ایران کی دھمکی، جنرل باقری اور غیرجذباتی باقر خوانیاں


 یہ میرا “فورٹے” نہیں، مگر کل شام سے یار لوگوں کے ردعمل پڑھ رہا ہوں جس میں غصہ سے لے کر طنز اور نفرت، سب کا ہی آمیزہ میسر دیکھنے کو ملا۔ کچھ ایسی باتیں بھی سننے کو ملیں کہ جس میں پاکستانی ریاست اور اسکی فوج کے علاوہ معاشرے کو بھی طرح طرح کے “دلچسپ” طعنے مارے گئے۔ آپ سب میری طرح پاکستانی ہیں، اور اگر معاشرے کی ہلکی پھلکی نبض جانتے ہیں تو “پڑھی لکھی مڈل کلاس” کی زبان کو سمجھتے ہوں گے، لہذا الفاظ کا دہراؤ بےمعانی و لایعنی ہے۔

 کہنا یہ ہے کہ ایرانی فوجی سربراہ نے بنیادی طور پر اپنے سٹیٹ-کرافٹ کے بھدے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوسرے ممالک میں ایسے جا کر نشانہ بنانے کی یہی بات چند ماہ قبل مشرق کے ہمارے ہمسائے سے بھی آئی تھی۔ آج کسی کو یاد بھی ہے؟ اور کیا برآمدگی تھی اس کی؟ یہ مگر خود کو تسلی دینے کی بات نہیں، بلکہ اک مناسب سا خیال ہے کہ جس میں پاکستان کے فوری ردعمل کی بجائے، خاموشی اور شاید کل سے سفارتی ذرائع سے ہی اس مسئلہ کو اٹھائے جانے کے بعد، محترمی باقری صاحب کی زبان بندی ہو چکی ہوگی، جنہوں نے ایسی کارروائیاں کرنا ہوتی ہیں، وہ ڈھول نہیں بجاتے، کر گزرتے ہیں۔

 یار لوگ اگر اسے راج کی محبت نہ سمجھیں تو سچ یہ ہے کہ انگریزوں نے برصغیر پر بھلے بےتحاشا ظلم کیے ہوں (آجکل ششی تھرور کی کتاب کے بڑے چرچے ہیں)، مگر اک عظیم احسان یہ بھی کرگئے کہ تحریری قوانین تخلیق کر گئے، جو گو کہ انہوں نے اس زمانے میں اپنی ضروریات کے تحت تخلیق کیے تھے، مگر ان کے جانے کے بعد، انڈیا بالخصوص اور پاکستان، کچھ کم بالخصوص، لکھے ہوئے قانون پر ہی اکثریتی کاربند ملیں گے۔ ایران و افغانستان میں یہ “سہولت” مہیا نہ ہوسکی۔ افغانستان میں تو بالکل بھی نہ ہوسکی، گوکہ وہ بھی تاریخ کے تقریبا ہر دور میں کسی نہ کسی کے قابو میں ہی رہے، اور ایران والے اپنی عجمی شناخت کے زعم میں ایسے ڈوبے تھے، اور ہیں کہ وہ ہر قسم کے بیرونی اثرات کے مسلسل نفی میں ہیں، تو لہذا، ایرانی فوجی صاحب نے وہ کہہ دیا، جو کہہ دیا۔ آخری حقیقت میں اس کا اثر کچھ بھی نہیں، کہ اگر ایرانی افواج ایسی کسی کارروائی کا مظاہرہ کرتی ہیں، تو قوی امید ہے کہ پاکستانی جنرل صاحبان، کہ جن کے دہان مبارک سے ابھی پرسوں “مسلمان بھائی” کا عجیب دانشمندانہ لفظ برآمد ہوا، جواب دیں گے اور خوب دیں گے۔ پاکستانی فوج پر آپ جو بھلے مرضی ہے کہتے رہیں، یہ لڑنے والی فوج ہے، گو کہ مجھے معلوم ہے کہ کچھ مثالیں یار لوگوں سے کیسی کیسی آئیں گی۔

 اگلی بات اس دن ہوگی جس دن باقری صاحب سائرس کے عظیم تخت پر سوار، سرحد پار آئیں گے۔ لہذا، آپ شام کی چائے خراب نہ کریں۔ ٹھنڈے رہیں۔

 ویسے کیا باقری آئیں گے، اور کیا اس امید پر آئیں گے کہ پاکستانی فوجی انہیں مسلمان بھائی سمجھ کر ان کو کشمیری چائے میں باقرخوانیاں پیش کریں گے؟

 فُٹ نوٹ: ریاست کا والی وارث اس کی عوام اور اس کے ادارے ہوتے ہیں، کوئی دوسری ریاست مسلمان یا غیرمسلم بھائی، بہن، ابا، چاچا، اماں یا پھوپھو نہیں ہوتے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے ہزاروں سال سے مروج اس ریاستی بےرحمی سے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے، جو ریاستوں کا وطیرہ ہوتا ہے۔ یہ “مسلمان بھائی” والے جنتر منتر کی میرا ملک، میرے لوگ پہلے ہی بہت قیمت دے چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).