سندھ کے عوام اور ابصار عالم


آپ نے وہ قصہ تو سنا ہو گا کہ پاکستان کے ایک علاقے میں دو حریف سیاستدان تھے۔ دونوں مخالف جماعتوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ کبھی ایک الیکشن جیت جاتا اور کبھی دوسرا۔ لیکن جو بھی الیکشن جیتتا وہ اپنے علاقے کے سکول بند کروا کر دوسرے کے علاقے میں سزا کے طور پر سکول کھلوا دیتا۔ مخالف سیاستدان کے علاقے میں سکول کھلوانا ان کے لئے ذریعہ انتقام تھا۔ کیو نکہ جن علاقوں میں سکول کھلتے تھے وہاں آگہی آتی تھی۔ لوگ روایتی سیاست سے منفور ہو جاتے تھے۔ نئی قیادت کے بارے میں سوچتے تھے۔ اندازہ یہ تھا جب سکول کھلیں گے تو ذہن کھلیں گے۔ سوچ بدلے گی۔ غنیمت اسی میں تھی کہ اپنے علاقے سے سکول بند کروا دیے جائیں۔ لوگوں کے ذہنوں کو مقفل رکھا جائے۔ ان کی کھوپڑیوں میں اپنے دیے ہوئے احکامات اور نظریات ہی ٹھونسے جائیں۔ جہالت کو روایت کہہ کر زندگی کو اسی دھرے پر چلایا جائے جس کے یہ کم ترین عادی تھے۔

کبھی آپ نے اندرون سندھ کی حالت دیکھی ہے۔ لوگ غربت کے مارے پس رہے ہیں، کھانے کو روٹی نہیں، پینے کو پانی نہیں، علاج کے لئے شفا خانے نہیں، تعلیم کے لئے سکول نہیں۔ لیکن نعرہ بھٹو کا لگتا ہے۔ ووٹ بھٹو کو ملتا ہے۔ دور کی بات جانیں دیں اگر کبھی لاڑکانہ ہی جانا ہو تو دیکھ لیں وہاں صدیوں سے کچھ نہیں بدلا۔ کئی کئی وزراء اعظم اس قصبے کے باشندے تھے۔ ملک کی تقدیر بدلنے کا دعوی کرتے تھے۔ بین الاقوامی حالات پر تبصرے کرتے تھے۔ انٹرنیشنل کانفرنسز میں اچھی شستہ انگریزی میں تقریر کرتے تھے، انسانی حقوق کی پاسداری کا سبق پڑھاتے تھے۔ خواتین کے حقوق پر رطب اللسان رہتے تھے۔ بچوں کی صحت اور تعلیم پر قوم سے خطاب کرتے تھے۔ انٹرنیشنل قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ لیکن انہوں نے آج تک سندھ کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لئے کہ انہیں ادراک تھا کہ جیسے ہی یہاں تعلیم آگئی، آگہی مل گئی، لوگ بوسیدہ رسم و رواج سے بغاوت کر دیں گے۔ پرانے گلے سڑنے نظریات کو مسترد کر دیں۔ ترقی ہونے سے لوگ نئی روشنی کو دیکھنے لگیں گے۔ اختلاف کرنے لگیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کے لوگوں کے ذہنوں میں وہی نظریات ٹھونسے جائیں جن کے وہ عادی ہیں۔ ان کو بتایا جائے کہ ترقی گناہ ہے، لالچ ہے، طمع ہے۔ غربت بہادری ہے، عظمت ہے۔ جہالت سہرا ہے۔ مانگ کا سیندور ہے۔ روایات عظیم ہیں۔ تبدیلی انتشار ہے۔ حرام ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں میڈیا کو آزادی ملی۔ یہ ہمارے لئے اچھنبے کی بات تھی۔ چینلز مشروم کی طرح بڑھنے لگے۔ کام چونکہ مہنگا تھا اس لئے صرف رئیس لوگوں کے ہاتھ پڑے۔ جن کو صحافت کا تجربہ بھی نہیں تھاوہ بھی اپنے کاروبار کے تحفظ کے لئے اس کام میں کود پڑے۔ یہ کام ہمارے لئے نیا تھا کہ حکومت وقت پر حکومت کی آنکھوں کے سامنے تنقید ہونے لگی۔ وکلاء تحریک یاد ہی ہو گی آپ کو۔ میڈیا سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرنے لگا۔ جلد ہی اس ملک کے لوگوں اور اداروں کو احساس ہوا کہ وہ صحافی جس کو اخبار میں تین تین ماہ تک بھی اپنی قلیل تنخواہ نہیں ملتی تھی وہ اب قوم کے مستقبل کے فیصلے کرے گا۔ اس زمانے کی عدلیہ ہو، ادارے ہوں، اپوزیشن لیڈر یا حکمران سب ہی رات کے پروگرام دیکھ کر اپنے فیصلے صادر کرتے تھے۔ یہ موقع کچھ طالع آزماؤں کے لئے اچھا تھا انہوں نے دھیرے دھیرے ان چینلز پر اپنی حکمرانی جمانا شروع کر دی۔ چند لوگوں کو خرید کر ان کے ذریعے وہی بوسیدہ نظریات، وہی جہالت، وہی ازلی بے بسی اب ان چینلز پر فروخت ہونے لگی۔ وہی داغدار چہرے سامنے آنے لگی۔ غربت کی کہانی اور شدت سے بکنے لگی۔ نفرت ازراں نرخوں پر ملنے لگی۔ شدت اب سکرینوں پر پنپنے لگی۔

چینلوں کی بے مہار روش دیکھ کر حکومت نے ایک ادراہ پیمرا کے نام سے قائم کیا۔ جس کا مقصد الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنا تھا۔ لیکن یہ ادارہ ہمیشہ سے بے بس سا رہا تھا۔ ہم نے اس کے بہت سے چیئرمینوں کو چینلوں کی منتیں کرتے ہی دیکھا ہے۔ وہ چینلز سے درخواستیں ہی کرتے رہے کہ حکومت وقت پر ہاتھ ہولا رکھیں۔ لیکن چینلز ان منتوں کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔ اس ادارے کے سابقہ سربراہ زیادہ تر بیوروکریٹ تھے جو اپنی ملازمت کی معیاد پوری کرنے کے لئے یہاں آتے۔ چین کے چند سال گزارتے اور ریٹائرمنٹ کی راہ لیتے۔ نہ کوئی پیمرا کی طرف سے کوئی خاص کام کیا گیا نہ چینلوں نے اپنی روش بدلی۔ لوگوں کی ذہنیت مریضانہ ہوتی گئی۔ اس ملک سے لوگ بدظن ہوتے رہے۔ نفرتیں پھیلتی رہیں۔ اختلاف بڑھتے رہے۔ ایک خاص قسم کی ذ ہنیت بنائی جاتی رہی۔ بوسیدہ خیالات لوگوں کے ذہنوں میں ٹھونسے گئے۔ ایک خاص نظریے کو پالتے رہے۔ خال خال اختلاف کی صورت نظر آئی مگر ایسی آوازوں کو ہجوم میں معدوم کر دیا گیا۔

موجودہ حکومت کی جانب سے پیمرا کے احیاء کے لئے سنجیدہ کوشش سامنے آئی۔ پہلی دفعہ یہ کام کسی صحافی کے سپرد کیا گیا۔ ابصار عالم کا نام صحافیوں کے لئے نیا نہیں تھا۔ ان کا ماضی بھی داغدار نہیں اور جمہوریت، صحافت اور صحافیوں کی ترقی کے لئے ان کی کوششیں بھی کسی سے چھپی نہیں۔ ابصار عالم نے چیئر مین پیمرا کی حیثیت سے کئی ایسے کام کیئے جو بڑے ناگزیر تھے۔ کرائم شوز میں ری اینکٹمنٹ پر پابندی لگانا از حد ضروری تھا۔ پروگراموں میں عدلیہ اور اداروں کا تمسخر اڑانے کی روایت کا خاتمہ از حد ضروری تھا۔ جھوٹ پر مبنی خبروں کو روکنا بہت لازمی تھا۔ شرانگیز اور نفرت آمیز تقریروں پر پابندی نہایت ضروری تھی۔ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی روایت توڑنا لازمی تھا۔ مارننگ شوز اور ٹی وی ڈراموں میں پھیلائی جانے والی فحاشی کی روک تھام لازمی تھی۔ رمضان کی ٹرانسمیشنز میں اس ماہ مبارک کی تقدیس ضروری تھی۔ ایسے جنازوں کی کوریج کو روکنا ضروری تھا جن کے نتیجے میں فساد خلق ہو۔ ابصار عالم نے یہ سب کام کیے۔ لیکن اب مرحلہ اور ہے۔

میرے خیال میں اب ابصارعالم کو سزا ملنی چاہیے اس لئے کہ وہ بوسیدہ خیالات کو روک رہا ہے۔ وہ نفرت کی تلقین کی مناہی کر رہا ہے۔ وہ لوگوں کو بے وجہ غدار کہنے پر پابندی لگا رہا ہے۔ وہ اینکروں کو اسلام کی فروخت سے روک رہا ہے۔ وہ لوگوں کو توہین کے جھوٹے الزامات کے ذریعے کافر کہنے سے روک رہا ہے۔ وہ جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ وہ سیاسی نہیں ہے مگر سیاست کو سمجھتا ہے۔ اس ملک کے تاریخ کو سمجھتا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کو جانتا ہے۔ اس کا مسئلہ حکومتی جماعت نہیں ہے، جمہوریت ہے۔ وہ نئی جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے۔ وہ جبر کے خلاف ہے۔ نفرت اس کا شعار نہیں۔ وہ اس ملک میں حقیقی تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اب اگر اس کا منہ، ٹانگ توڑنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں تو اس میں سراسر قصور ابصار عالم کا ہے۔ اس کو یہ سب تبدیل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کو ہمیں نفرتوں سے نکالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی اس کو کفر کے بلاوجہ فتووں کو نہیں روکنا چاہیے تھا۔ اس لئے کہ کچھ لوگوں کو علم ہے جب تک ہم نفرت اور جاہلیت میں رہیں گے ان کی حکومت قائم رہے۔ ان کا ڈنڈا چلتا رہے گا۔ ان کا سکہ قائم رہے۔ میرے خیال میں ابصار عالم کا اب نفرت کو روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، جہالت کے فروغ سے منع نہیں کرنا چاہیے، جھوٹ کی ترویج پر پابندی نہیں لگانی چاہیے کہ اس اندھیر نگری میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں اور بہت سوں کی خواہش ہے ہم اسی اندھیرے میں مر جائیں۔ روشنی کی کوئی قمق ہم تک نہ پہنچے۔ ترقی کا کوئی ہنر ہمارے نام سے معتبر نہ ہو۔ جمہوریت ہمارے ملک میں گالی بنی رہے۔ سفلی خواب بکتے رہیں اور خبر کبھی حق کے مرتبے تک نہ پہنچے۔

اس صورت حال پر پریشان یا پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سندھ کے عوام سے سبق لیں۔ جہاں جہالت ایسے عروج پر ہے کہ سب مر جائیں گے پھر بھی بھٹو زندہ رہے گا۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar