’شہید کتاب‘ ادب مافیا کو بے نقاب کرگئی


دنیا بھر میں مافیا ز کے حوالے سے لے دے رہتی ہے دونمبردنیا کے یہ بے تاج بادشاہ تقریباً ہرخطے، ہرسلطنت میں موجود ہوتے ہیں ، ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے اوراس دنیا میں کسی کاداخل ہونا تو کجاجھانکنا بھی محال ہوتاہے، پاکستان بھی ان خطوں میں شمار ہوتاہے جہاں مافیا کا راج ہے لیکن یہ مافیا کچھ عجب قسم کی ہے، کہنے کو اس مافیا کا کام ڈرگز کی خریدوفروخت ، قتل وغارت ، اغوا برائے تاوان یا ایسا کوئی جرم نہیں لیکن نتائج کے اعتبار سے اس مافیا کے جرائم بھی کچھ کم خطرناک نہیں، پاکستان کو ان خوش نصیب ممالک میں شمارکیا جا سکتا ہے جو وسائل سے مالا مال ہے، صلاحیتوں سے بھرپور اورباہمت لوگوں کی دھرتی اس اعتبار سے بھی خوش قسمت واقع ہوئی ہے کہ فن وادب کے پروردہ لوگ رہتے ہیں جنہیں تخلیق کار کہا جا سکتا ہے سچا  تخلیق کار، لوگ ایسے تخلیق کار وں کی دل وجان سے قدر کرتے ہیں لیکن برا اس وقت ہوتاہے جب یہاں سے مافیا نے جنم لیا، مافیا نے ابھی قدم قدم چلنا شروع ہی نہیں کیا تھا لیکن اس کے بال وپر نکلنے لگے اورآج جب وہ دوڑتا دندناتا پھرتا ہے تو پھر اس کے ہاتھ  پاﺅں بھی لمبے ہو گئے اور یقین کریں ادبی مافیا کی دنیا ایسی وسیع تر ہے کہ جس میں کوئی خالص اور سچا شاعر ،ادیب ، قلم کار جھانکنے کی جرات نہیں کر سکا ، یعنی کہنے کو یہ ادبا، شعرا، قلم کاروں کی دنیا ہے لیکن یہاں سچے  فنکاروں کی کوئی قدر نہیں، اسے عرف عام میں اکادمی ادبیات کہا جاتا ہے لیکن ہم جیسے دو ر پرے رہنے والے لوگ اسے مافیا کا ہیڈ کوارٹر سمجھتے ہیں کہ جہاں کوئی حقیقی تخلیق کار پہنچنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ پھر یہ ہیڈ کوارٹر کسی سچے اورخالص تخلیق کار ،شاعر، ادیب کی فلاح کیلئے کوئی ایک آدھ اقدام تک نہیں اٹھا سکا۔ چھوڑئیے کہ کہیں مافیا کے کسی فرد کے ماتھے پر سلوٹ نہ پڑجائے، ایک اور ذکر چھیڑے دیتے ہیں کہ پاکستان میں ادب خریدنے، بیچنے کارواج عام ہے، ضرورت مند مگر حقیقی قلم کاروں کی تخلیق خرید کر یا عہدے کا رعب ڈال کر اپنے نام سے منسوب کراکے خود کو زبردستی ادبا، شعرا کی فہرست میں گھسیٹے رہنے والے مافیا کی بھی دوسری قسم ہیں ۔ اس فہرست میں عموماً ایسے لوگ شامل ہیں جنہیں ’جی حضوری‘ کرنے اور ’جی جی‘ کی گردان الاپنے پر بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے نوازا گیا ہے حالانکہ وہ کسی ایسے عہدے کے لائق نہ تھے خیر ان عہدوں پر پہنچنے کے بعد اب ضرورت تھی کہ خو د کو ادیب، شاعر ظاہر کیا جائے بس پھر کسی نہ کسی ادارے، ضرورت مند شاعر ،ادیب سے ’تخلیق ‘ خرید کر کے اپنا نام سے منسوب کرکے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک تو عہدہ یعنی بڑا عہدہ اور پھر تخلیق کار (چاہے جعلی ہی سہی) ظاہر ہے کہ ایسے میں چھوٹے موٹے تخلیق کاروں پر رعب ڈالنے کیلئے یہی کافی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اس مافیا کے حوالے سے خاموش ہی رہتے اور برسوں سے ان کٹھ پتلیوں کو جانی انجانی انگلیوں پر ناچتے دیکھ  کر خاموشی اختیار کئے رہتے لیکن ’شہید کتاب‘ کا خون بار بار ہمیں ان چہروں کو بے نقاب کرنے پر مجبور کر رہا ہے، انتہائی معصوم صورت فرزانہ ناز جس کی شرافت اور سچی اورسچی فنکارہ ہونے کی گواہی نہ صرف راولپنڈی، اسلام آباد کے لوگ دیتے ہیں بلکہ انہیں اس حوالہ سے معتبر بھی مانا جاتا ہے۔ ’ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے‘کے نام سے خوبصورت مجموعہ کلام کی خالق یہ خوبصورت اور معصوم شاعرہ اسی مافیا کی غفلت کی بھینٹ چڑھ گئی، نیشنل بک فاﺅنڈیشن پاکستان کے تحت ہونیوالے کتاب میلہ کے دوران سٹیج سے گر کر شدید زخمی ہوئیں۔ یہاں ایک ستم کا ذکر ضرور کریں گے کہ ’پاک چائنہ فرینڈشپ ہال‘ ایک ایسے اندھے کنویں کی مانند ہے کہ جو پہلے بھی چار پانچ حادثات کاباعث بن چکا ہے، مشاعرے کے دوران جب بارہ سے چودہ فٹ اونچے سٹیج پر دھکم پیل جاری تھی ایسے میں فرزانہ ناز سٹیج سے گر گئیں، سٹیج کے سامنے پختہ فرش پر اونچائی سے گرنے کے بعد فرزانہ شدید زخمی ہوئیں اور چاہئے تو یہ تھا کہ مافیا ہی کے ایک رکن اور نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے روح رواں جو اس کتاب میلہ کے میزبان بھی تھے ،اس زخمی شاعرہ کیلئے کچھ کرتے مگر انہوں نے دامن بچانے کو ترجیح دی، سٹیج پر موجود لوگوں کے مطابق ان صاحب کے منہ سے نکلا ’اچھا فرزانہ گر گئیں، پہلے بھی پانچ لوگ ایسے ہی سٹیج سے گر چکے ہیں‘۔ ایک اصول ہے (خاص طورپرپاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر تو یہ بیحد ضروری ہوگیا) کہ ایسی تقریبات کے دوران ایمبولینس اور دیگر ایمرجنسی اقدامات ضروری تصور کئے جاتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہ تھا۔ ایک حقیقی شاعر، تخلیق کار ، سچے جذبوں کے حامل ، فنکاروں کا درد رکھنے والے احمد رضا راجہ مافیا کے خلاف اور شہید کتاب فرزانہ ناز کی موت کے ذمہ داران کے تعین کیلئے متحرک ہیں، کہا جا رہا ہے کہ فی الوقت ایوان صدر سے اور حکومتی اداروں سے مرحومہ کے بچوں کی کفالت کے حوالے سے بہتر انتظامات کئے جا رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان سطور کے چھپنے تک کچھ نہ کچھ امدادی رقوم کا اعلان ہوجائے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آخر مافیا کے ہاتھ کیوں ایسے نازک، حساس ادارے سونپے جاتے ہیں اگرایسے لوگوں کو نوازنا ہی مقصود ہوتا ہے تو پھر ضروری ہے کہ انہیں ملک کے کسی ایسے شعبہ میں کھپایا جائے جہاں ان کی ’حقیقی قدرومنزلت ‘ کی جا سکے ، اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاﺅنڈیشن جیسے حساس اداروں پر ایسے مافیا کو مسلط کرنا قرین انصاف نہیں ہے، ان لوگوں کے تسلط کی وجہ سے نہ تو ادب اور نہ ہی ادیبوں کی فلاح کا کوئی راستہ ہموار ہوسکا اور نہ ہی اس شعبہ کو ترقی نصیب ہوئی۔ البتہ کئی حکومتی مراعات کے ضمن میں مافیا کو ضرور فائدہ پہنچا ہے۔ یہاں ایک بات ضرور عرض کریں گے کہ یہ معاملہ محض ان دواداروں کا نہیں ہے بلکہ ہراس شعبہ کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے جو فن ،فنکار، ادب، ادیب، شاعری، شاعروں سے متعلق ہو، ان میں سیاسی بھرتیوں سے گریز کرکے ان حساس شعبہ جات کو مافیا سے نجات دلائی جائے۔

ہم نے فرزانہ ناز کی شہادت اور ادب مافیا کا ذکر کیا ، ایک ادب شناس دوست سے گزشتہ روز با ت ہورہی تھی ان سے معلومات لینے کیلئے پوچھ لیا کہ اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاﺅنڈیشن اور ایسے دوسرے اداروں کے قیام کا مقصد کیا ہوتاہے؟ کیا یہ ادارے اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اکادمی ادبیات مقالہ جات کی تیاری میں ادبی شخصیات کی معاونت کرتی ہے جبکہ نیشنل بک فاﺅنڈیشن ادبی کتب کی تیاری میں شعرا، ادبا سے تعاون کرتی ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا ان دونوں تنظیموں نے اپنا کام صحیح معنوں میں انجام دیا؟ ہمارے سوال پر اس دوست نے کہا کہ میں نے جب سے شعور سنبھالا ہے دونوں تنظیموں کا نام سن رہا ہوں اوران دونوں پر ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر تقرری کی جاتی ہے حالانکہ دونوں تنظیموں کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں مگر حکومتیں من پسندوں کو نوازنے کیلئے یہ کام کرتی چلی آرہی ہیں۔ ماضی میں بھی نہ تو ان تنظیموں کی بدولت ادب سے وابستہ شخصیات کو کوئی فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی اب کوئی فائدہ ہو سکا۔ ان صاحب سے گفتگو کے بعد مزید جانچ پڑتال اور کھوج کیلئے نکلے تو عجیب انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ کہیں زبان و کلچر کے نام پر قائم اداروں میں بھی من مانیاں جاری ہیں تو کہیں فروغ ادب کو بہانہ بناکر ٹٹ پونچجوں کو نوازا جا رہا ہے۔ لیکن باعث شرم مقام یہ ہے کہ آج فرزانہ ناز کی شہادت کو کافی دن بیت گئے نہ تو نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے روح رواں ڈاکٹرانعام الحق جاوید کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے آئی اورنہ ہی انہوں نے ا س کی ضرورت محسوس کی بلکہ بقول شاہدین وہ سٹیج پر کھڑے تھے جب فرزانہ ناز سٹیج سے گریں انہیں جب حادثہ کے ضمن میں بتایا گیا تو وہ چونکتے ہوئے کہنے لگے ’اچھا پہلے بھی پانچ بندے سٹیج سے گرچکے ہیں‘ یعنی انہیں معلوم تھا کہ پاک چائنہ فرینڈشپ سنٹر کا سٹیج خونیں حیثیت کا حامل ہے مگر انہوں نے اس کے باوجود اس کا کیونکر انتخاب کیا؟ الزامات در الزامات کی اگر بات کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے ادارہ کو اپنی تشہیر کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال تک نہیں کیا ؟ ان کی بدولت کسی بھی شاعر کو آگے بڑھنے یا کتب کی اشاعت میں سہولت میسر نہیں آئی؟ گویا انہوں نے اپنا عہدہ اپنی ذات تک محدود رکھا ہوا ہے۔ ادب شناس، ادب نواز شخصیات سے رابطہ رہتا ہے اور شعرا، ادیبوں سے بھی بات چیت ہوتی ہے لیکن خدا جانتا ہے کسی نے بھی انہیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا ؟ کیوں؟ یقینا وہ خود بھی جانتے ہونگے۔ اب خاص طورپر فرزانہ ناز کی شہادت کے بعد تو انہیں اپنی پوزیشن کلیئر کرنا چاہئے تھی مگر انہوں نے الٹا احمد رضا راجہ جیسے حقیقی تخلیق کاروں کو دھمکانا شرو ع کر دیا ہے، آخر کیوں؟ یہ وجہ بھی خود ان کے ذہن میں ہوگی۔

اب اگر بات فرزانہ ناز کے حوالے سے کی جائے تو اس عظیم شہید خاتون کے عظیم باہمت، تخلیق کار شوہر نے ایک عجیب سی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ بے شک انہیں کوئی مالی امدا د نہ دیں ،میں اورمیرے بچے زندگی گزار لیں گے لیکن خدا کیلئے فرزانہ ناز کو ’شہید کتاب‘ کا لقب ضرور دیا جائے۔ کیونکہ فرزانہ ایک سچی شاعرہ تھی ، اس کے جذبے صادق تھے وہ انہی صادق جذبوں کوبروئے کار لاکر ہی شاعری کرتی رہی ہے۔ اس نے شاعری کو اپنے مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی وہ شارٹ کٹ اور چاپلوسی کے ذریعے کسی مقام کی طالب تھی ، ا س کے ذہن میں صرف سوچ تھی تو صرف ’مثبت ادب‘ کی ہی تھی اوراس کیلئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی۔

ہماری فرزانہ ناز سے واقفیت نہ تھی لیکن ان کے حالات زندگی سے واقفیت ضرور ملی ہے۔ یقینا ایک ایسے ماحول میں جب ہرسو منڈیاں سجی ہوںخاص طورپر ادب خریدا اوربیچاجارہاہو ایسے میں اگر فرزانہ ناز جیسی باہمت خاتون اگر سچے جذبے کے ساتھ میدان میں موجود رہے تو اس کے جذبے کو ضرور سلام پیش کرنے کودل چاہے گا ۔

صاحبو! بتایا جا رہا ہے کہ ایوان صدر سے شہید ہ کیلئے امدادی رقوم کا اعلان ہونے والا ہے، امداد کے ضمن میں کتنی رقم مختص ہوگی اور کتنے عرصہ تک ان کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت کے سر ہوگی؟ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی حکمران ادبی شعبہ اورادیب، شعرا سے مخلص ہیں، ان معصوم جذبات کے حامل لوگوں کی کچھ زیادہ خواہشیں بھی نہیں ہوتیں، یہ اپنا خون جگر جلا کر قوم کی بیداری ، احساس ذمہ داری پیدا کرنے کیلئے زندگی بھر ایک مزدور کی طرح جتے رہتے ہیں، یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو کسی کادکھ درد اپنے دل میں محسوس کر کے ذہن سے سوچتے ہیں اورپھر اسے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں، مگر جب کسی ظالم سے ٹکرانے کی باری آئے تو ان کا قلم ہتھیار بن جاتا ہے اور وہ اس راہ میں ڈٹ کرکھڑے ہو جاتے ہیں، اپنی جان پر ظلم سہہ کر بھی قوم، لوگوں کی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ یقینا ایسے عظیم لوگوں کی قدر کرتے ہوئے کم ازکم ان کے مقام کو جانچنا چاہئے اور خدا را حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والے ادبی اداروں پر کم از کم ایسے لوگ لائے جائیں جو حقیقی معنوں میں ادب کیلئے کچھ  کرنے کے خواہش مند ہوں ،ان کا مطمح نظر محض اپنی ذات کی تشہیر نہ ہو اور نہ ہی وہ ملنے والے عہدے کے بل بوتے پر اپنے آپ کو پروان چڑھاتے رہیں۔ باتیں بے شمار ہیں لیکن ایک چھوٹی سی بات کے ساتھ اختتام کرینگے کہ فیس بک اور سماجی رابطوں کے دیگر ذرائع پر ان اداروں پر مسلط شخصیات کے رنگ برنگے روپ اوراپنی شخصیت کو پروان چڑھانے کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر کم ازکم ہمارے جیسے چھوٹے شہروں کے تخلیق کار ضرو ر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).