پاکستان میں گندی سیاست کا ایک اور باب


 حکومت اور پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کو اپنے سیاسی معاملات طے کرنے کا اکھاڑہ بنایا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ پاناما کیس کے علاوہ اب عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کےلئے درخواستوں پر بھی غور کر رہی ہے۔ یہ مقدمہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے دائر کیا ہے اور اس میں عمران خان سے بنی گالہ میں اپنی عالیشان رہائش گاہ کی خریداری کے حوالے سے سوال کئے جا رہے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف مزید دو مقدمے قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے ایک میں اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس مقدمہ میں نواز شریف سمیت کئی سیاستدانوں پر 1990 کے انتخابات سے پہلے ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے رقوم وصول کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس فیصلہ کی روشنی میں تحقیقات کرنے اور قصور واروں کو سزا دلوانے کےلئے اقدام نہیں کیا تھا۔ تحریک انصاف کی طرف سے دوسرے مقدمے میں نواز شریف پر القاعدہ کے بانی اور عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد اسامہ بن لادن سے ڈیڑھ ارب روپے وصول کرنے کا الزام عائد کیا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف یہ مقدمہ آئی ایس آئی کے سابق افسر خالد خواجہ کی بیوہ کی کتاب میں فراہم کی گئی معلومات کی بنیاد پر دائر کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح ملک میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوگا اور الزام تراشی کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔

حکومت کی طرف سے بھی عمران خان سے انتقام لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران زیادہ تلخی اسی لئے پیدا ہوئی تھی کہ ایک طرف عمران خان اور ان کے ساتھی روزانہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف الزام تراشی کرتے تو اس کا جواب دینے کےلئے وفاقی وزرا، وزیراعظم نواز شریف کے مشیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما جوابی الزام تراشی کرتے۔ اس منفی سیاسی طریقہ کار اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ملک کے بیشتر ٹاک شوز میں بھی روزانہ کی بنیاد پر ان معلومات پر بحث کی جاتی اور مزید کیچڑ اچھالنے کا اہتمام کیا جاتا۔ وزیراعظم سے مالی معاملات کا حساب مانگنے کی سزا دینے کے لئے حکومت کے ترجمانوں نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ حنیف عباسی کی طرف سے عمران خان اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کی درخواستیں دراصل اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے دائر کی گئی ہیں تاکہ جوابی وار کے طور پر تحریک انصاف کے لیڈروں کو بدنام کرنے کا اہتمام کیا جا سکے۔ اس کا افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس سیاسی تگ و دو کا حصہ بن چکی ہے۔ پہلے پاناما کیس کے حوالہ سے مقدمہ سننے کا حکم صادر ہوا لیکن اس کی سماعت کے دوران ان تمام لوگوں کے معاملات کی تحقیقات کیےئے کوئی انتظام کرنے کی بجائے جو ان انکشافات کی رو سے آف شور کمپنوں کے مالک ہیں اور اس طرح کالا دھن ملک سے باہر لے جانے کا سبب بنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کو عمران خان اور تحریک انصاف کے خواہش کے مطابق نواز شریف اور ان کے خاندان کے مالی معاملات تک محدود کر دیا۔

یہ درست ہے کہ نواز شریف اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں اور مالی معاملات میں ان سے ترجیحی بنیادوں پر جوابدہی ہونی چاہئے لیکن یہ بھی درست اقدام نہیں ہو سکتا کہ پاناما پیپرز میں کئی سو پاکستانی شہریوں کو آف شور کمپنیوں کا مالک دکھایا گیا ہو لیکن اس کی بنیاد پر صرف ایک شخص کے خلاف کارروائی کی جائے جو اتفاق سے ملک کا وزیراعظم بھی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی عمران خان کی طرح یہ باور کر لیا ہے کہ اگر نواز شریف کی مالی بے ضابطگیوں کو ثابت کیا جا سکے تو باقی ماندہ ملک از خود درست ہو جائے گا۔ گو کہ نواز شریف قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں تقریر کے ذریعے اپنے خاندان کے مالی معاملات کی ذمہ داری قبول کرنے کےلئے خود سامنے آئے تھے ورنہ پاناما پیپرز میں براہ راست ان کا نام موجود نہیں تھا۔ اگر وزیراعظم گزشتہ اپریل میں اس حوالے سے اٹھنے والے سیاسی طوفان میں خاموشی اختیار کرتے تو شاید پاناما کیس کبھی یہ شکل اختیار نہ کرتا۔ اس مقدمہ میں بھی تحریک انصاف کے پاس انٹرویوز اور اخباری تراشوں کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں تھا اور وہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ تاہم سپریم کورٹ کے ججوں نے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا بوجھ نواز شریف اور ان کے بچوں پر ڈال کر مقدمہ کو پیچیدہ ، سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو وسیع اور سیاست میں عدلیہ کی مداخلت کو قبول کرنے کی روایت کو مستحکم کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے حوصلہ پانے کے بعد ہی تحریک انصاف اب نت نئے الزامات میں وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خاص طور سے فواد چوہدری نے نواز شریف پر بدنام زمانہ دہشت گرد اسامہ بن لادن سے ڈیڑھ ارب روپے لینے کا جو الزام عائد کیا ہے، اس سے ایک تو ملک کی سیاسی فضا مزید مکدر ہوگی اور دوسرے ایک منتخب وزیراعظم کو بالواسطہ دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ رویہ ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم اب یوں لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی کسی بھی قیمت پر نواز شریف سے اقتدار چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ رویہ اس شبہ کو بھی قوی کرتا ہے کہ عمران خان کا مقصد عوام کی بہبود اور ملک کے نظام کی اصلاح نہیں ہے بلکہ وہ کسی بھی طرح ملک کا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے وہ نواز شریف کو اس حد تک کمزور اور بے بس کرنا چاہتے ہیں کہ وہ 2018 کے انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے کے قابل نہ رہیں۔ لیکن اس کوشش میں وہ یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان میں انتخابی مہم نیک نامی یا ماضی میں حاصل کی گئی کامیابیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ نت نئے نعروں اور مخالفین کو بدنام کرنے کے ایجنڈے پر چلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہم ہو تا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے خاندان، قبیلے یا گروہ کسی پارٹی کو کامیاب کروانے میں قابل ذکر کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لئے آصف زرداری مقدمہ بازی کی بجائے اس وقت اپنا زیادہ وقت سیاسی جوڑ توڑ میں صرف کر رہے ہیں تاکہ 2018 کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کو ہر صوبے میں منتخب ہونے کے اہل لوگوں اور خاندانوں کی حمایت حاصل ہو سکے۔

پاکستان تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اگر وہ نواز شریف کو بدعنوان اور بدنیت قرار دلوا سکے یا اس بارے میں اپنے پروپیگنڈا کے زور پر عوام کی اکثریت کو یہ باور کروا سکے کہ وہ صادق اور امین اور قابل اعتبار نہیں ہیں تو لوگ جوق در جوق عمران خان کی حمایت میں باہر نکل آئیں گے۔ تحریک انصاف کی یہ حکمت عملی کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔ نواز شریف کے خلاف کوئی فیصلہ آنے کے باوجود یہ طے نہیں ہوگا کہ لوگوں کی اکثریت عمران خان کو غیر متنازعہ رہنما تسلیم کر لے گی۔ اس طرح 2018 کے انتخابات میں جب تحریک انصاف ایک بار پھر ناکامی کا سامنا کرے گی تو دھاندلی اور بے ایمانی کا غلغلہ پہلے سے بھی زیادہ بلند ہوگا۔

یہ حکمت عملی عوام کو جمہوریت اور سیاستدانوں سے بدظن کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس طرح فوج پر انحصار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں بڑی تعداد میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانی کا حق فوج کو ہی ملنا چاہئے۔ یہ سوچ پیدا کرنے والے سیاسی لیڈروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا طرز عمل اسی شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہے جس پر ان کا بسیرا ہے۔ یعنی عمران خان انتخاب میں کامیابی کے ذریعے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں لیکن اگر ان کی پیدا کردہ بے اطمینانی اور انتشار میں فوج کی طرف سے کوئی جمہوریت مخالف اقدام ہوتا ہے تو جمہوریت کے ساتھ سیاسی لیڈروں کی دکانداری طویل عرصہ کےلئے بند ہو سکتی ہے۔ لیکن عمران خان سمیت ملک کے حکمران بھی اس بات کو سمجھنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ جس طرح تحریک انصاف نواز شریف کو بے ایمان کہنے کے بعد اب دہشت گردوں کا ساتھی قرار دلوانا چاہتے ہیں، اسی طرح مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ اگر سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن عمران خان کو نااہل قرار دے تو ان کےلئے میدان ہموار ہو جائے گا۔ یہ سوچ بھی اتنی ہی خطرناک اور منفی ہے جس کا مظاہرہ تحریک انصاف کی طرف سے ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ICT اور کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی CDA نے بنی گالہ کی جن 122 املاک کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں گرانے کی تجویز دی ہے ان میں عمران خان کا گھر بھی شامل ہے۔

اس دوران الیکشن کمیشن نے بھی عمران خان کی نااہلی کی ایک درخواست پر از سر نو سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک دوسرے کا گریبان پکڑے سیاستدان ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں اس ملک کی شہرت اور نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ رویہ تبدیل نہ ہوا تو عوام کی رائے سے عوام کی خدمت کےلئے نظام استوار کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اس سے بے خبر فی الوقت ملک کے سیاست دان سپریم کورٹ کے احاطے میں اپنی گندی سیاست کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali