروڈیوسر کو ایسے آرام آتا ہے جیسے بخار اترنے پر مریض کو۔ وزیر داخلہ یہ کہتے کہتے کہ وہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے پورا بلیٹن کھینچ جاتے ہیں یقیناً اس وقت اسٹوڈیو میں بیٹھی اینکرز بھی زیادہ نہیں تو دس بارہ سیلفیاں اتار ہی لیتی ہوں گی۔ اسی طرح جب عزت ماب جنرل آصف غفور روسٹروم پر آجائیں تو میں نے نیوز روم میں خوشی سے ڈیسک کو ایسے بجتے دیکھا ہے جیسے اسمبلی کا مچھلی بازار ہو، یہاں دھماکہ ہوجائے تو آدھے گھنٹے بعد کہیں سے آواز آتی ہے ہاں بھئی اسکور کیا ہوا؟ ہلاکتوں کی تعداد چار سے چھ ہو تو منہ بنا کر کوئی کہہ جاتا ہے چھوٹا دھماکہ ہے اور اگر کارروائی بڑی ہوجائے تو تین چار آوازیں آتی ہے چلو یار آرام کرو لمبا کام ہوگیا اب تو یہی چلے گا۔ شروع شروع میں یہ سب دیکھ کر دل کٹ سا جاتا تھا، اس بے رحمی اور سرد مہری پر دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا جاتا تھا۔مرنے والوں کا اسکور؟ اف خدایا کتنے سنگدل لوگ ہیں یہ، بم دھماکے کی کوریج پر جانے والے کیمرامین کو بجائے یہ کہا جاتا کہ بھائی زرا سنبھل کر خبر بنانے جارہے ہو خود خبر نہ بن جانا اسے کہا جاتا بھائی شاٹس اعلی چائیے، ایکسکلوزو ہو بس۔ سن کر کانوں کو یقین نہ آتاکہ یہ ایسے کیوں بولتے ہیں کیا اتنے ظالم ہیں؟

جیسے جیسے میڈیا کی دنیا میں دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ ہم بھی ان سب کے عادی ہوگئے۔ ہاں یہ اسکور، چھوٹا دھماکہ اور فرشتے شیطان والے الفاظ آج تک نہیں بولے لیکن اب سن کر ہضم ضرور ہوجاتے ہیں۔ وقت گزرتا جارہا ہے لیکن گھٹن ہے کہ بڑھتی جارہی ہے، روز صبح صحافت کے آداب سوچ کر گھر سے نکلنا ہوتا ہے لیکن کمبخت کوئی پروڈیوسر رات یہ سوچ کر سویا ہوتا ہے کہ اس نے اپنا بلیٹن بھرنا ہے کچھ سچ سے کچھ جھوٹ سے۔ ڈیسک بتاتی ہے کہ لوڈ شیڈنگ پر لائیو چائیے باہر جاو تو لوگ بتاتے ہیں کہ کچھ روز سے ہمارے علاقے میں لائیٹ گئی ہی نہیں اب اوپر بتاو تو جواب آتا ہے کہ ایسے ہی بول دیں کبھی تو گئی ہوگی ناں۔ چلیں آپ کو اور صحافیوں کی پریشانیاں بھی بتاتے ہیں ، ایک چینل ایسا ہے جس نے خود طے کر رکھا ہے کہ وہ ہر معاملے میں بازی لے جاتا ہے۔ بنوریہ ٹاون میں وینا ملک اپنے شوہر اسد خٹک کے خلاف شکایت لیکر پہنچیں تو اندر کمرے میں جانے سے کیمرامین اور رپورٹرز کو منع کردیا گیا۔ اب ایکسکلوزو کیا ہو، فون پر فون بج رہے تھے کچھ نہ ملا تو ایک کیمرامین نے وینا کا جوتا اپنے پاون سے کھسکا کر اسد خٹک کے جوتے کے قریب کردیا اور فوٹیج بنانا شروع کردی کیونکہ جناب یہ ہے ایکسکلوزو۔ ابھی حال ہی میں ایڈیٹرز سے ملاقات میں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ملاقات کی ، میں بھی وہاں رپورٹنگ کی غرض سے موجود تھی، انھوں نے فرمایا کہ کچھ ٹی وی چینلز شام سے رات تک ملک کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے خدانخواستہ یہ ملک کل نہیں بچے گا لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے عوام اب سنسنی خیزی سے تنگ آکر تفریحی چینلز کی جانب زیادہ راغب ہورہی ہے میں ان کی اس بات سے متفق ہوں، میں کسی اور کی کیا مثال دوں اپنی ہی دے دیتی ہوں شام کو گھر جانے کے بعد میں کچھ چینلز کے بلیٹن کی ہیڈ لائنز دیکھتی ہوں پورا بلیٹن نہیں۔ کیونکہ دھماکے کی آواز لگا کر رات نو بجے کے خبرنامے میں دن کی فوٹیج لگا کر جو بریکنگ کی جاتی ہے وہ باسی دال پر تڑکے سے کم نہیں ہوتی ۔ جسے میں برداشت نہیں کر سکتی۔ بریکنگ کے نام پر جس طرح خبر کی اہمیت کی دھجیاں اڑائی گئیں ہیں ایسی دھجیاں تو کسی طاقتور خودکش دھماکے کے بعد بھی نہ اڑتی ہوں۔ آج سے چند سال قبل بریکنگ کا معیار کیا ہوتا تھا؟ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، کوئی بڑی سیاسی شخصیت انتقال فرما گئی ، ٹرین کا ہولناک حادثہ یا پھر کوئی جہاز ہائی جیک یا پھر کریش ہوگیا۔ بریکنگ لکھی آتی تو لوگ جہاں ہوتے وہیں کھڑے رہ جاتے اور سوچتے کہ ضرور کوئی انہونی ہوگئی ہے اور ہوتا ایسا ہی تھا جب خبر آتی تو لوگوں میں ہلچل پھیل جاتی، آج ہم ترقی کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں اور بریکنگ یہ ہے اسکول میں بجلی نہیں ہے طلباء پریشان، انٹر کا پر چہ آوٹ ہوگیا، دو محبت کرنے والوں کی راہیں جدا کردی گئیں،شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کا ڈب امیش منظر عام پر، کئی من وزنی گائے رسہ تڑوا کر بھاگ گئی، فلاں علاقے میں غیرت کے نام پر بھائی کے ہاتھوں بہن قتل، سی کلاس اسٹیج ایکٹرس کے گھر پر فائرنگ، عمران خان، نواز شریف، مصطفی کمال اور دیگر جلسہ گاہ پہنچ گئے، فلاں رنگ کا کھسہ اور شیروانی تیار، جلسہ گاہ پہنچنے سے پہلے خواتین میک اپ کے لئے پارلر میں بیقرار، وینا ملک پر ظلم کے پہاڑ اور فضل الرحمن عمران خان کے خلاف برسر پیکار۔

ان عام سی خبروں کو خاص بنانے والے کون لوگ ہیں؟ رپورٹرز کو اگر خبر کی تحقیق، تصدیق اور اصل حقائق جاننے سے زیادہ یہ فکر ہو کہ وہ آج خبر کیا بنائے تو یہ خطرناک ہے۔ ایک چینل جو اپنی ذات میں نمبر ون ہے اس کے نمبر ون اینکر پر ایک صاحب جو اسکالر بھی ہیں، نقاد بھی، سماجی رکن بھی ہیں سیاستدان بھی جب رمضان قریب آئے تو دین سے اتنے ہی قریب ہیں کہ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ ہم سب کی بخشش کا زریعہ وہی بنیں گے آج کل میڈیا میں کام کرنے والوں کے کپڑوں کو تار تار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جب ان کو اپنا مفاد ہو تو رفوگر بھی وہ کمال کے ہیں۔ ان کا پروگرام مجھے سننے کا اتفاق ہوا۔ جی ہاں سننے کا ! میں کچھ لکھنے میں مصروف تھی اور ٹی وی لاوئنج میں سب ان کا پروگرام دیکھنے میں مصروف انھوں نے چند اینکرز کے پول پٹے کھولنے کا آغاز کیا تو کانوں میں پڑنے والے ان کے الفاظ دھماکے کی طرح محسوس ہونے لگے ا ن حضرت کا کمال ہے کہ ان پر بات ہو تو وہ جذباتی ہوجاتے ہیں اور اکثر فرماتے ہیں کہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے بہت جلد مدینہ روانہ ہوجائیں گے لیکن دوسروں کے آفس، بیڈ روم، میز کے نیچے پڑی بوتلوں سے لیکر غیر ملکی فنڈنگ تک کی رسیدیں ان کے پاس موجود ہوتی ہیں۔ میری والدہ جن کا تعلق دور دور سے صحافت سے نہیں ان کی شعلہ بیانی سن کر انھوں نے مجھے دوسرے کمرے سے بلایا اور پوچھا کہ سنو اس میڈیا میں کام کرنے والے اور یہ شو کرنے والوں کا کوئی دین ایمان ہے؟ کل تک مائنس الطاف کا مطلب میری نس کو مائنس کردو کا دعوی کرنے والا، نہ میر کو چھوڑنا نہ پیر کو چھوڑنا کہنے والا، جھوم جھوم کر نعتیں پڑھ کر اور نم آنکھوں سے دعائیں کروانے والا یہ کیا کر رہا ہے ؟

میں نے کہا امی جس طرح ایک زمانے میں ریما، میرا ریشم اپنے طور پر خود نمبر ون تھیں اسی طرح میڈیا کے اس بازار میں جو جتنا ناچے گا وہ ہی زیادہ قیمت پائے گا اور جو آداب سے صحافت کرنے کا سوچے گا وہ نہ تو گائیک کہلائے گا نا ہی نچئیا گردانا جائے گا۔ سارا کھیل ریٹنگ کا ہے اور بس۔ امی نے استغفار کہہ کر چینل تبدیل کردیا اب جو چینل سامنے آیا وہاں ایک محترم جو خود کو اپنی ذات میں سب سے بڑا صحافی سمجھتے ہیں لیکن ان کا ماضی ایک ناکام فلم ساز کا رہا ہے وہ کسی پر غلیظ انڈے پھینک رہے تھے وہ جب میڈیا میں وارد ہوئے تو کیا تھے آج سنا ہے ان کا اپنا جہاز ہے تب ہی تو چترال میں ہونے والے اے ٹی آر طیارے کے حادثے پر وہ خود ہی ہوا بازی کے ماہر بن کر عدالت لگائے بیٹھ گئے تھے۔ میرے ایک عزیز جو پائلٹ ہیں ان کا شو دیکھنے کے بعد مجھ سے بولے کہ آج ہم بہت سے پائلٹس جنھیں اٹھارہ بیس سال ہوگئے اس شعبے میں محسوس کر رہے ہیں کہ ہمیں تو کچھ آتا جاتا نہیں کتنے قابل اینکرز ہیں ہمارے پاس افسوس ہمیں ان ہیروں کی قدر نہیں۔

دوسرا حصہ: صحافت کرنی ہے تو اخلاقیات کو خداحافظ کہو (2)

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments