سندھی چینی بمقابلہ وفاقی چینی


یادش بخیر وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی سندھ اور وفاق میں چینی کے مسئلے پر بحث مباحثہ پر تبصرہ کرتے تو کہتے ’چینی تو چینی ہوتی ہے چاہے وہ سندھی چینی ہو یا وفاقی چینی ہو یا پھر پنجابی چینی‘ مگر حقیقت بالکل مختلف ہے۔

وفاق کی چینی کا معاملہ الگ ہے، پنجاب کی چینی کا معاملہ اور ہے اور سندھ کی چینی کا معاملہ بالکل ہی مختلف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ اور وفاق کی طرف سے دی گئی سبسڈی پر اختلافات میں سیاست کار فرما ہے۔

اس حوالے سے کئی سازشی کہانیاں گردش میں ہیں۔ پہلی کہانی تو یہ ہے سندھ نے کورونا کے معاملہ میں جو اچھا امیج بنایا ہے اس کا توڑ کیا جائے۔ سندھ حکومت کے خلاف الزامات میں اصل ٹارگٹ اومنی گروپ یا آصف علی زرداری ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کی شدید بیماری اور موت کی افواہیں پھیلانے کا مقصد یہ ہے کہ زرداری اشتعال میں آ کر یا رد عمل دکھا کر کسی سیاسی سرگرمی میں شریک ہوں اور یوں ان کی گرفتاری کا جواز بن جائے جبکہ دوسری طرف آصف علی زرداری بھی سیاسی داؤ پیچ کے ماہر ہیں وہ نہ تو اشتعال میں آرہے ہیں اور نہ ہی رد عمل دکھانے کو تیار ہیں۔ انھیں علم ہے کہ ابھی دو تین ماہ سیاست میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں، اس لیے پس منظر میں رہنا ہی فائدہ مند ہے۔

اسلام آباد کی سازشی راہداریوں میں یہ سرگوشیاں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ سندھ میں کورونا کے حوالے سے بہترین انتظامات اور پھر میڈیا میں اسکے مثبت تاثر کو پیدا کرنے میں سندھ کے طاقتور ادارے کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ اسلام آباد کی سیاسی حکومت کو اس حوالے سے معلومات ملیں تو پھر اس کا توڑ کرنے کی کوشش کی گئی۔

چینی سکینڈل پر سندھ حکومت اور وفاق میں محازآرائی کو اس پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بڑی تصویر کو دیکھا جائے تو شوگر کمیشن انکوائری رپورٹ نے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کا رگڑا نکال دیا گیا ہے۔ نون لیگ کا شریف خاندان ہو، پیپلز پارٹی کا زرداری خاندان ہو یا پھر پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین، خسرو بختیاراور مونس الہی، سبھی شوگر کارٹل سے فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

عمران خان نے کولیٹرل ڈمیج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مخالفین کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی مگر فرینڈلی فائر کی زد میں آنے والے مخدوم خسرو بختیار، اسد عمر اور وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار کے لیے آنے والے دنوں میں مشکلات بھی پیدا کر دی گئی ہیں۔

پاکستان میں بد قسمتی یہ ہے کہ زراعت سے جڑی صنعتیں اور سرکاری محکمے سادہ لوح کاشتکار کا شدید استحصال کرتے ہیں۔ سبزی منڈیاں اور فروٹ منڈیاں کاشت کاروں سے سستے داموں میں خریدتی ہیں اور مہنگے داموں بیچتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مڈل مین سب سے زیادہ امیر ہے جبکہ کاشتکار سب سے غریب۔ یہی حال پٹوار اور تھانے کا ہے، دونوں دیہی آبادیوں اور کاشتکاروں کا استحصال کرتے ہیں۔

گنا، گندم، کپاس اور چاول ہمارے خطے کی بڑی فصلیں ہیں۔ گندم ، کپاس اور چاول تو صدیوں سے آڑھتی خریدتے ہیں جبکہ گنا براہ راست کاشتکار سے مل خریدتی ہے۔ شروع میں یہ کیش کراپ یعنی نقد جنس تھی اور کاشتکار کو فوراً ادائیگی ہو جاتی تھی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا شوگر ملز نے بھی آڑھتیوں والے استحصالی ہتھکنڈے شروع کر دیے۔

ادائیگیوں میں تاخیر، سرکاری قیمت سے کم قیمت میں خرید، ڈی زوننگ اور پھر سب سے بڑھ کر حکومت سے سبسڈی یہ سب پیسے بنانے کے گر ہیں۔ آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے نام شوگر ملز کے اونر ہیں۔

شوگر انڈسٹری کو مراعات بھی انھی سیاستدانوں کی سر پرستی کی وجہ سے ملتی ہیں وگرنہ کئی انڈسٹریاں تباہ ہو گئیں، کئی ایک کو نقصان ہوا لیکن ان کا کوئی پرسان حال تک نہیں۔

چینی
زراعت سے جڑی صنعتیں اور سرکاری محکمے سادہ لوح کاشتکار کا شدید استحصال کرتے ہیں

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور سندھ کی انصافی قیادت کو علم ہے کہ صوبہ سندھ میں سیاسی تبدیلی لانا بہت مشکل ہے۔

تبدیلی تبھی ممکن ہے کہ مقتدر قوتیں آئین اور قانون کی حدود پار کر کے جام صادق یا ارباب غلام رحیم والا ماحول واپس لائیں لیکن مقتدر طاقتیں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے ساتھ ایسی خفگی نہیں رکھتیں کہ سندھ حکومت کو ہٹانے کے در پے ہو جائیں۔

وفاقی حکومت نے سندھ میں تبدیلی کے امکانات معدوم دیکھ کر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے جسد کے نرم حصے یعنی سافٹ بیلی آصف علی زرداری اور ان کے شوگر بزنس کو ٹارگٹ بنایا۔

بقول وفاقی حکومت کے ترجمانوں کے آصف زرداری سندھ میں 18 شوگر ملز کے مالک ہیں اور اسی طرح پنجاب میں شریف خاندان کی بھی کئی شوگر ملز ہیں۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کو کرپشن کا بیانیہ سیاسی طور پر بہت راس آتا ہے۔ پاکستان کی مڈل کلاس کو یہ بیانیہ اس لیے اچھا لگتا ہے کہ ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی محرومیوں کے ذمہ دار نواز شریف اور آصف زرداری ٹھہرتے ہیں۔ یہ بیانیہ یونانی المیہ ڈراموں کی طرح مڈل کلاس کو کیتھارسس کا موقع فراہم کرتا ہے مگر یہی بیانیہ دراصل حقیقت سے فرار کا ایک مؤثر بہانہ بھی ہے، بجائے اس کے کہ ملک میں انتظامی، سماجی اور عدالتی اصلاحات کی جائیں اور نوکر شاہی کے سرخ فیتے کو ختم کیا جائے۔

اس مشکل کام میں ہاتھ ڈالنے کی بجائے یہ کتنا آسان ہے کہ ہر برائی کا ذمہ دار اپنے سیاسی مخالفوں کو ٹھہرا کر آپ خود کو اعلیٰ اخلاقی سطح پر لے آئیں۔

سندھ اور وفاق کی نوک جھونک اور لڑائیاں دراصل اخلاقی برتری کی جنگ ہے۔ پچھلے الیکشن میں تحریک انصاف کو شہری سندھ سے کافی حمایت ملی اور وہ کراچی میں کافی نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی مگر پی ٹی آئی کے اراکین اور شہری سندھ کے ووٹرز تک وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں پہنچا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی تسلسل کی وجہ سے تساہل کا شکار نظر آتی ہے، جس طرح پنجاب میں تیز رفتار ترقی ہوئی ویسی سندھ میں نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ وفاق سے ملنے والا سندھ کا کم حصہ(شیئر) ہے۔

معاشی تنگ دستی کے باوجود مراد علی شاہ نے سڑکوں کی تعمیر، تھر کی ترقی اور شعبہ صحت میں ایسے کام کر دکھائے ہیں جس سے وفاق پر سیاسی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اسی لیے وفاق سندھ حکومت پر کرپشن اور نا اہلی کے الزام لگا کر اپنے بیانیے کو سچا ثابت کرنا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سہیل وڑائچ

بشکریہ: روز نامہ جنگ

suhail-warraich has 34 posts and counting.See all posts by suhail-warraich