حفیظ خان، ملتان ٹی ہاﺅس اور اجتماعی شعور


\"maseeh

 مسیح اللہ جام پوری

کالم نگار صاحب علم ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انگریزی اور اردو ادب کا خوب مطالعہ رکھتے ہیں‘ تاریخ کے دلدادا بھی ہیں ۔ نہیں معلوم کہ ان کے ذہن میں کیا آیا اور وہ کیا لکھنا چاہتے تھے کیا لکھ گئے۔ حفیظ خان صاحب ایک روشن نام ہیں۔ انہوں نے ابن بطوطہ کے سفر نامے کا سہارا لے کر اس کی تان ملتان ٹی ہاﺅس پر جا توڑی انہوں نے جس سیاح کے سفر نامے کا حوالہ دیا ہے پوری زندگی وہ بادشاہوں کا نمک خوار رہا لیکن اس کے سفر نامے سے پوری دنیا مستفید ہوئی۔ حفیظ خان صاحب نے سفر نامے کے 520 صفحات میں سے محض ایک صفحہ کی چند سطریں لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”دلی شہر خالی کرا کے دولت آباد کو بسانا اگرچہ حکمرانی کے لحاظ سے انتہائی دانشمندانہ اور دور رس نتائج رکھتا تھا مگر رعیت کی اجتماعی دانش کے سامنے دو کوڑی کا ثابت ہوا آخر کار لوگوں کو دلی واپسی کا اذن ہوا“ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بادشاہ تغلق سات دنوں میں صرف ایک دن جمعہ کو چھوڑ کر ہر روز سینکڑوں لوگوں کے سر قلم کرا دیتا تھا۔ خونریزی اس کی سرشت میں شامل تھی، اس نے اپنے بھائی کو قتل کرایا۔ کئی جید عالم اس کی تلوار کا نشانہ بنے ۔یہ ایک طویل فہرست ہے ۔ ان میں شیخ شہاب الدین، بادشاہ کے فقیہ عفیف الدین دو سندھی مولوی شیخ رکن الدین ملتانی کے پوتے سجادہ نشین شیخ زادہ ہوود تاج العارفین شیخ حیدری جیسے جید عالم شامل ہیں۔ اس سطح کے عالموں ، سجادہ نشینوں کو تہ تیغ کرنے پر رعیت کی اجتماعی دانش کہاں کھو گئی تھی۔

خود ابن بطوطہ ہمیشہ بادشاہوں اور مال دار شخصیات کے ہاں پلتا رہا۔ چھوڑیئے ان باتوں کو نو رتن کس پائے کے دانشور ، عالم اور اہل علم تھے۔ ظاہر ہے بادشاہوں کے دسترخوان پر ہی پلتے رہے۔ فرماتے ہیں کہ ’ہمیں اب تو یہ جان لینا چاہئے کہ ادب ہو یا ادیب، اسے کسی مقتدر کے ضوابط یا کسی تاجر اور صنعتکار کی من مانی سے نہ توسروکار رہا ہے اور نہ ہی ان کی رضا میں رضائے گئے ہیں“۔ درست ہے لیکن یہ اظہاریئے ملتان ٹی ہاﺅس پر کس طرح منطبق ہو سکتے ہیں وہ تو ایک ٹھکانہ ہے ادیبوں، صحافیوں اور شاعروں کا، ایک تکیہ ہے ۔وہاں کس صنعتکار نے یا سرمایہ دار نے فرمائش کی ہے کہ ان کے لئے سوچا جائے، ان کے لئے لکھا جائے۔ انسان خود ایک خود سر بلا ہے جس کے پاس بھی سانس لینے کا اختیار ہے وہ اپنے اختیارات انتہائی سفاکی سے بروئے کار لانے میں نہیں گھبراتا اس میں صاحب اختیار ہونا،حاکم ہونا یا عام آدمی ہونے میں کوئی امتیاز نہیں۔ کیا یہ اختیار بادشاہی کی شکل میں ہو حاکم کی شکل میں ہو، چوکیدار ہو، باپ ہو یا محلے کا نمبردار، آپ کے پاس چلنے کا اختیار ہے تو پھر آپ زمین پر کیوں اترا کر چلتے ہیں۔ آپ کو سوچنے کا اختیار ہے، لکھنے کا ہنر اور اختیار ہے تو وہ کیوں نہیں سوچتے، کیوں نہیں لکھتے جس میں خلق خدا کو سہولیات میسر ہیں؟ آپ لکھتے ہیں ”تخلیقی دانشور کو کھل کر سانس لینے اور من موجی کا ماحول چاہئے کیا کہاں اور کیسا ربط جہاں دانش اور سرکار دربار میں کیا کہیں ماتحت ادبی بیٹھکیں اور ادبی جم خانے جیسے ٹی ہاﺅس بھی تاریخ ساز دانش رساں ہوئے ہیں“ پھر خود ہی فیصلہ صادر فرماتے ہیں ’ہر گز نہیں کیا یہ سوچنے اور لکھنے کے اختیار کی سفاکی نہیں ہے آپ سوال بھی خود اٹھا رہے ہیں اور جواب بھی خود فرما رہے ہیں صاحبوں ٹی ہاﺅس کے ضوابط میں کہاں لکھا ہے کہ آپ یہ سوچ سکتے ہیں یہ نہیں سوچ سکتے، یہ لکھ سکتے یہ نہیں لکھ سکتے وہ تو محض مل بیٹھنے کی جگہ ہے۔ درست ہے من موجی کی نہیں نہ ہی اہل دانش من موجی کا ماحول چاہتے ہوں گے کیا بالی کے ہوٹل میں من موجی ہوتی ہے بالکل نہیں ضیاءالحق کے دور میں ایسے قہوہ خانوں اور ہوٹلوں پر پابندی تھی رات آٹھ بجے دکانیں ، ہوٹل، کیفے اور مارکیٹیں بند کرا دی جاتی تھیں تا کہ لوگ مل بیٹھیں اجتماعی سوچ پیدا نہ ہو ، وہی دور تھا جب اجتماعی دانش کا گلہ گھونٹا گیا اہل علم شعرا، صحافیوں کے ٹھکانے تباہ ہو گئے اور اگر ضلعی انتظامیہ نے شعراءاور اہل علم کے اصرار پر عمارت کھڑی کر ہی دی ہے تو اس سے دانش کے سوتے کہاں بند ہوئے جا کر وہاں کس نے پابندی لگا دی ہے بس گٹر کے کنارے بیٹھنے کی بجائے صاف ستھری جگہ فراہم کر دی گئی یہی وجہ ہے پورے شہر کے اہل علم اس کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے پیش پیش ہیں اور مختلف اضلاع سے یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ وہاں بھی ٹی ہاﺅس بنائے جائیں۔ لاہور میں پاک ٹی ہاﺅس بند کر دیا گیا تھا بالاخر حکومت پنجاب کی مالی امداد سے بحال ہوا۔ وہاں تو کسی نے اعتراض نہیں کیا بلکہ اہل دانش نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ پاک ٹی ہاﺅس چلانے کیلئے گرانٹ دی جائے۔

آپ فیض ، فراز، جالب کی بات کرتے ہیں یہ تو بتائیں وہ کہاں من موجی کرتے تھے۔ جن ادوار میں وہ راندہ درگاہ ہوئے ان ادوار میں پورے کا پورا ملک عذاب سے دو چار تھا۔ لکھنے والوں نے خوب لکھا تھا، بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، اجتماعی دانش کہاں چلی گئی تھی؟ ملتان ٹی ہاﺅس ملتان شہر کے لوگوں اور بطور خاص اہل دانش کے لئے ایک تحفہ ہے۔ تحفے قابل قدر سمجھے جاتے ہیں۔ اس کا تحفظ کیا جاتا ہے اور ہاں اجتماعی دانش کی بات ہو رہی تھی تیمور لنگ نے شہر کے شہر برباد کر ڈالے شرفاءکی گردنیں اڑا دیں ان کے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کو غلام بنا کر اگلے شہر میں بیچتے رہے۔ نادر شاہ نے دلی کے ساتھ کیا کیا؟ احمد شاہ ابدالی ابھی کل ہی کی بات ہے، کس طرح چھایا؟ اس وقت کے اہل دانش کے اجتماعی شعور کو کیا ہوا تھا ؟ وہی بات ہے یہ حاکمیت تک بات محدود نہیں جس کو بھی سانس لینے کا اختیار ہے وہ اپنے اختیار کو اس طرح استعمال کرتا ہے جیسے وہ چاہتا ہے۔ مجھے اب بھی نہیں معلوم، خان صاحب آپ اپنے کالم میں کیا کہنا چاہتے تھے؟ کیا کہہ گئے اور کس طرح کہہ گئے ؟ چھوڑیئے سب باتیں، منصور بن حلاج کے مثلہ کا اس وقت کے تمام عالموں نے فتویٰ دیا تھا؟ اس وقت بھی اجتماعی دانش گنگ رہی ،جناب والا تغلق کے دلی کی بجائے دولت آباد بسانے کے فیصلے کا تعلق اور پھر دلی کو آباد کرنے کا ربط کسی اجتماعی دانش کا رد عمل نہیں تھا۔ ابن بطوطہ نے آگے جا کر یہ بھی تو لکھا ہے کہ بادشاہ ایک رات اپنے محل کی چھت پر چڑھا اور شہر کی طرف دیکھا تو اس کو آگ نہ دھواں نہ چراغ کچھ نظر نہ آیا۔ بادشاہ نے کہا ، ’اب میرا دل ٹھنڈا ہوا ‘ پھر اور شہروں کے باشندوں کو حکم دیا کہ دلی میں آکر رہیں چنانچہ اور شہر بھی خراب ہو گئے لیکن دلی آباد نہ ہوئی۔ حرف آخر یہی ہے کہ کسی کو ٹی ہاﺅس کی عمارت بننے پر اعتراض ہے ‘ اس میں بیٹھنے والے لوگوں سے کوئی شکایت ہے یا بنانے والوں پر غصہ ہے؟ تو بات کھلنی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments