کیا تصادم کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے؟


پاکستانی سول حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان ڈان اخبار کی خبر کے تناظر میں پیدا ہونے والے تنازعے کو حل کرنے کے لیے فوج کی جانب سے پیش قدمی نے سول اور فوجی قیادت کے درمیان تصادم کے خطرے کو فی الحال ٹال دیا ہے۔

منگل کے روز وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی زیر صدارت کابینہ کے اہم ارکان کے ساتھ غیر رسمی اجلاس کے بعد بعض صحافیوں کو ‘سرکاری ذرائع’ نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم نے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے 29 اپریل کو ‘ٹویٹ’ کے ذریعے ان کے اسی دن جاری ہونے والے حکم نامے کو مسترد کرنے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کو بتایا تھا کہ آئی ایس پی آر نے ناشائستہ جلد بازی میں یہ ٹویٹ کیا جو ناقابل قبول ہے۔ وزیراعظم کی موجودگی میں اس اجلاس کے شرکا نے، انہی سرکاری ذرائع کے مطابق سویلین بالا دستی پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

یہ خبر آج کے بعض اخبارات میں شہ سرخی کے طور پر شائع ہوئی تو ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے اسے فوج اور حکومت کے درمیان تنازعے میں ایک نئی شدت سے تعبیر کرتے ہوئے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ بعض تجزیہ کاروں کی تو یہ رائے بھی سامنے آئی کہ وزیر اعظم نواز شریف فوجی سربراہ کے ساتھ براہ راست تصادم کے رستے پر چل پڑے ہیں کیونکہ اس بات میں کسی کو شک نہیں ہے کہ آئی ایس پی آر کے اعلان فوجی سربراہ کی رائے کا اظہار ہی ہوتے ہیں۔

تاہم اس خبر کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد فوجی ترجمان کی جانب سے اپنی ٹوئٹ کو واپس لینے کے اعلان نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ فوجی قیادت نے وزیر اعظم نواز شریف کے اس بلواسطہ پیغام کو، جس کے لیے میڈیا کا سہارا لیا گیا، مثبت انداز میں لیا اور اس پر تنازعے کو مزید ابھارنے کے بجائے پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس صورت میں جبکہ وزیر اعظم یا حکومت کی طرف سے ڈان لیکس کے بارے میں کوئی نیا نوٹیفیکش جاری نہیں کیا گیا فوجی ترجمان کا یہ کہنا کہ وزیر اعظم کی جانب سے ڈان لیکس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات پر عمل کر دیا گیا ہے، ان کے اپنے پہلے بیان سے مکمل پسپائی اختیار کرنے کے مترادف ہے۔

کیونکہ میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے بدھ کے روز جاری کیے گئے بیان کےبعد وزارت داخلہ نے جو ایک صفحہ میڈیا کو جاری کیا اس میں کسی نئے حکم یا اقدام کا ذکر نہیں ہے۔

فوجی ترجمان کی جانب سے اپنی 29 اپریل کی ٹویٹ واپس لینے کے لیے جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں ملک میں آئین اور جمہوریت کی حمایت کے لیے فوج کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

اس عزم کا اظہار بتاتا ہے کہ فوج کی جانب سے اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے جو پیش قدمی بدھ کے روز دکھائی ہے اس کے پیچھے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے اس بیان کا بھی کردار ہے جس میں انھوں نے آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کو جمہوریت کے لیے زہر قاتل قرار دیا تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کا بیان اس زہر کا تریاق ثابت ہو گا؟

یہ بات حتمی طور پر کہی نہیں جا سکتی کیونکہ ڈان لیکس وہ واحد معاملہ نہیں ہے جس پر فوج اور سول قیادت کے درمیان اختلافات ہیں۔ نواز شریف نے حال ہی میں بھارتی تاجر سجن جندل سے ملاقات کی ہے جسے فوجی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا۔ اسی طرح فوج کرپشن اور گورننس کے معاملات پر بھی فوج کی جانب سے رائے زنی کی جاتی رہی ہے جس پر وزیر اعظم کے قریبی حلقے نا پسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں۔

(آصف فاروقی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp