قوموں کی زندگی میں ایک دن


دنیاکی دو اہم ترین اور ایٹمی ہتھیار رکھنے والی قوموں کی زندگی میں ایک دن کی کیا حیثیت ہے؟ہم سب اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایک دن کوئی قابل ِ ذکر عرصہ نہیں ہوتا۔ لیکن پھریہ بات بھی ہے کہ ایسے بہت سے دن ہوتے ہیں جن کے چوبیس گھنٹے عشروں پر محیط ہوتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔

اُس روزہمارے ملک میں مندرجہ ذیل رپورٹس میڈیا کی زینت بنیں:

جمعے کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی، جس کے لئے ابتدائی طور پر بیس ملین روپے کا بجٹ مختص کیاگیا۔ اس جے آئی ٹی کا قیام جوڈیشل اکیڈمی کمپلیکس میں ہوگا ، اور اسے سپریم کورٹ کے تفویض کردہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے ۔ اپوزیشن نے اسے ایک ’’تاریخی دن ‘‘ ، اور وزیر ِ اعظم نواز شریف کے سیاسی تابوت میں آخری کیل قرار دیا ہے ۔

اُسی روز، جمعے کو ہم نے ایک اور واقعہ، جس کی نوعیت بالکل مختلف تھی، کو بھی شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ یہ چمن بارڈر پر افغان فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپ تھی۔ کابل نے ہمارے علاقے پر شیلنگ کرتے ہوئے گیارہ شہریوں کو ہلاک اور کم و بیش چالیس کو زخمی کردیا ۔ یہ جھڑپ ایک طرح کی چھوٹی سی جنگ تھی ، کیونکہ کابل نے بھی ایک درجن یا اس سے زائد ہلاکتوں کا اعتراف کیا ۔ اُسی روز ایک اور خبر بھی نمایاں تھی۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس فیصلے کی غلط تشریح کرنے اور عوام کے سامنے دروغ گوئی سے کام لینے پر ’’ایک لیڈر‘‘کی سرزنش کی ۔ محترم جج صاحبان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنمائوں کو اس حد تک نہیں گر جانا چاہیے ۔

اُسی روز عمران خان نے نوشہرہ میں ایک جلسہ کیا جہاں اُنھوں نے ایوب خان کے مشہور دورۂ امریکہ کی ایک پرانی فوٹیج دکھاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دوسری اقوام ’’عظیم رہنمائوں ‘‘ کا کس طرح استقبال کرتی ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کا مذاق اُڑانے کے لئے اُن کی صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کے غیر متاثر کن کلپس دکھائے گئے ۔ ایوب خان کی ایسی ارفع منظر کشی کرتے ہوئے عمران خان بھول گئے کہ فوجی آمریتوں نے پاکستان کی یک جہتی پر کس قدر تباہ کن اثرات مرتب کیے ، اور کس طرح بنگلہ دیش کی بنیاد ایوب دورمیں ہی رکھ دی گئی تھی ۔ پی ٹی آئی کے قائد کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ ایوب خان نے امریکہ کو پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی کھلی اجازت دی ہوئی تھی ۔ چونکہ وہ واشنگٹن کے اہم مفادات کے تحفظ کے لئے پوری تندہی سے خدمات سرانجام دے رہے تھے، اس لئے سرد جنگ کے دوران وہ امریکہ کے چہیتے تھے ۔ خیر یہ بھی ماضی کا حصہ ہے کہ کس طرح امریکہ نے ’’انتہائی من پسند آمر‘‘ کا اسٹیٹس واپس لیتے ہوئے ایوب خان کی دل شکنی کی ، لیکن جب آپ ایوب خان کے مقابلے پر نواز شریف کی بے توقیری کو دکھارہے ہوں تو آپ بعد میں ایوب کے ساتھ برتی گئی امریکی بے اعتنائی کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھیں گے ،اور نہ ہی وہ پیش رفت آپ کے موضوع کو تقویت دے گی۔لیکن گوگل کے تعاون سے وکی پیڈیا پر تاریخ کو اسمارٹ فون پر پڑھنے کا یہ شاخسانہ تو ہوتا ہے ۔ یا پھر ہم تاریخ کے صرف اُس پہلو سے واقف ہونا اور اسے اجاگر کرنا بہتر سمجھتے ہیں جو ہمارے موقف کی حمایت کرتا ہو ۔

جمعے کو وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کے درمیان بھی ملاقات ہوئی ۔ نیوز چینلز کی رپورٹس کے مطابق اس ملاقات نے سات دن پہلے کی ٹویٹ سے پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنے میں مدد کی ۔ تاہم میڈیا رپورٹس نے بوجوہ اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ مذکورہ ٹویٹ سے صرف ابہام ہی نہیں پھیلاتھا،یہ ملک کے وزیر ِ اعظم کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے بھی مترادف تھی ،کیونکہ کہا گیا تھا کہ اُن کا حکم نامہ قابل ِ قبول نہیں۔ وزیر ِاعظم کو مرتبے سے گرانے کے بعد اُسی متوازی اتھارٹی نے ’’ابہام ‘‘دور کرنے کے لئے اُن سے ملاقات بھی کی ۔

اس کے بعد سے فیصلہ سازی کا عمل تعطل کا شکار ہے ۔ جمعے کو شائع ہونے والے مضامین میں کچھ لکھاریوں نے اس بات کو موضوع بنایا کہ ایک ’کیمپ ‘ کو کاری گھائو لگا ہے ، جبکہ دوسرا کیمپ دادوتحسین سے مزین انبسا طی لمحے کا لطف اٹھا رہا ہے ۔ اُس دن کے اخبارات کا مطالعہ (یہ بات دیگر ایام پر بھی صادر آتی ہے)ظاہر کرتا ہے کہ تمام اہم امور میں اسٹیبلشمنٹ ہی پالیسی سازی کررہی ہے، جبکہ حکومت طے کردہ پالیسی کی پیروی کرتی ہے ۔ جہاں اختلاف ہو، وہاں خاموشی کو بہترین حکمت ِعملی سمجھا جاتا ہے ۔ اس بات کی تفہیم کے لئے کسی کو بقراط ہونے کی ضرورت نہیں کہ ابہام دور کرنے کے لئے جمعے کو ہونے والی میٹنگ اپنی جگہ پر ، لیکن آنے والے دنوں میں دونوں کیمپوں میں خلیج زیادہ وسیع ہوگی۔ اور ایسا اُس وقت ہورہا ہے جب ہمارے ملک کی سرحدوں پر جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں، جبکہ ملکی کی داخلی فضابھی گہری ہورہی ہے ۔ کیا تزویراتی یا فعال حکمت عملی کے طور پراسے کوئی دانائی کہا جاسکتا ہے ؟

سرحد پار، بھارت میں جمعے کو کیا ہوا؟انڈیا سے مندرجہ ذیل میڈیا رپورٹس آئیں:

بھارتی وزارت ِ خارجہ کے مطابق ،’’انڈیا نے اپنے چھوٹے ہمسایوں کے ساتھ شیئر کرنے ، خطے میں اپنی ساکھ قائم کرنے اور چینی اثرکا توڑکرنے کے لئے ایک مواصلاتی سیارہ خلا میں چھوڑا۔ فی الحال افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ نے اس سے استفادہ کرنے کے لئے دستخط کیے ہیں۔ ان کے رہنما سیٹلائٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے ۔ ’’سائوتھ ایشیا سیٹلائٹ ‘‘معاہدے میں شریک ممالک کو ٹیلی وژن سروسز اور بنک اے ٹی ایم اور ای کامرس کے لئے کمیونی کیشن ٹیکنالوجی پیش کرے گا۔ اس کے علاوہ یہ سیلولر نیٹ ورکس کو خاص طور پر اُن علاقوں میں رابطے کی سہولت فراہم کرے گا جہاں زمینی رابطے کمزور ہیں۔ ‘‘بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مسٹر مودی نے بھارت کے ہمسایوں کے لئے اس سیٹلائٹ کو ایک ’’بیش بہا تحفہ ‘‘ قرار دیا ہے ۔ بھارت کے اس ’’تحفے ‘‘ کی خلائی دوڑ میں شریک دنیا میںکوئی مثال نہیں ، کیونکہ دیگر تمام علاقائی سیٹلائٹ معاہدے کمرشل انٹر پرائزز ہیں۔ چنانچہ نریندر مودی ISRO کی ایک نئی جہت متعارف کرارہے ہیں۔ اگر یہ معاہدہ کمرشل ہوتا تو اس پر شریک اقوام کو 1,500 ملین ڈالرخرچ کرنے پڑتے ۔

ہمیں اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ مستقبل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے ہمار ے روایتی حریف نے پیش قدمی کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اگر چہ بھارت کو ہوشربا داخلی مسائل کا سامنا ہے اوراس کی نصف کے قریب آبادی غربت کا شکار ہے لیکن اس نے مستقبل کے امکانات میں اپنی جگہ بنانے کے لئے داخلی اتفاق ِرائے پید ا کرلیا ہے ۔ دوسری طرف ہم ذاتی عظمت اور پذیرائی کا جھومر اپنے ماتھے پر سجانے کے خبط میں داخلی تنائو اور انتشار کا شکار ہیں۔ آزادی کے وقت سے ہی جو مسائل ہمارے درپے ہیں، اُن میں سے سنگین ترین تباہ کن سیاسی ہٹ دھرمی ہے۔

ہمارے ہاں سیاست، جو اگرچہ بھارت یا دنیا میں اور کہیں بھی شریف آدمی کا کھیل نہیں، گزرتے ہوئے ماہ و سال میں بطور خاص آلودہ ہوتی گئی۔ اب تو یہ خود کشی کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔ نہ ختم ہونے والے سیاسی ڈراموں نے ہر کسی کی توانائی نچوڑ کررکھ دی ہے اور قوم کو بے دم ساکردیا ہے۔ صورت ِحال اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ تھوڑی سی مثبت خبر بھی اب پروپیگنڈا دکھائی دیتی ہے(جیسے نواز شریف صاحب نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کی ہیڈ ریس ٹنل کا جمعے کو افتتاح کیا) اور ہم کندھے جھٹک کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اس سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔

سول ملٹری تعلقات، جس کا نمونہ ایوب دور سے طے چلا آرہا ہے، اب خطرناک حد تک پریشان کن ہے۔ اس کا تعلق صرف وزیر ِاعظم نواز شریف سے نہیں ۔ معین قریشی اور شوکت عزیز کے سوا ملک کے ہر وزیر ِاعظم کو اس کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پریشانی اس نازک دور میں اپنے عروج پر ہے جب ہر ادارے کی فعالیت میں ہم آہنگی ہونی چاہیے تھی تاکہ فیصلے کیے جاسکیں اور ان کا نفاذممکن بنایا جاسکے۔ پاکستان کی گورننس کے اس بنیادی مسئلے کا تعلق عشروں پر محیط اس کشمکش سے ہے جو اپنی اپنی اہمیت کے زعم میں مبتلا افراد کے درمیان جاری رہتی ہے۔ اس کی موجودہ حالت مستقبل کے تمام انتخابی عمل کو بے معانی بنا سکتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اقتدارکس کے پاس ہے، ایسا ہونہیں سکتا کہ ہمہ وقت دو طاقتیں مخالف سمت میں زور لگارہی ہوں اور آپ یہ گمان کریں کہ ملک کو موثر طریقے سے چلایا جارہا ہے۔ اُسے جمہوریت یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز نہیں کہا جاسکتا جہاں منتخب شدہ اداروں کی ایگزیکٹو اتھارٹی کسی ادارے کی کارکردگی کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ جائے۔ اگر ایک فوج کو دو متوازی کمان نہیں چلا سکتیں تو ایک سے زائدایگزیکٹوز کے احکامات ایک ملک کو کس طرح چلاسکتے ہیں؟ ایسا کسی طور نہیں ہوسکتا ہے، لیکن افسوس، ہم نے گزشتہ سات عشروں کے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا۔

ہوسکتا ہے کہ جمعے کی خبروں کا تقابلی جائزہ بھارت اور پاکستان کو درپیش پیچیدگیوں کی آسان تشریح ہو، لیکن ایک بات طے ہے کہ ملکی ترقی کے لئے عشروں پر محیط اور مسلسل سیاسی استحکام، کمانڈ کی یکسوئی اور معاشی نموکی ضرورت ہے،اور ایسا صرف اس صورت میں ہوگا جب مختلف اداروں کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق ِ رائے تشکیل دینے والے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی روایت موجود ہو۔ وہ ممالک جو ان اصولوں کو مقدم سمجھتے ہیں، وہ مواصلاتی سیارے چھوڑ کر خطے پر اپنا اثر قائم کررہے ہیں، اور جن کو اس منطق کی سمجھ نہیں آتی، وہ جے آئی ٹی اور ٹویٹ لانچ کررہے ہیں۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).