ملالہ انتہا پسندی، تعلیم اور وطن واپسی کے بارے میں بتاتی ہیں -3


راہی: ملک میں مذہبی شدت پسندی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں عبدالولی خان یونی ورسٹی کے ایک ذہین طالب علم مشال خان پراہانتِ مذہب کا الزام لگاکر انھیں وحشیانہ طریقے سے شہید کردیا گیا، آپ اس اندوہ ناک واقعے کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

ملالہ: یہ تو بالکل ایک غیر انسانی اور جبر کا واقعہ تھا۔ مہذب معاشروں میں اس طرح کی آئیڈیالوجی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کوئی قانون کو ہاتھ میں لے اور جا کے دوسرے انسان کو بے دردی سے قتل کرے۔ کوئی کتنا بھی قصور وار اورگناہ گار کیوں نہ ہو اور اس نے کوئی کتنا بڑا جرم کیوں نہیں کیا ہو لیکن کسی شہری کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے شہری کو نقصان پہنچائے یا اسے قتل کرے۔ کسی ملک میں قانون کی موجودگی اس لیے ہوتی ہے کہ ایسے مسئلوں سے قانون کے ذریعے نمٹا جائے اور مجرم کے بارے میں عدالت فیصلہ کرے۔ اگر لوگ قانون اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کر دیں تو پھر عدالت کی ضرورت ہے اور نہ پولیس کی۔

راہی: مذہبی انتہاپسندی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ اس حوالے سے مذہبی علماء، حکومت اور سول سوسائٹی کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

ملالہ: انتہاپسندی کی وجہ سے باہر کی دنیا میں ہمارے مذہب کا بہت منفی امیج چلا جاتا ہے۔ اور مذہب سے سچی محبت کرنے والے لوگ اس سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ جب اس طرح کے واقعات ہوں گے جس طرح مشال خان کے ساتھ ہوا یا ہمارے ملک میں اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ ہمارے ملک اور مذہب کا نام بدنام ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے تمام علمائے کرام مل بیٹھیں اور اپنے ذاتی اختلافات ختم کرکے اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔ لیکن بدقسمتی سے مذہبی لوگوں نے اپنے اپنے مختلف فرقے بنا لیے ہیں، جس سے بے اتفاقی پیدا ہوئی ہے۔ ہر کوئی اپنی بات کرتا ہے، اپنے مذہبی عقائد کا تحفظ کرتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ ایک ہی مذہب میں مختلف فرقے کہاں سے آئے، یہ تو ایسا ہے جیسے ہرکسی کا اپنا اپنا اسلام ہو۔ مذہبی شدت پسندی کے خاتمہ کے لیے سب سے پہلے علماء کو آپس میں اختلافات ختم کرنے چاہئیں اور وہ ایک ہو کر لوگوں کو بتائیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے، اس میں انسانی جان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ اس میں عورتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں، اس میں بچوں کو تعلیم کا حق دیا گیا ہے۔ اس میں لوگوں کی خوشحالی ہے۔ یہ کس قدر المیہ ہے کہ اسلام، جس کے معنی ہی امن کے ہیں، اس کی وجہ سے لوگ جنگیں کریں، خودکش دھماکے کریں، بے گناہ لوگوں پر توہینِ مذہب کا الزام لگائیں اور ہجوم بن کر انسانی جان اپنے ہاتھوں میں لیں۔ اس سے غیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لیے مسئلے پیدا ہوتے ہیں، مسلم خواتین کے لیے اسکارف پہننا مشکل ہوجاتا ہے اور مسلمان خوف کی وجہ سے اپنی شناخت ظاہر کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔

راہی: پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کو آپ کس نظر سے دیکھ رہی ہیں نیز آج کل فوج اور سول حکومت کے مابین ایک ٹویٹ پر تنازعہ بھی چل رہا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

ملالہ: میرے خیال میں تو پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کافی پیچیدہ ہے۔ اگرچہ کچھ معاملات کا آسان حل موجود نہیں لیکن چند کام اگر کرلیے جائیں تو ان کا دیرپا فائدہ نکل سکتا ہے۔ سب سے پہلے تعلیم کو معیاری بنانا ہوگا کیوں کہ اگر تعلیمی نظام میں سوالات اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی تو اس سے ایک طرح کی بنیاد پرستی پیدا ہوتی ہے۔ ایک طرح کا مخصوص عقیدہ جنم لیتا ہے، وہ پھر ایجوکیشن نہیں رہتی۔ ایجوکیشن کا جو بنیادی تصور ہے وہ یہی ہے کہ آپ بچوں میں تنقیدی سوچ کی قابلیت ڈالیں، آپ ان کو سوال کرنے کے مواقع دیں، آپ ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنے آئیڈیاز کو استعمال کریں، اسی سے ہی روشن خیال لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اس طریقے سے آپ کو سائنس دان ملتے ہیں، انجنیئرز ملتے ہیں، ڈاکٹرز ملتے ہیں کیوں کہ وہ سوال کرتے ہیں، وہ آپ سے پوچھتے ہیں، تو تعلیم کے معیار کو بلند کرنا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ہمیں مضبوط جمہوریت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے میں تمام سیاسی جماعتوں سے گزارش کروں گی کہ وہ اس مقصد کے لیے ایک ہوجائیں۔ یہ ان کے فائدہ کے لیے ہے، اس میں کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ جب تمام پارٹیز جمہوریت کے لیے ایک ہوں گی اور ایک حقیقی جمہوری ماحول وجود میں آئے گا تو اس میں سب کا فائدہ ہے، ملک کا فائدہ ہے۔ جمہوریت کو سپورٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ دیکھئے کسان کا کام کھیت میں کام کرنا ہوتا ہے، ایک انجنیئرکا کام کنسٹرکشن ہے، ایک ڈاکٹر کا کام لوگوں کا علاج کرنا ہے تو ملک میں اس تصور کو سمجھنا چاہیے کہ کس ادارے کا کیا کام ہے۔ اب عدالتیں ہیں تو ان کا کام مقدمے نمٹانا ہیں، حکومت ملک کا بجٹ بناتی ہے، ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی تشکیل دیتی ہے اور فوج کا کام ہے سرحدوں کی حفاظت کرنا، تو وہ سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے۔ یہ بنیادی تصور اگر سمجھ لیا جائے کہ آپ کی ذمہ داری کیا ہے، آپ کی حدود کیا ہیں، تو پھر معاملات ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اس سے جمہوریت مضبوط ہوجائے گی، اس سے ہمارا ملک مضبوط ہوجائے گا۔

اس کے علاوہ ضروری ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی پر مبنی تعلیم کو بالکل ختم کردیا جائے کیوں کہ ہم جس خیالی دنیا میں رہتے ہیں کہ بھارت یا افغانستان وغیرہ ہمارے دشمن ہیں، یا وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم ان کے دشمن ہیں، یہ تصور سب کے لئے نقصان دہ ہے۔ ہم کئی عشروں سے دیکھ رہے ہیں کہ بنیاد پرستی اور شدت پسندی پر مبنی خیالات نے جتنا پاکستان کے اپنے لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے، اتنا کسی اور کو نہیں۔ ہمارے اپنے لوگ مرتے ہیں، اپنے ہی لوگوں پہ خودکش دھماکے ہوتے ہیں، ہمارے اپنے ہی اسکول تباہ ہوتے ہیں، اپنے ہی علاقوں کا نقصان ہوتا ہے تو اس شدت پسندی اور بنیاد پرستی کوختم کرنا ہوگا۔ مذہبی انتہا پسندی پر مبنی تعلیم کو ختم کرنا ہوگا۔ کیوں کہ اس سے ہماری مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم مسلمان پرامن لوگوں کے طور پر پہچانے جائیں تو اس کے لیے ہمیں پر امن طریقہ اپنانا ہوگا۔ اگر خود کش دھماکے ہوتے رہیں گے، اگر لوگوں کو اسلام کے نام پر قتل کیا جاتا رہے گا تو اس سے دنیا کو ہمارا منفی تصور ہی جائے گا۔ اور آج کل تو سوشل میڈیا کا دور ہے، نیوز سیکنڈز میں پھیلتی ہیں، اس کے لیے کسی کو کچھ زیادہ مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ لمحوں میں چیزیں وائرل ہوجاتی ہیں اور غیر ملکی جب پاکستان کا نام سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کا تصور آجاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے مجھے کہا ہے کہ اب ہم پاکستان کو آپ کے نام سے جانتے ہیں کہ ملالہ وہاں سے ہے۔

میں جب امن کی بات کرتی تو میں پاکستان کی نمائندگی بھی کرتی ہوں کیوں کہ میں نے ہمیشہ دنیا پر یہ واضح کیا ہے کہ میں ایک پشتون ہوں، پاکستانی سے ہوں اور مسلمان ہوں اور جو لوگ دہشت گرد ہیں، وہ نہ پشتون ہیں، نہ مسلمان ہیں اور نہ ہی پاکستانی ہیں۔ ہم جیسے معتدل لوگوں کی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ جنھوں نے بغیر کسی لالچ کے اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو بالکل سامنے رکھا ہے۔ ہمیں جتنے بھی مواقع ملے ہیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم انھیں لوگوں کے فائدہ کے لیے استعمال کریں، ان کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔ اگر ہمیں کسی ایوارڈ سے پیسے ملے ہیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم اسے ملک و قوم کی بھلائی کے کام میں لگائیں، ہم اپنے ملک اور لوگوں کے لیے بہت کوشش کرتے ہیں، پاکستان کو ہم جیسے لوگوں کو اپنا سمجھناچاہیے۔ اگر مجھے کسی یونی ورسٹی سے ایک اعزازی ڈگری ملتی ہے تو ہم یونی ورسٹی سے درخواست کرتے ہیں کہ ہم ڈگری اس وقت قبول کریں گے جب آپ لوگ پاکستان سے طالب علموں کو سکالرشپ دیں۔

راہی: کن ممالک کی کون کونسی یونی ورسٹیوں نے ملالہ اسکالر شپ منظور کیا ہے؟

ملالہ: ایک کینیڈا کی ’’یونی ورسٹی آف دی کنگز کالج‘‘ ہیلی فیکس ہے جس نے ملالہ یوسف زئی کے نام پر دو پاکستانی طالب علموں کے لیے اسکالر شپ منظور کی ہے۔ دوسری ’’یونی ورسٹی آف ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو‘‘ (University of Trinidad & Tobago) نے ملالہ یوسف زئی اسکالر شپ کا اجرا کیا ہے۔ ایک یونی ورسٹی نے ملالہ پوسٹ پی ایچ ڈی فیلوشپ فار ٹیچرز کی منظوری دی ہے۔ ویلفریڈ لیورئیر یونی ورسٹی واٹر لو (Wilfred Laurier University Waterloo) نے ضیاء الدین یوسف زئی اسکالرشپ منظور کی ہے۔ کئی طالب علموں نے ان سکالرشپ سے استفادہ کرکے اپنی تعلیم مکمل کی ہے اور کئی طلبہ و طالبات اس وقت ان سکالرشپس کے ذریعے زیر تعلیم ہیں۔

راہی: کیا یہ سکالرشپس کسی خاص مضمون یا خاص شعبے میں دیے جاتے ہیں؟

ملالہ: یہ بالکل اوپن ہیں اور متعلقہ یونی ورسٹیاں ان کا اہتمام کرتی ہیں، ہم اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتے اور نہ ہی طالب علموں کا انتخاب کرتے ہیں۔

راہی: اتنی ڈھیر ساری کامیابیوں اورعالمی اعزازات کے بعد کیا ملالہ بدل چکی ہیں یا وہ وہی سوات والی ملالہ ہیں؟

ملالہ: میں تو بس وہی کی وہی ہوں۔ میں نے اعزازات کے باوجود کبھی خود کو بڑا نہیں سمجھا ہے، میرے دل میں کبھی غرورپیدا نہیں ہوا ہے، اور جب کسی نے حوصلہ افزائی کی ہے تو میں نے اسے اپنے لیے باعثِ عزت سمجھا ہے۔ جب آپ کو کسی کام پر شاباشی ملتی ہے تو آپ خوش ہوجاتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ اب اور بھی محنت کرنی ہوگی۔ مجھے جب بھی کوئی ایوارڈ ملتا ہے یا مجھے سراہا جاتا ہے تو میں اس کا یہ مطلب نہیں لیتی کہ اب کام ختم ہوگیا ہے بلکہ میں اپنے مقصد کے لیے مزید پرعزم ہوجاتی ہوں کہ اب اور بھی کام کرنا ہے۔ زیادہ تر لوگ پوچھتے تھے کہ آپ کو نوبل پیس پرائز مل گیا اس کے بعد کیا کرنا ہے؟ تو میں کہتی کہ یہ تو اس لیے ملا ہے کیوں کہ میں تعلیم کے لیے کام کرر ہی ہوں۔ مجھے اصل کامیابی اس وقت ملے گی جب دنیا کا ہر بچہ اور ہر بچی اسکول جائے۔ میں اس مقصد کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی۔

راہی: آپ کی تعلیم و تربیت اور کامیابیوں میں زیادہ ہاتھ آپ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی کا ہے یا آپ کی والدہ تورپیکئی کا؟

ملالہ: میرے والد صاحب نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی ہے، انھوں نے مجھے اپنے کردار وعمل سے متاثر کیا ہے۔ جب میں نو دس سال کی تھی اور جب کبھی اپنے خیالات کا اظہار کرتی تو میرے والد مجھے شاباش دیتے۔ وہ مجھے ہمیشہ غور سے سنتے تھے، اس وجہ سے بچپن ہی سے مجھے خود پر یقین کا حوصلہ ملا۔ سوچ اور فکرکی پختگی ملی۔ مجھے یہ اعتماد ملا کہ میرے خیالات کی معاشرے میں اہمیت ہے کیوں کہ زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو بچی ہے، دو تین باتیں کرکے بور کرے گی اور کچھ لوگ تو بچوں کو سنتے بھی نہیں اور اب بھی جب میرا چھوٹا بھائی کوئی بات کرتا ہے تو ہم اسے نظر انداز کرتے ہیں لیکن میرے والد اسے بہت غور سے سنتے ہیں اور اس کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ جب آپ بچوں کو اس طرح وقت دیتے ہیں اور ان کو سنتے ہیں، آپ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو اس سے بچوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی آتی ہے۔

راہی: والد نے آپ کی حوصلہ افزائی کی ہے، آپ کو اعتماد دیا ہے اور والدہ نے؟

ملالہ: والدہ نے ڈانٹا ہے اور کہا ہے کہ نماز پڑھو، روزے رکھو اور قرآن مجید کی تلاوت کرو، لیکن والدہ نے ہمیشہ یہ نصیحت بھی کی ہے کہ مضبوط رہو اور دوسروں کی مدد کرو۔ میری امی بہت زیادہ رحم دل ہیں۔ وہ مجھے کہتی تھیں کہ کوئی ضرورت مند ہو، مشکل میں ہو تو اس کی مدد ضرور کرو۔ وہ خود بھی لوگوں کی مدد کرتی آ رہی ہیں، اس حوالے سے میں اپنی امی کو فالو کرتی ہوں۔ میر ی ماں نے اگرچہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے لیکن وہ بہت مضبوط اعصاب کی مالک ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے اور میرے ابا اسکول میں مصروف رہتے تھے تو یہ میری امی تھیں جنھوں نے گھر کو سنبھالا تھا۔ میرے والد کو تو پتا بھی نہیں ہوتا تھا لیکن ہماری امی ہمارا ہر طرح کا خیال رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ ایک بار میری سرجری ہوئی تھی تو میرے ساتھ میری امی تھیں۔ ڈاکٹر کے پاس جانا اور گھر کا سارا کام امی انجام دیتی تھیں۔

راہی: پاکستان اور پھر خاص طور پر سوات واپس جانے کی خواہش تو آپ کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے، کب وطن واپس جانے کا پروگرام بنے گا؟

ملالہ: میں تو ہمیشہ سے یہی چاہتی ہوں کہ میں پاکستان جاؤں۔ اپنے ملک میں کام کروں۔ وہاں تعلیم کے لیے کام کرنے کے بہت مواقع ہیں، وہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، وہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں، ہمیں انھیں مثبت راستے پہ ڈالنا چاہیے۔ اگر ہم انھیں صحیح طرح سے گائیڈ کریں توہ پاکستان کے لیے بے حد فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ میں یوتھ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے ملک کو بہتر بنانے کی کوشش کریں لیکن فی الحال تو یو کے میں مَیں اپنی تعلیم پر توجہ دینا چاہتی ہوں۔ اسکول کی تعلیم کے دوران یہاں سے جانا کافی مشکل تھا۔ اس کے علاوہ بھی میں نے کئی بار کوشش کی ہے کہ میں پاکستان دو تین دن کے لیے چلی جاؤں لیکن کوئی نہ کوئی مشکل ایسی آن پڑتی کہ میں نہ جاسکی۔ اب بھی بڑی خواہش ہے لیکن اس کے لیے مجھے مناسب وقت کا انتظار ہے۔ البتہ یونی ورسٹی کی تعلیم کے بعد میں کوشش کروں گی کہ زیادہ سے زیادہ اپنے ملک کا سفر کروں اور حالات بہتر ہونے کی صورت میں وہاں سیٹل ہوجاؤں۔

راہی: قدرت نے آپ کو دوسری زندگی دی ہے۔ اس سے بڑی خواہش یا انعام اور کوئی نہیں ہوسکتا لیکن پھر بھی انسان کے دل میں نئی نئی خواہشات جنم لیتی رہتی ہیں۔ آپ کی کوئی ایسی خواہش ہے جس کی آپ تکمیل چاہتی ہیں؟

ملالہ: جتنا کچھ مجھے اپنی مختصر زندگی میں ملا ہے، میں نے کبھی اس کی خواہش نہیں کی تھی۔ میں نے خدا سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے انگلینڈ میں پہنچا دیں یا مجھے نوبل پیس پرائز دیں یا مجھے شہرت دیں۔ میں نے کبھی ایک بار بھی خدا سے اس طرح کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا، البتہ جب میں دس بارہ سال کی تھی تو اللہ سے ہمیشہ یہ دعا کرتی تھی کہ اے خدا! مجھے طاقت دیں تا کہ میں ظلم کے خلاف بولوں، مجھے حوصلہ دیں تا کہ میں عورتوں کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑی ہوسکوں، میں بچوں کے لیے آواز بلند کرسکوں اور یہ جو لوگ دہشت پھیلا رہے ہیں، میں ان کے خلاف ایک علامت بن جاؤں۔ یہی دعا کی تھی اور کرتی رہوں گی کہ میں لوگوں کے لیے کچھ اچھا کرسکوں۔

راہی: فارغ وقت میں آپ کیا کرتی ہیں؟ برمنگھم میں منیبہ کی طرح بھی کوئی قریبی دوست آپ کو ملی ہے، جس سے آپ اپنی ذاتی باتیں شئیر کرسکیں؟

ملالہ: یہاں اسکول میں میری بہت ساری دوست ہیں۔ ان میں ایک میری بیسٹ فرینڈ ہے۔ یہاں ہم نارمل فرینڈز کی طرح ہیں۔ باہر جاتی ہیں، گھر پہ آکے ٹی وی دیکھتی ہیں یا کھیلتی ہیں، اس طرح کافی اچھا وقت گذرتا ہے۔ اس کے علاوہ منیبہ کے ساتھ بھی بات ہوتی ہے۔ پاکستان میں میری اور بھی بہت سی سہیلیاں ہیں جن سے میں بات کرتی رہتی ہوں۔ میں اپنی پرانی سہلیوں کو بھولی نہیں ہوں۔ میں ان کے ساتھ پشتو میں وہ گپ شپ لگاتی ہوں جو میں یہاں انگریزی میں نہیں لگا سکتی۔

راہی: یہاں آج آپ کے اسکول میں آخری دن تھا، اس کے بعد آپ یونی ورسٹی میں داخلہ لیں گی، یہاں اسکول میں پڑھنے کا تجربہ کیسا رہا؟

ملالہ: آج اسکول میں میرا آخری دن تھا اور اسٹیج پہ ہر لڑکی نے اپنا تجربہ بیان کیا کہ ہم نے اسکول میں کیا سیکھا؟ کچھ بچوں نے یہ بتایا کہ انھوں نے کتنی شرارتیں کیں۔ گانے گائے گئے، اسکول کا ترانہ پڑھا گیا، مختلف ویڈیوز شیئر کی گئیں۔ ایک دوسری کے بارے میں بات کی گئی۔ میری ایک دوست نے میرے بارے میں لکھا کہ ملالہ میری فرینڈ تھی اور اس نے دو مہینے کے بعد مجھ سے پوچھا کہ میرا نام کیا ہے۔

ضیاء الدین یوسف زئی: ملالہ کیا آپ بتا سکیں گی کہ پچھلے تین چار سالوں میں اِج باسٹن ہائی اسکول فار گرلز میں آپ کو کیا مشکلات پیش آئیں اور آپ نے مجموعی طور پر یہاں کیا سیکھا؟ اور کوئی ایک چیز جو آپ کہیں کہ پاکستان کے ہر اسکول میں ہونی چاہیے جو وہاں پہ نہیں ہے؟

ملالہ: جب میں نے اس اسکول میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو یہاں پہ بہت اچھا ماحول پایا۔ یہاں پر تمام سہولتیں موجود تھیں۔ سائنس لیبارٹری سے لے کر لائبریری تک، کمپیوٹر تک، ٹیچرز ہر وقت موجود ہوتے تھے۔ ٹیچرز اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ بچے سیکھیں۔ یہاں اسکولوں میں بچوں کا جتنا خیال رکھا جاتا ہے، اس کا ہمارے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں پہ بچوں کے رزلٹ کھلے انداز میں اناؤنس نہیں ہوتے اور نہ یہاں پہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی پوزیشن ہے، دوسری پوزیشن ہے یا تیسری پوزیشن ہے۔ مجھے جب پہلے ٹیسٹ کا نتیجہ ملا تو میں تھوڑی سی حیران رہ گئی اور سوچنے لگی کہ اور لوگوں نے کتنے مارکس لیے ہوں گے، یا فرسٹ، سیکنڈ کون آیا ہوگا، بس کسی کو کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ ٹیچرز آپ سے کہتی ہیں کہ یہ آپ کے مارکس ہیں، آپ کو مزید کوشش کرنی چاہیے یا آپ ٹھیک جا رہی ہیں۔ یہاں پہ فرسٹ، سیکنڈ کا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ یہاں پہ آپ کو میٹرک کے لیول کا رزلٹ ملتا ہے، اے لیول کے رزلٹ ملتے ہیں، تو وہ صرف آپ کو ملتے ہیں، یہاں تک کہ اگرآپ چاہیں تو وہ آپ کے والدین کو بھی نہیں دکھائے جاتے۔ یہ آپ کی مرضی ہے۔ کیوں کہ یہاں پہ جو تعلیم ہے، وہ صرف آپ کی ہے۔ یہاں یہ بھی نہیں ہے کہ آپ نے ٹاپ کرلیا تو آپ سب سے آگے ہیں، یا آپ نے کم نمبر لیے تو پیچھے ہیں، یہاں کا سسٹم آپ کو تقسیم نہیں کرتا۔ اگر آپ کو اس رینک میں ڈال دے کہ آپ ٹاپ پہ ہیں اور باقی نیچے ہیں تو اس سے دوسرے بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کا اپنے اوپر اعتماد کم ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھ کر پہلے پہل تو میں بے حیران ہوئی۔

ایک دن ٹیچر لٹریچر میں ایک نظم کے مفہوم کے بارے میں بحث کر رہی تھیں کہ اس کے کیا کیا مطالب ہوسکتے ہیں۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر پوچھا اس کا حتمی مطلب کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اس کا کوئی فائنل مطلب نہیں ہوتا۔ یہ لٹریچر ہے، ایسی چیزیں جو ہوتی ہیں، یہ مفہوم و تشریح کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ آپ اس سے کیا مطلب لیتی ہیں یا آپ نے اس سے کیا اخذ کیا ہے اور آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اس کا جواب کیا ہے؟ یہ ہمارے لیے اہم ہے۔ یہ نہیں کہ اس کا کوئی حتمی جواب ہے جو ہم آپ کو بتائیں۔ یعنی جو مضامین سوشل سائنسز ہیں، مثلاً لٹریچر، انگلش یا ہسٹری اور مذہبی مطالعہ، اس قسم کے مضامین میں آپ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ آپ کی اپنی رائے ہو، اپنے دلائل ہوں تاکہ آپ اپنی سوچ اور فکر کو آگے بڑھا سکیں۔ اس کے علاوہ میں نے یہاں critical thinking بھی پڑھی جو اس حوالے سے حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ اگر آپ کو معلومات ملتی ہیں تو آپ کو سوال پوچھنے چاہئیں کہ یہ معلومات مجھے کس نے دی ہیں، یہ شخص کون ہے، اس کی مہارت کیا ہے، اس کا کتنا تجربہ ہے، اس کے علم میں مشاہدہ شامل ہے یا نہیں۔ اس طرح جب آپ کوئی آرٹیکل یا نیوز رپورٹ پڑھتے ہیں تو آپ کو دیکھنا چاہیے کہ یہ کون شخص ہے، کیا تجربہ ہے اس کا، کس لیول میں یہ ہمیں دلیل دے رہا ہے۔ اس طرح اگر ایک ڈاکٹر ہے اور وہ آپ کو کسی انجنیئرنگ چیز کے بارے میں بتا رہا ہو تو آپ کو تھوڑا سا سوچنا چاہیے کہ کس چیز کو فالو کرنا چاہیے اور کس کو نہیں۔ بہت سارے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ مذہبی عالم ہیں اور وہ کسی چیز کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں تو آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ کو اس شخص کی باتوں پر یقین کرنا چاہیے یا نہیں۔ critical thinking اس چیز کی بہت حوصلہ افزائی کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments