عورت کا لباس اور ہمارے برانگیختہ جذبات – مکمل کالم


مولانا وحید الدین خان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یہ ثانیہ مرزا نیکر پہن کر ٹینس کھیلتی ہے تو بطور مسلمان عورت کیا ان کے لیے یہ لباس موزوں ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ جب ثانیہ مرزا ان سے اپنے لباس کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے بارے میں پوچھیں گی تو وہ انہیں بتا دیں گے، آپ ثانیہ مرزا کے لباس کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔

کچھ باتیں طے شدہ ہیں مگر دہرانے میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً ہر شخص کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ اپنی رائے کا برملا اظہار کرے، اسی آزادی کے تحت اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ورزش کرتی ہوئی لڑکی یا کسی اشتہار میں رقص کرتی ہوئی عورت ہمارے مذہب اور اقدار کی عکاسی نہیں کرتی تو یہ رائے رکھنا اس کا حق ہے بالکل اسی طرح جیسے یہ متضاد رائے رکھنا کسی دوسرے شخص کا حق ہے کہ عورتوں کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی آزادی ہونی چاہیے۔

اظہار رائے کی حد تک اس معاملے میں کوئی جھگڑا نہیں، لوگ اپنے اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلائل دیتے ہیں، عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجے میں رائے عامہ ہموار ہوتی ہے، پالیسی ساز اداروں پر دباؤ بڑھتا ہے اور پھر نئی قانون سازی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی نظریے کے پرچار کا یہی درست طریقہ ہے۔ مسئلہ مگراس وقت شروع ہوتا ہے جب فریقین دلائل دینے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کردیں۔ قدامت پسند طبقات اگر مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں پر یہ فتوی صادر کرنے لگیں کہ آپ راہ راست سے بھٹکے ہوئے اور گمراہی پر ہیں تو پھر بحث دلائل کے زور پر نہیں کی جا سکتی، اسی طرح لبرل نظریات کے حامل افراد اگر مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں کو ذہنی مریض کہہ کر طعنے دینے لگیں تو بھی بحث جاری نہیں رہ سکتی۔

یہ بحث دراصل فحاشی کی نہیں شخصی آزادی کی ہے۔ جو آئین ہمیں اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے وہی آئین ہمیں شخصی آزادی بھی دیتا ہے۔ جھگڑا تب شروع ہوتا ہے جب کوئی فرد از خود شخصی آزادی کا دائرہ کار طے کرنے بیٹھ جائے اور دوسروں کو بتانا شروع کردے کہ اس کی آزادی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ جدید معاشروں نے شخصی آزادی کی حدود کا تعین یہ کہہ کر کیا کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے، گویا ہر شخص اپنی ذات کی حد تک آزاد ہے بشرطیکہ اس کی آزادی سے دوسروں کی آزادی سلب نہ ہو اور لوگوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔

ہمارے ہاں شخصی آزادی والا معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔ یہاں قدامت پسند طبقے کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ ایک عورت کا چست لباس میں سر عام پھرنا شخصی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا، یہ صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، ہماری اقدار کے منافی ہے اور امر با المعروف و نہی عن المنکر کے تحت بطور مسلمان ہمارا فرض ہے کہ اس برائی کو ’ہر طریقے سے‘ روکیں۔ اسی استدلال کے تحت جب ثانیہ مرزا نیکر پہن کر ٹینس کھیلنا شروع کرتی ہے یا کوئی اداکارہ شیمپو کے اشتہار میں پانی کے ٹب میں بیٹھی نظر آتی ہے تو ہمارے جذبات برانگیختہ ہو جاتے ہیں او ر پھر کہیں کوئی مرد ناہنجار کسی کمسن بچی کو ریپ کر کے اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دیتا ہے۔ کیا یہ دلیل درست ہے؟

بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں کم از کم بیس کروڑ مسلمان تو ہوں گے، ان بیس کروڑ مسلمانوں میں نصف کے قریب عورتیں ہیں، اگر یہ دس کروڑ مسلمان عورتیں آج تک اپنا بھلا براہی نہیں سمجھ پائیں اور ایک اسلامی ملک میں رہتے ہوئے انہیں اب تک یہ ہی پتا نہیں چل سکا کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے انہیں کس قسم کے کپڑے پہننے چاہئیں، ہماری اقدار کیا ہیں، عریانی کسے کہتے ہیں، عورت کا وقار کیا ہوتا ہے، فحاشی کی حدود کیا ہیں۔ تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دس کروڑ مسلمان مردوں پر یہ تمام تصورات واضح ہو چکے ہیں اور یہ دس کروڑ مرد صراط مستقیم پر ہیں؟

جب ہم یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک عورت کا لباس جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے، اس سے معاشرے میں فحاشی پھیلتی ہے جو باقی برائیوں کا سبب بنتی ہے تو ہم دراصل شخصی آزادی کے تصور کو رد کر رہے ہوتے ہیں اور اس ضمن میں مذہب کو ڈھال بناتے ہیں جبکہ بیس کروڑ مسلمانوں کے اس معاشرے میں یہ بات طے کرنا کہ کون سی بات امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے زمرے میں آتی ہے کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ عوام کی منتخب پارلیمان کا کام ہے۔

اگر بیس کروڑ لوگ اپنے اپنے طور پر یہ طے کرنے لگ جائیں کہ برائی کیا ہے، عریانی کیا ہے، کس عورت کا لباس فحش ہے اور کس کا شرعی اور پھر ایک دوسرے پر اپنی مرضی مسلط کریں تو لا محالہ اس کا نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں نکلے گا۔ ویسے یہ عورتوں کے لباس والی دلیل بھی خوب ہے، ایک طرف تو ہم مغرب کے لتے لیتے ہیں کہ وہاں فحاشی و عریانی اپنے عروج پر ہے، برہنہ ساحل ہیں، نائٹ کلب ہیں، جذبات برانگیختہ کرنے کا پورا سامان ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ وہی ممالک عورتوں کے لیے سب سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں! آنجہانی جنرل ضیا الحق کی حکومت میں کوئی فحاشی نہیں تھی، اسلامی سزائیں نافذ تھیں، اس کے باوجود عورتوں سے زیادتی کے واقعات میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی، الٹا جس عورت سے گینگ ریپ ہوتا اسے زنا کے جرم میں جیل بھیج دیا جاتا کہ کم از کم اس نے تو ’زنا کا اعتراف‘ کر لیا ہے۔

جس طرح سائنس نے یہ بات طے کر دی ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اسی طرح دنیا میں بعض سیاسی اور سماجی تصورات بھی طے ہو چکے ہیں جن سے پیچھے ہٹنا اب ممکن نہیں۔ جیسے غلامی کا جدید دنیا میں کوئی تصور نہیں، جامعہ اظہر سے لے کر آکسفورڈ تک اب یہ بات تسلیم شدہ ہے، کوئی مانے یا نہ مانے اب غلام یا لونڈی نہیں بنائے جا سکتے حالانکہ دو سو سال پہلے تک یہ عام بات تھی۔ شخصی آزادی کا تصور بھی اب مسلمہ ہے، ہمیں پسند ہو یا نہ ہو، اچھا لگے یا برے، جلد یا بدیر ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر مرد عورت اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں آزاد ہے، جس طرح آپ کسی کو عبادت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے اسی طرح آپ کسی کے لباس پر، طرز زندگی پر یا ’بے راہ روی‘ پر اعتراض نہیں کر سکتے، دل میں کڑھنے کی البتہ اجازت ہے۔ دنیا یہ تمام باتیں طے کر کے اب آگے نکل چکی ہے، دنیا نے یہ جان لیا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں بھی انسان ہیں، ہر کام کرنے میں مختار ہیں اور مردوں کو ان کی آزادی پر قدغن لگانے کا کوئی اختیار نہیں۔ جن معاشروں نے یہ ماڈل اپنا رکھا ہے وہاں عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے اور جن معاشروں نے جنرل ضیا والا ماڈل اپنایا ہوا ہے وہاں عورتیں ہجرت کر کے جانے کو تیار نہیں۔

اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ مغربی ماڈل مثالی ہے، وہاں شخصی آزادی کے اس تصور کے منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں، ہم لوگ دراصل انہی اثرات سے خوفزدہ ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے بچیاں مغربی رنگ میں رنگ جائیں، ہمارا یہ خوف بے بنیاد نہیں ہے۔ ان معاشروں میں جہاں بچیوں کے اسکولوں میں نویں جماعت سے مانع حمل کے بارے میں سمجھایا جاتا ہو تاکہ وہ کسی ’ناگہانی‘ مشکل میں نہ پڑ جائیں، وہاں پر رائج شخصی آزادی کے تصورات کو اپناتے ہوئے خوف تو محسوس ہوگا۔

اگر ہم اس سمت میں نہیں جانا چاہتے تو پھر ہمیں معاشرے میں رائج گھٹن کو ختم کر کے اپنے بچوں کی تربیت ان خطوط پر کرنی ہوگی جن کی مدد سے وہ بڑے ہو کر عورتوں کو احترام کی نظر سے دیکھیں اور انہیں فقط جسمانی تسکین کا سامان نہ سمجھیں، پھر ہمیں ٹینس کھیلتی ہوئی عورت، بسکٹ کھاتی ہوئی خاتون اور ورزش کرتی ہوئی لڑکی فحش نہیں لگے گی۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada