کاش کہ منٹو کا جنم دن منا سکتے


چلئے ماضی قریب میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو منٹو کی نثر نگاری کے تناظر میں جانچتے ہیں۔ 20 اپریل 2017 ءکی غیر یقینی صورتحال دوپہر تک بنی رہی ، احتجاج یا توڑ پھوڑ کے ڈر سے بازار ویران اور سڑکیں سنسان تھیں۔ کئی مزدور فٹ پاتھوں پر بیٹھے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حالات بدل جانے کے خوشنما خیالات میں گم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ جیسے ہی پانامہ کیس کا فیصلہ آیا تمام سیاستدانوں نے مٹھائی کھائی اور مزدور جو دیہاڑی سے محروم رہا تھا شب فاقہ گزارنے پر مجبور ہوا۔ کاش کہ اس مزدور نے منٹو صاحب کا نیا قانون پڑھا ہوتا تو وہ بھی سکون سے خواب خرگوش کے مزے لے پاتا۔ اسے بھی اپریل کی خاصیت معلوم ہوتی تو کبھی بھی اس کی امیدیں نہ ٹوٹتیں۔ منگو کوچوان کو پڑے گھونسے اسے اس نظام سے کوئی امید وابستہ ہی نہ رکھنے کا سبق دیتے۔

کاش کہ ہمارے قبرستانوں میں مردوں کی بے حرمتی کرنے والے منٹو صاحب کے افسانے ٹھنڈا گوشت کے کردار ایشر سنگھ کے انجام سے واقف ہوتے۔ کاش یونیورسٹیوں میں انسانیت کی توہین کے مرتکب منٹو کے افسانے ’ہتک‘ میں سوگندھی کے دل ٹوٹنے کی کیفیت جانتے ہوتے۔ کاش جمعیت سازی کی تربیت میں منٹو کے افسانے ’کھول دو‘ کو شامل کیا جاتا تاکہ کوئی سکینہ کسی جتھے کے ہاتھوں اپنی عزت غیر محفوظ نہ سمجھے اور اگر ہمارے معاشرے میں نیتی کو تانگہ چلانے کی اجازت ہوتی تو آج کوٹھوں کی تعداد میں بھی کمی ہوتی۔ مگر افسوس جو ہمیں پابندی سے پڑھنا چاہیے تھا اسی ادب پر ہمارے ہاں پابندی ہے۔

کاش لاہور میں موجود رائے بہادر سر گنگا رام کی سمادھی کو 1992 میں منہدم کرنے والے منٹو صاحب کا مختصر اقتباس ’جوتا‘ کے قاری ہوتے تو کبھی بھی احسان فراموشی کی اس حد تک نہ جاتے۔ کاش کہ سمادھی میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگانے والے جانتے ہوتے کہ ڈینگی جیسی آفت میں ان لوگوں کو سر گنگا رام کے ہسپتال میں ہی شفا یابی ہو گی۔ کاش کہ وہ جانتے ہوتے کہ انکی بیٹیاں جس کالج سے میڈیکل کی ڈگریاں حاصل کرتی ہیں اس کی زمین سر گنگارام نے ہی عطیہ کی تھی۔ ہمارہ معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے کاش ہم نے منٹو کو برداشت کیا ہوتا۔ منٹو ٹھیک ہی تو کہتا تھا کہ اگر آپ معاشرے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو میری تحریریں پڑھیں اگر میری تحریریں قابل برداشت نہیں تو جان لیں کہ معاشرہ بھی ناقابل برداشت ہے۔

سعادت حسن منٹو کو ہم سے دور کرنے والی سوچ خود بھی اس کے سحر سے بچ نہ سکی۔ منٹو صاحب کے سب سے بڑے مداح تو ضیاا لحق صاحب نکلے۔ جیسے ہی اقتدار سنبھالا ،پتہ نہیں کس نے منٹو صاحب کا انکل سام (سامراج) کے نام لکھا چھوٹا خط ہاتھ میں تھما دیا۔ مرد حق نے بھی قوم و ملت کی فلاح اور بقا اسی خط میں پنہا جانی اور من و عن اس کی پیروی کرتے ہوئے ملا کو روس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا کر دیا۔ پچیس سال بعد منٹو کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں کا ملا سوشلزم کا کامیاب توڑ ثابت ہوا۔ چچا سام نے بھی رشتہ داری خوب نبھائی۔ سٹرنگرز اور ڈھیلوں کی سپلائی متواتر جاری رکھی۔ منٹو صاحب اگر آج حیات ہوتے تو ان کی منی ایچر ایٹم بم والی خواہش بھی پوری کی جا سکتی تھی۔

کاش ہم منٹو کو مرنے نہ دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).