انہیں جمہوریت بھی چاہیے اور آمریت بھی


ریجیکٹڈ والی ٹویٹ واپس لینا ایک نہایت اچھا اقدام ہے۔ اس سے جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ انہیں قوموں نے ترقی کی ہے جہاں جمہوریت کی حکمرانی رہی ہے۔ ڈکٹیٹر آواز دباتے ہیں۔ صرف اپنی سوچ کو زندہ رہنے دیتے ہیں۔ مخالف سوچ کو مار ڈالتے ہیں۔ فکر کا تنوع ختم ہو جائے تو ترقی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ کنویں کے مینڈک ہی باقی رہ جاتے ہیں۔

ایک فوجی کی تربیت پبلک سے معاملہ کرنے کی نہیں ہوتی ہے۔ اس کی تربیت دشمن کو ختم کر دینے کی ہوتی ہے۔ وہ سیاست دان کی طرح مختلف طبقات سے بھاؤ تاؤ کر کے ایسی ڈیل پیش نہیں کر سکتا ہے جس میں دوست دشمن سب راضی ہو جائیں۔ وہ دشمن کو راضی کرنے کی بجائے صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا مزاج رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری سویلین بالادستی والی قوموں میں مل جل کر رہنے کا رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ جہاں اتفاق اور اتحاد ہو، وہیں ترقی بھی ہوتی ہے۔

پاکستان میں 1958 سے لے کر اب تک فوج سیاست دانوں پر حاوی رہنے کی پالیسی اختیار کیے رہی ہے۔ غلط فہمیوں کی ایک وسیع خلیج ہے۔ ماضی کے فوجی لیڈروں کو یہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ کوئی سیاستدان محب وطن بھی ہو سکتا ہے۔

جنرل مشرف کے مارشل لا کے نتیجے میں عوامی ری ایکشن پر جنرل کیانی کے دور سے آہستہ آہستہ ایک تبدیلی نمودار ہونے لگی۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ ہر مسئلے کا حل طاقت کا استعمال نہیں ہوتا ہے۔ کئی جگہ پر سودے بازی کرنا ہوتی ہے۔ ہر ایک کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال پیدا کی جاتی ہے کہ سسٹم کی بقا میں معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا مفاد دکھائی دے۔ لوگوں کو قائل کرنا ہوتا ہے کہ دشمنی ترک کر دیں اور دوست بنیں۔ جو دشمنی کرنے پر تلے رہیں ان کو سیاسی ہتھیار استعمال کر کے ان کے دوستوں سے محروم کیا جاتا ہے۔ دشمن کو تنہا اور کمزور کرنے کے بعد اس کے خلاف ہتھیار کا موثر استعمال کیا جاتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف طویل اور خونریز جنگ کے بعد یہ آوازیں اٹھنے لگیں تھیں کہ سویلین لیڈر شپ کیوں اس جنگ کی قیادت نہیں کر رہی ہے۔ اپنے ایک گزشتہ مضمون میں ہم اس بات پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے سویلین لیڈر شپ خود کو الگ رکھے ہوئے ہے۔ لیکن جنرل قمر باجوہ کے مسلح افواج کی قیادت سنبھالنے کے بعد اب صورت حال واضح طور پر تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

جنرل قمر باجوہ شروع دن سے ہی نہایت لو پروفائل رہ رہے ہیں اور سویلین قیادت کو آگے آ کر معاملات سنبھالنے کا موقع دے رہے ہیں۔ ان کے قیادت سنبھالنے سے پہلے ہی ڈان لیکس کا ہنگامہ گرم ہو گیا تھا۔ دکھائی یہ دے رہا تھا کہ ادارے کا فیصلہ تھا کہ ڈان لیکس کے ذمے داروں کو سبق سکھایا جائے۔ کوئی بھی سربراہ خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے اپنے لوگوں کی بات ماننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں وہ ”ریجیکٹڈ“ والی ٹویٹ کی گئی۔

اس کے خلاف جیسا ری ایکشن سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آیا اس سے فوج کے امیج کو شدید نقصان پہنچا۔ غالباً اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے جنرل قمر باجوہ نے دلیرانہ فیصلہ کیا اور سویلین بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے ٹویٹ واپس لی گئی۔ اس عمل کے خلاف فوج کے نچلے لیول پر آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس فیصلے سے سب کی جیت ہوئی ہے۔ فوج کا عوامی امیج بہتر ہوا ہے، سویلین قیادت سے اعتماد کا رشتہ بہتر ہوا ہے، دہشت گردوں اور ہمسایہ طالع آزماؤں کو واضح پیغام گیا ہے کہ پاکستانی متحد ہیں۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے ہمدردوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر فوج کے اس فیصلے کے خلاف ایک شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور وہ فوج کے خلاف وہ زبان استعمال کر رہے ہیں جو وہ نواز شریف صاحب کے خلاف استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ان ہمدردوں کی بظاہر یہ خواہش تھی کہ جمہوری حکومت کو گھر بھیج دیا جائے اور ایک نیا مارشل لا لگا دیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ جمہوریت نہ رہی اور آمریت آ گئی تو کیا تحریک انصاف کو حکومت مل جائے گی؟ اگر ایسے حالات میں ظفر اللہ جمالی صاحب جیسی خیرات کی برائے نام حکومت مل بھی گئی تو ڈکٹیٹر کے تمام اقدامات کا بوجھ اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ پنجاب کی حالیہ تاریخ میں چوہدری پرویز الہی صاحب سے زیادہ کام کرنے والا وزیر اعلی کوئی دوسرا نہیں آیا ہے مگر ان کو ان کا جنرل مشرف کو دس برس وردی میں منتخب کرنے والا نعرہ ایسا لے کر ڈوبا کہ ان کی جماعت کا وجود اب کاغذوں میں ہی دکھائی دیتا ہے۔ کیا تحریک انصاف کے یہ جذباتی سپورٹر کسی ڈکٹیٹر کی حمایت کر کے اپنی جماعت کا بھی یہی حال کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ افراد یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ الیکشن کے سال میں سیاسی شہید بننا نواز شریف کو مزید مقبول ہی بنائے گا اور ان کے گناہ دھو ڈالے گا۔

جنرل قمر باجوہ اور مسلح افواج نے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے جس سے ان کے ادارے کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے۔ جو افراد نواز شریف صاحب کو حکومت سے ہٹانا چاہتے ہیں، وہ ایک برس مزید انتظار کر لیں اور عوام کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کریں تو مناسب ہو گا۔


سیاسی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ لیڈ کیوں نہیں کرتی؟

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar