مظفر گڑھ میں انصاف نے شعلوں کا راستہ ڈھونڈ لیا


مظفرگڑھ میں ایک اور قابل مذمت واقعہ ہواہے، جس میں طاقتوروں کے بگڑے زادوں نے غریب شہری کو اس بنا پر ہنڑوں سے لمبا ڈال لیا کہ اس نے لڑکیوں کو چھیڑنے سے منع کیا تھا مطلب ایک چوری اوپر سے سینہ زوری چل رہی ہے۔ اس داداگیری کے معاملے نے بھی حسب معمول دب ہی جانا تھا لیکن موقع پر موجود سمجھدار وں کی طرف سے بنائی گئی وڈیو نے پولیس کے بڑوں کو جگایا کہ تھانہ شہر سلطان کی حدود میں طاقتوروں نے چوک میں ہنڑوں سے معصوم شہری کی کھال ادھیڑ لی ہے۔ شہری کو اندھا دھند مارنے والوں کو اس بات کا یقین تھا کہ معاملہ گول ہو جائے گا کیوں کہ ان کے” مرشد” حکمران جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ادھر اطلاعات ہیں کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مظفرگڑھ نے ٹی وی چینلوں پر ویڈیو کے آنے کے بعد سیاسی داداگیروں کو مداخلت نہ کرنے کا مشورہ دے کر ملزموں کو گرفتارکروا لیا۔ متاثرہ خاندان کو انصاف کا یقین دلایا گیا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
بھلاکون چاہے گا کہ مظفرگڑھ پولیس بھی سندھ کے ضلع عمر کوٹ کے ایس ایچ او کی طرح وڈیرے زید تالپور کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی تذلیل کروائے اور پورے ادارے کے لئے ذلت ورسوائی کا بندوبست کرے۔ مظفرگڑھ پولیس کی پھرتیوں کے باوجود دل میں وسوسہ ہے کہ ایک بارپھر قانون مذاق بنے گا ۔ ایک بارپھر وہی ہوگا جوکہ طاقتور اور پولیس ملکر عام شہریوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ راقم الحروف کے ذہن پر منفی سوچ ذہن پر غالب کیوں آرہی ہے؟ اس کے پیچھے کون سے وہ عوامل ہیں جو کہ پولیس کارروائی کو مشکوک کر رہے ہیں ۔ مظفرگڑھ میں سیاست کے نام پر داداگیری اور پولیس گردی اس حد تک جااچکی ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ ضلع مظفرگڑھ میں مافیا راج کر رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ مظفرگڑھ میں تین واقعات ایسے ہوئے ہیں جوکہ ہمیشہ مظفرگڑھ کے سیاستدانوں اور پولیس کے چہرے پر بدنما داغ کی صورت میں رہیں گے۔
مظفرگڑھ میں زیادتی کا شکار ہونے والی بیٹیوں اور بہنوں کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو سچ ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کو عملی طور پر قربان کرنا پڑتا ہے ۔ مثال کے طور پر مظفرگڑھ کے بیٹ ھزار خان کی رہائشی فسٹ ائر کی اٹھارہ سالہ طالبہ آمنہ بی بی کالج سے گھر واپس آرہی تھی کہ جب ملزم نے ساتھیوں کی مدد سے ویرانے میں اس کی عزت لوٹی۔ اس کی زندگی اجاڑ کر رکھ دی ۔ والدین بیٹی کے ساتھ تھانے گئے، ملزمان بااثرتھے، پولیس نے آمنہ بی بی کے ساتھ زیادتی کا مقدمہ درج کرنے بجائے زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج کر لیا۔ مطلب پولیس زیادتی کا شکار آمنہ بی بی کو انصاف دلانے کی بجائے ملزموں کے ساتھ مل گئی۔ مقدمہ کمزور کیا، ادھر ملزموں کی عدالت سے ضمانت ہوگئی۔ اس پولیس گردی پر زیادتی کا شکار آمنہ بی بی او ر دیگر خاندان کے افراد پولیس اسٹیشن بیٹ ھزار خان گئے تاکہ احتجاج کرسکیں لیکن پولیس نے ان کی بات سننے کی بجائے ان کو تذلیل کے بعد تھانے سے ہی نکال دیا ۔ پولیس کے تحقیقاتی افسر ذوالفقار کا رویہ انتہائی تضیحک آمیز تھا۔ کالج کی فسٹ ائر کی طالبہ آمنہ بی بی پولیس کی طرف سے مایوس ہوئی تواس نے تھانہ بیٹ ھزار کے سامنے اپنے آپ پر پٹرول چھڑک کر خود کو آگ کے سپرد کردیا، یوں معصوم بچی آگ کے شعلوں میں بری طرح جل کر مر گئی ۔ خادم اعلی شہبازشریف کی طرف سے آمنہ بی بی کو انصاف دلانے کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عثمان اکرم گوندل نے ایس ایچ او انسپکڑ رائے شاہد، سب انسپکڑ ادریس اور اے ایس آئی ذوالفقار کو معطل کیا۔ مقدمہ درج ہوا لیکن آمنہ بی بی کو انصاف پھر بھی نہ ملا۔ ادھر بیٹ میر ھزار خان کا ایس ایچ او رائے شاہد جوکہ آمنہ بی بی کے مقدمہ میں مرکزی کردار تھا اور اس کے ساتھ زیادتی اور خود سوزی تک ایس ایچ او تھانہ بیٹ میر ھزار خان تھا، آمنہ بی بی کی زندگی کی قربانی کے باوجود بھی رائے شاہد جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ہے۔ ادھر سب انسپکڑ ادریس مظفرگڑھ کے معروف صحافی فاروق شیخ کے مطابق قانون کو ماموں بنا کر تھانہ چوک سرور شہید میں ایس ایچ او لگا ہوا ہے۔ یوں معصوم آمنہ بی بی قیمتی جان دے کر بھی انصاف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
مظفرگڑھ میں ایک اور افسوس ناک واقعہ اس وقت سامنے آیا جب مظفرگڑھ کی ایک اور بیٹی سونیا بی بی کا الزام تھا کہ اس کو دو پولیس اہلکاروں سب انسپکڑ نور حسین، کنسٹبل قیوم دستی نے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا ہے لیکن اس کی درخواست کے باوجود پولیس مقدمہ درج نہیں کررہی ہے ۔ پولیس کے اس روئیے پر وہ دوھری پریشان یوں تھی کہ ایک طرف اس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی، دوسری طرف اس کا مقدمہ درج نہیں کیا جا رہا تھا ۔ پولیس اس کے موقف پر کان دھرنے کی بجائے پیٹی بھائیوں کو بچا رہی تھی ۔ اس کی تذلیل کی جارہی تھی ۔ آخری کوشش کے طور پر زیادتی کا شکار سونیا بی بی تھانہ صدر مظفرگڑھ کے ایس ایچ منیر چانڈیہ کے پاس گئی لیکن موصوف نے اس کی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کی بجائے اس کو دھکے دے کر تھانہ سے ہی نکال دیا ۔ یوں سونیا بی بی نے دلبرداشتہ ہوکر اپنے اوپر پڑول چھڑ ک لیااور آگ لگالی، لمحوں میں سونیا بی بی آگ کے شعلوں میں جل مری، حسب معمول وزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے آمنہ بی بی کی طرح سونیا بی بی کو بھی انصاف دلانے کا اعلان کیا ۔ پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا لیکن نتیجہ وہی نکلا جوکہ آمنہ بی بی کے کیس میں نکلا تھا کہ سونیا بی بی منوں مٹی کے نیچے جا سوئی اور وزیراعلی کے دعوﺅں اور اعلانات کے باوجود سونیا کے ملزمان انجام سے دوچار نہیں ہوئے بلکہ جس ایس ایچ او منیر چانڈیہ نے سونیا بی بی کو تھانہ سے دھکے دے کر نکالا تھا وہی اب انچارج سی آئی اے سٹاف مظفرگڑھ تعینات ہے،ادھر سب انسپکڑ نور حسین ڈیرہ غازی خان میں پولیس کا نام روشن کر رہا ہے۔
مظفرگڑھ کے تھانہ خان گڑھ کی رہائشی ثمینہ مائی نے آگ میں جل مرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب پولیس نے اس کے مدعی شوہر کو ملزم بنا کر تھانہ میں وہی سلوک کیا جو کہ اس کا طرہ امیتاز ہے ۔ معاملہ اتنا تھا کہ ثمینہ کے شوہر کا زمین کے معاملے پر رشتہ داروں سے لڑائی جھگڑا ہوا۔ ثمینہ کے شوھرنے اپنے تئیں عقل مندی سے کام لیتے ہوئے تھانہ خان گڑھ جانے کا فیصلہ کیا ۔ تھانہ پہنچا، ملزموں کے خلاف درخواست دی، ملزموں کو پکڑوانے کے لئے کارروائی کا انتظارکرنے لگا لیکن تھوڑی وقت کے بعد پتہ چلا کہ دوسری پارٹی کی سفارش آ گئی ہے اور پولیس نے ثمینہ مائی کے شوہر کو مدعی کی بجائے ملزم بنا کر حوالات بند کردیا ۔ ثمینہ کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔ ادھر بھاگی ادھر بھاگی لیکن تھانہ میں کون سنتا ہے ۔ پھر وہی ہوا کہ مایوسی کے عالم میں تھانے سے باھر نکلی اور پٹرول لیا اور وہی کیا جوکہ آمنہ، سونیا پہلے کرچکی تھیں اور ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گئیں تھیں ۔ ادھر ثمینہ مائی کے شوھر کو تھانہ خان گڑھ میں مدعی سے ملزم بنانیوالا ایس ایچ او رمضان شاہد ایس ایچ او جتوئی لگا ہوا ہے جبکہ اے ایس آئی نجم شاہ تگڑی سفارش کی بدولت اسی تھانہ خان گڑھ میں ہی تعینات ہے۔
ادھر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں جاگیر دار کی طرف سے ایس ایچ او تھانہ کنری کے ساتھبدسلوکی اور سیاسی مداخلت سے ملزمان چھڑانے کے واقعہ کا نوٹس لے لیا اور آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی۔ ہمارے خیال میں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب عمر کوٹ کے واقعہ کے ساتھ مظفرگڑھ میں اوپر بیان کردہ دلسوز واقعات پر بھی ازخود نوٹس لیکر اس بات کا جواب انسپکڑ جنرل پنجاب سے لینا چاہیے کہ آخر ان معصوم بچیوں کے ملزموں کا کیا بنا جوکہ پولیس کے ہتک آمیز روئیے کے بعد اپنے آپ کو مظفرگڑھ کے تھانوں کے سامنے آگ کے سپرد کرکے انصاف، انصاف کرتے جل کر مرگئیں ۔ اس کا بھی آئی جی پنجاب سے پوچھنا چاہیے کہ آخر کار جن پولیس اہلکاروں کی قانون شکنی کی وجہ سے تین معصوم بچیاں اپنی زندگی ختم کرنے پر تل گئی تھیں، ان کو کیا سزا ملی؟ اور پھر ان کو مظفرگڑھ کے تھانوں کے انچارج اور ایس ایچ او شپ کس کے کہنے پر ملی ہے ۔ میں ایک کربناک کیفیت گزرتے ہوئے آج کا کالم ذیل کے شعر پر ختم کرتا ہوں، معاشرہ کے دوسرے افراد کی طرح میں بھی بہنوں بیٹیوں والا ہوں اور قلمی جنگ کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).