وزیرستان میں چند روز – سلیم صافی صاحب کی خدمت میں چند گزارشات


محترم سلیم صافی صاحب گذشتہ دنوں آپ نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا اور واپسی پر بعنوان ”چند روز وزیرستان“ میں ایک کالم دو مئی کو لکھا جس میں اپ نے ایسا تائثر دیا کہ گویا شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن حقائق وہ نہیں جو آپ نے دیکھے ہیں اور لکھے ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے اور یہ بھی کہ یہ حقائق آپ کے صرف گوش گزار کروانا مقصود ہے کسی فرد یا ادارے کو اس میں ٹارگٹ کرنا ہر گزمقصود نہیں۔

آپ نے لکھا ہے کہ تبدیلی آگئی ہے جو کہ ایک حقیقت ہے لیکن کالم میں صرف تبدیلی کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے جو کہ بہت کم مقدار میں ہیں، تبدیلی کے ان پہلوؤں کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ جہاں پہلے میرانشاہ اور میرعلی کی 19000سے زائد کے دکانیں اور کاروباری مراکز تھے آج وہاں اْلو بول رہے ہیں اور مارکیٹوں کے مقام پر چیٹل میدان ہیں۔ آپ کے علم میں شاید کسی نے لایا نہیں ہو گا کہ ان مارکیٹو ں کا صرف تعمیراتی خرچہ مجموعی طور پر 16ارب روپے بنتا ہے جبکہ ان دکانوں میں سامان تجارت جو کہ اربوں روپے کا تھا الگ سے تھا۔ کیا کسی نے آپ کو اس حوالے سے بتا یا کہ ان مارکیٹوں کی تباہی کا طالبانئزیشن سے کیا لینا دینا تھا جہاں صرف میر علی بازار میں 35 ہزار لوگوں کا روزگار چلتا تھا۔ اور ساتھ یہ بھی کسی سے پوچھا کہ ان مارکیٹوں اور دکانداروں میں سے کتنوں کو معاوضہ دیا گیا ہے۔

کالم میں آپ جس امن سے سب سے زیادہ متاثر دکھا ئی دیتے ہیں اس میں کو ئی شک نہیں کہ وزیرستان میں امن قائم ہوا ہے لیکن کیا اس امن کے پیچھے درجنوں چیک پوسٹوں پر وزیرستانیوں کی تذلیل کے بارے میں بھی معلوم کرنے کی کو شش کی۔ کیا آپ کو سیدگی چیک پوسٹ پر خواتین اور مردوں کی اس تپتی دھوپ میں قطاروں کا نظارہ کرایا گیا؟ اور کیا یہ بھی بتایا گیا کہ ایک بار جب ہر کسی کو واپسی کے مرحلے میں وطن کارڈ دیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ محب وطن اور صاف کردار کا مالک ہے اس کے بعد اتنی تذلیل آمیز چیکنگ کی کیا تْک بنتی ہے۔

آپ نے اپنے کالم میں چار آرمی پبلک سکولوں اور کیڈٹ کالجز کا تو ذکر کیا لیکن آپریشن کے دوران غیر فعال ان 900 سکولو ں کا کوئی ذکر نہیں کیا جس میں ایک لاکھ دس ہزار کے قریب بچے پڑھ رہے تھے اور جو گذشتہ تین سال سے سکولوں سے باہر ہیں جن کے لئے نہ تو پرائیویٹ سطح پر اور نہ ہی سرکاری سطح پر کو ئی متبادل انتظام کیا گیا ہے۔ جن میں سے اکثر بچوں نے معاشی تنگی کے باعث تعلیمی سلسلے کو خیرباد کہہ دیا ہے اور اجکل رکشے چلا رہے ہیں۔ آپ نے یونس خان سٹیڈیم کا ذکر یوں کیا ہے جیسے کہ اسی سٹڈیم کے تعمیر سے ہی شمالی وزیرستان کے تمام مسائل جڑے ہو ئے تھے اور اس کی تعمیر کے ساتھ ہی سب مسئلے حل ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ آپ نے ہسپتالوں کا ذکر بھی بہت اچھے انداز میں کیا ہے لیکن شاید آپ کے علم میں نہیں آیا ہو گا کہ شمالی وزیرستان میں کو ئی نیا ہسپتال تعمیر نہیں کیا گیا ہے بلکہ میر علی اور میرانشاہ کے ہسپتالوں کا رنگ و روغن کرایا گیا ہے اور یہی ہسپتال اب بھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مخدوش حالات سے گزر رہے ہیں۔

جناب صافی صاحب اپ نے آئی ڈی پیز کی واپسی کا ذکر بھی بہت فخریہ انداز میں کیا ہے لیکن شاید آپ کو ان علاقوں سے نہیں گزارا گیا جہاں واپس ہو نے والے آئی ڈی پیز اب بھی اپنے مسمار شدہ مکانات کے ملبے پر خیمے لگا کر موسموں کی شدت کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ گویا کہ بکاخیل آئی ڈی پیز کیمپ سے نکل کر اپنے ہی گھر میں آئی ڈی پیز ہو چکے ہیں۔ آپ نے خاصہ داروں اور لیویز اہلکاروں کی تربیت کا ذکر کیا ہے لیکن عوام کے ساتھ روا رکھے گئے توہین آمیز رویوں کے بارے میں شاید کسی نے آپ کو بریف نہیں کیا۔ آپ اگر کسی غیر جانبدار مقامی کے ساتھ اس حوالے سے بات کرتے ( غیر جانبدار اس لحاظ سے کہ اگر حکومت پروردہ چمچہ گیر ملکان سے ملتے تو فائدہ کو ئی نہیں کیونکہ وہ تو حکومتی تعریفوں میں رطب للسان ہوتے ہیں) تو آپ کو آصل حقائق کا علم ہو تا کہ ان اداروں کی وجہ سے پاک فوج اور عوام کے درمیان فاصلے کتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

آپ نے شاید عوام کے ساتھ ملاقات کی ہی نہیں ورنہ وہ اس بارے میں بھی ضرور بتا تے کہ دوران آپریشن گھروں کی لوٹ مار کے واقعات کے بارے میں حکومت کا موقف کیا ہے۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جب لوگوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر علاقے کو آپریشن کے لئے خالی کیا تو ان کے گھر بار کی حفاظت کی جاتی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ سروے ہو رہا ہے لیکن کسی ایسے شخص سے شاید آپ کی ملا قات نہیں ہوئی ہوگی جس کا گھر بار تباہ ہو چکا ہے لیکن سروے کی سست روی کے باعث بہت کم لوگوں کو معاوضے دیے گئے ہیں اور بہت سارے لوگ سروے کے عمل سے بالکل ہی خوش نہیں ہیں۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ گذشتہ دس سالوں سے زائد عرصے سے شمالی وزیرستان میں اتوار کو کرفیو ڈے بنانے کی جو روایت قائم کی گئی تھی، وہ روایت ضرب عضب کی حقیقی تبدیلی کے بعد بھی نافذ ہے، ہر اتوار کو عوام کے لئے حرکت کرنا منع ہے چاہے کسی کا کوئی بیمار ہو یا ایمرجنسی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

آپ نے لکھا ہے کہ چند گھنٹوں کے لئے بجلی دی جا تی ہے جبکہ بجلی صرف دو گھنٹے میسر ہوتی ہے اور وہ بھی ٹیسکو کے اہلکاروں کی خوشی اور مرضی سے ورنہ 24 گھنٹوں میں دو گھنٹے بھی بجلی نہیں ملتی۔ آپ نے شاید گذشتہ ایک دہائی سے شمالی وزیرستان میں معطل پوسٹ آفس اور بینکوں کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا جس کی وجہ سے کئی ہزار طلباء کے مستقبل محض اس وجہ سے برباد ہو چکے ہیں کہ ان کو کال لیٹر بروقت نہیں مل سکے۔ امن و امان کی اس مثالی حالت میں کیا بینکوں کو اب وزیرستان دوبارہ آنا نہیں چاہیے؟

کالم میں آپ کی کچھ باتیں دل کو لگتی ہیں جن میں فاٹا کے انضمام کی بات، یہاں موبائل شروع کرنے کی بات، یہاں کھیل کود کی سرگرمیوں کی بات وغیرہ سب بہت مثبت خیالات ہیں۔ لیکن ہمیں شکوہ یہ ہے کہ آپ نے تصویر کاصرف ایک رْخ دکھایا ہے لیکن کیا ایک نامی گرامی اور سینئر صحافی کے طور پر آپ کو عوام کے خیالات نہیں جاننے چاہیے تھے؟ امن امان کے بارے میں کو ئی دو رائے نہیں لیکن اس امن کا فائدہ اٹھا کر کیا آپ کو کسی دیہا تی علاقے میں عوام کے پاس نہیں جا نا چاہیے تھا؟ اگر آپ کسی مقامی گاؤں میں جاتے اور عوام میں گھل مل کر ان کے رائے لیتے تو شاید اپ کا نقطۂ نظر مزید حقیقت پر مبنی ہو تا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).