پرندوں کا نوحہ


ایک وقت تھا پاکستان میں کبھی صبحیں بہت سہانی ہوا کرتی تھیں، صبح نماز کے وقت نمازیوں اور سیر کے لئے جانے والوں کے کانوں میں مختلف النوع پرندوں کی خوبصورت ایک ردھم کے ساتھ مسحور کن آوازیں رس گھولتی تھیں اور انسان قدرت کی نعمتوں کی تعریف کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پوری کائنات اپنے رب کی حمد و ثنامیں محو اور مصروف ہے مگر اب یہ خوبصورت مترنم آوازیں یا خاموش ہو چکی ہیں یا یہاں سے کوچ کر چکی ہیں اور اگر کچھ اکا دکا پرندوں کی آوازیں سنائی بھی دیتی ہیں تو وہ بھی ناپید ہونے کو ہیں ،ماحول پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پرندوں کے سننے اور محسوس کرنے کی حسیں بہت تیز ہوتی ہیں جو ذرا سی تیز آواز سے بہت متاثر ہوتی ہیں ، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں صوتی شور بہت بڑھتا جا رہا ہے جس سے انسان کی سننے کی حس اور پرندے بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ صبح صادق کے وقت جب پرندوں کے کانوں میں لاﺅڈ سپیکروں کی پر شور آواز پڑتی ہے تو وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں اور وہ اپنا قدرتی حسن اور چہچہاتی آواز کھوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ اگر آوازوں کے شور پر قابو نہ پایا گیا تو قدرت کی حمد و ثنا کرنے والی آوازیں پرندے کسی ایسے دیس میں جا کر بسیرا کر لیں گے جہاں شور نہیں ہوگا۔ المناک صورت حال یہ ہے کہ صبح کے وقت پرندوں کے چہچہانے میں نہ صرف کمی واقع ہو چکی ہے بلکہ پرندے یہاں سے پرسکون ماحول والے اور محفوظ علاقوں اور ملکوں کی جانب کوچ کر رہے ہیں۔

حالات پر نگاہ رکھنے والے محققین کا کہنا ہے کہ کئی سال پہلے تک پاکستان میں سالانہ تقریباً 10 لاکھ پرندے آتے تھے لیکن اب ہر سال ان پرندوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ کراچی کے ساحلوں اور اندرون سندھ کی جھیلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے لگ جاتے تھے۔ کلفٹن ، ہاکس بے ،پیراڈائز پوائنٹ اور سینڈز پٹ کی سنہری ریت میں جھنڈ در جھنڈ کھیلتے اور بھانت بھانت کی سریلی آوازیں نکالتے ہزاروں پرندے ان ساحلوں کی خوب صورتی کو چار چاند لگائے ہوتے تھے۔ ان پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی ساحل پر ان کا نظارہ کرنے والوں کا بھی رش بڑھ جاتا تھا۔ یہ پرندے سائبیریا، وسط ایشیائی ریاستوں ، منگولیا، روس، مشرقی یورپ، چین اور دیگر ممالک سے براستہ افغانستان اور ایران ، پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ میدانی علاقوں کے آبی مقامات پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔ ان پرندوں کی آمد کی بنیادی وجہ وہ سخت موسم ہوتا ہے جس میں نہ صرف شدید برف باری ہوتی ہے بلکہ اس قدر یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیںکہ انسان تک پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ ان دنوں برفیلے علاقوں کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ پرندے قدرت سے سدھائے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے معتدل موسم کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ستمبر کے آخر سے ان پرندوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اپریل تک رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سائبیریا سے ہرسال تقریباً ایک سو دس اقسام کے پرندے پاکستان آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بطخیں اور بگلے ہوتے ہیں۔ان پرندوں کے نظارے کا بہترین وقت جنوری کا مہینہ ہوتاہے جب یہ پرندے اپنے پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔ اندرون سندھ رن آف کچھ اور ہالیجی جھیل بھی ان پرندون کی قیام گاہیں ہیں۔ سندھ کی آبی قیام گاہوں میں گھاس کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور بیج و چھوٹی مچھلیاں ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ یہ پرندے اپنی افزائش نسل کے بعد اپریل کے وسط تک واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔ کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے جنگلوں ، دمکتی جھیلوں اور تالابوں میں بھی سینکڑوں مہاجر پرندے ہر سال اپنا عارضی بسیرا بناتے ہیں۔ ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو ، چیکلو، لال سر، بنارو اور دیگر چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر رن کچھ کے ساحلی علاقے اور تھر کے ریگستانوں میں اترتے ہیں۔ اس کے علاوہ منچھر، کلری اور ہالیجی جھیلیں بھی ان پرندوں کے ٹھہرنے کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔ ڈپٹی کنزویٹو سندھ وائلڈ لائف ڈاکٹر فہمیدہ اور دیگر ماہرین کے مطابق کئی سال پہلے تک پاکستان میں تقریباً 10 لاکھ پرندے آتے تھے لیکن اب ہر سال ان پرندوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔اس کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہے۔قدرت نے ان پرندوں کو بہت حساس ناک دی ہے جس کی مدد سے یہ بارود اور خطرے کی بو بہت دور سے ہی پہچان لیتے ہیں لہٰذا افغانستان کے راستے آنے والے پرندوں نے آمد بند کردی ہے۔ دوسری وجہ یہاں شکم خور شکاری ہیں جو ان دنوں کا انتظار کرتے ہیں جیسے ہی یہ’مسافر‘ آتے ہیں یہ شکاری اس سے پہلے ہی ان کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں ،دھوکے سے ان کو دام میں گرفتار کرتے ہیں، دنیا میں شاید ہم ہی وہ لوگ ہیں جو مصیبت کے ماروں کا بھی شکار کرتے ہیں۔

ادھر سندھ کی جن جھیلوں اور تالابوں پر یہ بسیرا کرتے تھے وہ صنعتی فضلے، کوڑا کرکٹ اور دیگر زہریلے مادے سے بھر گئے ہیں لہٰذا ان پرندوں نے اس وجہ سے بھی آنا کم کردیا ہے۔ شوگر ملوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور مواد نے دریا میں چھپی ان کی خوراک کو بھی زہریلا بنادیا ہے۔اس وجہ سے اب یہ پرندے پاکستان کا رخ کرنے کی بجائے بھارت جانے لگے ہیں۔ بھارتی ریاست راجستھان اور گجرات میں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کے تحفظ کے لئے بھی کئی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ان پرندوں کی آمد میں کمی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی شکار بھی ہے۔ موسم بدلتا نہیں کہ شکاریوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ شکاری بااثر ہونے کے سبب قانون سے کھیلتے اورمحض اپنے شوق میں ہزاروں پرندے مار دیتے ہیں بلکہ جن دنوں پرندوں کی آمد ہوتی ہے شکاری جال لگا کر بیٹھ جاتے ہیں جو معصوم پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔پاکستانی قوم فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بجائے اس کے خلاف عمل کر رہی ہے اور نقصان بھی خود ہی اٹھا رہی ہے۔

فطرت کے مظاہر ہوں یا پرندے انہیں بچانے کے لئے کسی کو تو قدم اٹھانا ہے ورنہ ہمارے کان صرف گالی گلوچ سننے ،آنکھیں بھیانک منظر دیکھنے اور ناک بدبو سونگھنے کے لئے ہی رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).