شادی کی ویب سائٹس کا غلط استعمال


ایک دوست ہے میری جس کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور ابھی تک بیاہ نہیں ہوا۔ والدین نے اب کہہ دیا ہے کہ بیٹی ہم تو نہیں ڈھونڈ سکتے، خود ہی ڈھونڈ لو بر۔ کہنے لگیں کہ ایک شادی کی ویب سائٹ پر رجسٹر ہوئیں اور اپنا پروفائل بنایا۔ پروفائل میں تصویر لگانے کے علاوہ تعلیم ، عمر اور جسمانی خدوخال جیسے قد اور جسامت کے بارے میں تفاصیل لکھنا پڑیں اور ان سب تفصیلات کے بعد، جن لوگوں نے رابطہ کیا اور جتنی واہیات گفتگو کی وہ بیان اور برداشت سے باہر ہے۔ ایک صاحب نے یہاں تک کہا کہ جب خود کو مارکیٹ میں پیش کرو گی تو ایسا ہی ہو گا۔

ایک تو ہمارے ہاں کوئی بھی چیز اس مقصد کے لئے استعمال نہیں ہوتی جس کے لئے وہ بنائی جاتی ہے۔ شادی کی بہت سی ویب سائٹس پر لوگ صرف وقت گزاری کے لئے ایسی خواتین سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں جو چند پیسوں کے عوض ان سے ملاقات کر سکیں اور اس کے نتیجے کے طور پر اگر کوئی سنجیدہ خاتون وہاں پروفائل بنا لے تو اسے بھی اسی لاٹھی سے ہانک دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر درست استعمال کیا جائے تو یہ ویب سائٹس ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کو قریب لانے کا ایک اچھا ذریعہ بن سکتی ہیں کیونکہ ان ویب سائٹس کو بنانے کا مقصد یہی تھا کہ آن لائن ایک دوسرے کو جاننے کے بعد لوگ اگر مناسب سمجھیں تو اصل زندگی میں آن لائن بننے والے اس رشتے کو ایک قدم آگے لے جائیں۔ آن لائن کسی کو ابتدائی طور پر جاننا محفوظ بھی ہے اور کسی کو ملنے سے پہلے اس کے خیالات اور سوچ کے بارے میں جاننے کا ایک اچھا ممکن طریقہ بھی۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ ان سائٹس پر چندایک صحیح اور واقعی ہی میں سنجیدہ لوگوں کے علاوہ تقریباً تمام لوگ ہی غلط سوچ اور مقاصد سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر لڑکی کا پروفائل کوئی بزرگ بنا لے تو شاید پھر بھی بہتر سمجھا جاتا ہے مگر لڑکی کے خود بنائے گئے پروفائل کو تو عموما ًبس ایک دعوت ہی سمجھا جاتا ہے۔

مغربی معاشرے میں کسی جوڑے کی شادی یا رومانوی نیت سے ملاقات ڈیٹ کہلاتی ہے۔ وہاں پر بہت سی ڈیٹنگ ویب سائٹس ہیں جو باہمی رابطے کا ذریعہ ہیں۔ میرے ایک ڈچ آن لائن جاننے والے گورے کو اپنی بیوی بھی ایک ایسی ہی ڈیٹنگ سائٹ پر ملی تھی اور میرا ایک امریکی کلائنٹ ایسی ہی ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ خود چلا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہاں اگر ایک ویب سائٹ جوڑوں کو قریب لانے کے مقصد سے بنائی گئی ہے تو وہ اسی مقصد سے استعمال ہو گی۔ وہاں ایک ڈیٹنگ کی ویب سائٹ پر کوئی بھی پیسے دے کر خاتون کا قرب تلاش نہیں کرے گا کیونکہ اس مقصد کے لئے علیحدہ ویب سائٹس موجود ہیں۔

جب پاکستان میں انٹرنیٹ نیا نیا آیا تو اس وقت بہت سے ایسے شادی شدہ جوڑے دیکھنے میں آئے جو ایم آئی آر سی یا کسی اور چیٹ روم میں آن لائن ملے تھے۔ اس وقت انٹرنیٹ کی پہنچ ہر شخص تک نہیں تھی اور صرف چند لوگ ہی آن لائن آتے تھے، ان میں بھی مشترک قدریں تلاش کرنا آسان تھا۔ اب کچھ لوگ فیس بک کو جنس مخالف سے رابطہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر یہ متوقع جوڑے کو ملانے کے لئے ایک صحیح پلیٹ فارم نہیں ہے نہ ہی اسے اس مقصد کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے، اور نہ ہی ہر کسی کو دوستی یا بات چیت کے لئے فیس بک پر پیغامات بھیجنا کسی بھی طریقے سے مناسب ہے۔ ہمارے ہاں نئی ٹیکنالوجی بھی آ جاتی ہے اور نئے طریقے بھی، مگر ہر چیز اس قدر غلط طور سے استعمال ہوتی ہے کہ لوگ پھر سے پرانے روایتی طریقوں پر ہی لوٹ جاتے ہیں۔

روایتی طور پر ہمارے ہاں لڑکیوں کو بہت سینت سنبھال کر پروان چڑھایا جاتا ہے، خاص خیال کیا جاتا ہے کہ کہیں اکیلی نہ آئیں جائیں۔ سہیلیوں کے گھر جانے کی اجازت مشکل سے دی جاتی ہے مگر جب شادی کا وقت آتا ہے تو نمائشی گڑیا کی طرح سجا سنوار کر بھانت بھانت کے اجنبی لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔

کسی بھی لڑکی کے والدین سے پوچھ لیجیے، جب رشتہ کے لئے لڑکے کی والدہ شادی دفتر کی وساطت سے فون کرتی ہیں تو قد، عمر ، تعلیم اور والد کا پیشہ وغیرہ تو ویسے ہی ان کے علم میں ہوتے ہیں۔ مزید سوالات بھی رنگت کی سفیدی اور جسمانی خدوخال کے ناپ تول سے زیادہ کسی بارے میں نہیں ہوتے۔ امی کی ایک دوست بتانے لگیں کہ ان کی بیٹی کے قدوقامت اور نقوش کے تیکھے پن کی ساری تفصیل جاننے کے بعد لڑکے کی والدہ نے کہا کہ کیا آپ کے گھر لڑکی کو دیکھنے کے لئے آنے سے پہلے آپ ہمیں اپنی بیٹی کا وزن بتا سکتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بہن قربانی کا یہ دنبہ ہم نے ابھی تولا نہیں۔

ایک رشتے کروانے والی خاتون نے بتایا کہ تقریباً سب لڑکے والوں کو شادی کے لئے لمبی اور گوری لڑکی درکار ہوتی ہے اور سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ڈاکٹر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے ڈیمانڈ کا لفظ کچھ یوں استعمال کیا جیسے کسی پراڈکٹ کی بات ہو رہی ہو۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی کی تمام خوبیاں، تعلیم، سلیقہ، سوچ اور اچھائی چھوڑ کر صرف اس کو لڑکے کی والدہ یا پھر اس کا پورا خاندان صرف گھور کر اور دیکھ کر اس کے مستقبل کا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ پھر جب خواتین کے حقوق کی بات ہو تو یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے زیادہ عورت کی عزت اور حقوق تو کسی معاشرے میں ہیں ہی نہیں۔ مگر جس طرح ہر شریف لڑکی کی عزت نفس کو اس کے گھر جا کر سو بار کچلا جاتا ہے اس کی تو کوئی بات ہی نہیں کرتا۔

لیکن بتائیں کہ کیا کیا جا سکتا ہے؟ کوئی نیا طریقہ متعارف ہوتے ہی اس کو جس طرح غلط طور سے استعمال کیا جاتا ہے اس کے بعد پھر گھر گھر کی اس کہانی کا اور کیا حل رہ جاتا ہے؟

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim