اخلاقی کشمکش کی کہانیوں پر ایک دلچسپ مشق


آئیے آج کچھ مختلف کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ مشق کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مشق میں کچھ سوال ہیں۔ ہر سوال کا ایک ایمان دارانہ جواب سوچیے۔ اسے لکھیے اور پھر اگلے سوال پر نظر کیجیے۔ یہ ضروری ہے کہ سوالات کے جواب ترتیب سے دیے جائیں اور جب تک آپ ایک سوال کا جواب نہ دیں۔ تب تک اگلے سوال کو پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ ظاہر ہے کوئی نگران تو ہے نہیں اس لیے آپ کو اپنی ایمانداری پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ اگر ان اصولوں سے روگردانی کریں گے تو نتیجہ درست نہیں نکلے گا۔ یہ سوالات اور ان سے جڑے واقعات مختلف کتب سے مستعار لیے گئے ہیں اور یہ مباحث برسوں سے ہو رہے ہیں۔ لہذا جب آپ مشق مکمل کر لیں گے تو گوگل کا سہارا لے کر ان حوالوں کی مکمل تحقیق کرنا آپ کے لیے بہت آسان ہو گا۔

 ہم یہ زحمت کر کیوں رہے ہیں۔ یہ پردہ آخر میں اٹھائیں گے۔ تو آئیے مشق کا آغاز کرتے ہیں۔ یاد رہے ہر سوال کا جواب اپنے پاس لکھیں اور اس جواب کی وجہ تحریر کریں۔ پھر اگلے سوال کو پڑھیں۔ ایک بات یہ بھی کہ آپ اپنی شرائط ایجاد نہیں کر سکتے۔ جو حالات اور شرائط سوال میں موجود ہیں، جواب کو انہی تک محدود رکھیں۔

سوال نمبر ا : ریل پٹری پر ایک بے قابو ٹرالی تیز رفتاری سے جا رہی ہے ۔ اس پٹری پر کچھ آگے ایک پاگل شخص نے پانچ لوگوں کو باندھ کر ڈال دیا ہے۔ تھوڑی دیر میں بے قابو ٹرالی ان پر چڑھ دوڑے گی۔ خوش قسمتی سے آپ ایک کنٹرول روم میں موجود ہیں ۔ آپ کے سامنے ایک سوئچ ہے جو پٹری کے کانٹے سے منسلک ہے۔ سوئچ دبائیں اور ٹرالی راستہ بدل کر دوسری پٹری پر چلی جائے گی۔ بدقسمتی سے اس پٹری پر بھی ایک شخص بندھا ہوا ہے۔ سوئچ نہ دبانے کی صورت میں پانچ اور دبانے کی صورت میں ایک موت یقینی ہے۔ کیا آپ سوئچ دبائیں گے یا نہیں؟

سوال نمبر 2: ابھی بھی ذکر اسی ٹرالی کا ہے ۔ پانچ لوگوں کی زندگی کا سوال ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب نہ کوئی کانٹا ہے نہ سوئچ۔ آپ ایک پل پر کھڑے یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔ پل پٹری کے عین اوپر ہے۔ آپ کے ساتھ پل پر ایک بھاری بھرکم فربہ شخص بھی یہ منظر دیکھ رہا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ خود ٹرالی کے آگے کود جائیں لیکن آپ ایک کم وزن آدمی ہیں۔ ٹرالی آپ کو کچل کر آگے بڑھ جائے گی تاہم اگر آپ اس فربہ شخص کو پٹری پر دھکا دے دیں تو اس کے ٹرالی کے نیچے آنے سے ٹرالی رک جائے گی۔ یہ فرض کر لیجیے کہ یہ امر یقینی ہے۔ یعنی اس فربہ شخص کی قربانی دے کر پانچ جانیں بچ جائیں گی۔ کیا آپ اس شخص کو دھکا دیں گے یا نہیں؟

اس سے پہلے کہ ہم تیسرے سوال کی طرف بڑھیں۔ ایک تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ تجزیہ ان کے لیے ہے جنہوں نے پہلے سوال کا جواب ہاں میں اور دوسرے کا ناں میں دیا ہے۔ ذرا سوچیے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ دونوں سوالوں میں ایک جان قربان کر کے پانچ جانیں بچتی ہیں۔ پھر آپ کے جواب مختلف کیوں ہیں؟ آئیے اب سوال نمبر 3 کا جائزہ لیں

سوال نمبر 3: اس میں حالات و واقعات سوال نمبر 2 والے ہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب آپ پل کے بجائے کنٹرول روم میں ہیں اور فربہ شخص پل پر ہے۔ آپ ایک سوئچ دبا کر پل پر موجود ایک تختہ کھول سکتے ہیں جس پر وہ شخص کھڑا ہے۔ نتیجتا وہ پٹری پر گرے گا اور پٹری اس کو کچل کر رک جائے گی۔ پانچ جانیں بچ جائیں گی۔ کیا آپ سوئچ دبائیں گے یا نہیں؟

مختصر تجزیہ کرتے ہیں۔ آپ کے عمل میں دھکا دینے یا سوئچ دبانے کے انتخاب کی وجہ سے کوئی تبدیلی آئی ہے۔ اگر آئی ہے تو کیوں۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ تو ایک ہی ہے۔

 سوال نمبر 4: آپ ایک ڈاکٹر ہیں۔ آج ہی ایک معمولی آپریشن شیڈول کیا گیا ہے۔ مریض بے ہوش کر دیا گیا ہے لیکن اچانک ایمرجنسی میں پانچ شدید زخمی مریض آ جاتے ہیں۔ بتایا گیا کہ پانچوں ایک ٹرالی کے نیچے آئے ہیں۔ اتفاق سے پانچوں زخمی اور آپ کی آپریشن ٹیبل پر موجود چھٹا شخص ایک ہی خون کا گروپ رکھتے ہیں اور ان کے ٹشوز کا میچ بھی ہے۔ پانچوں زخمیوں کو اعضا کی پیوندکاری کی ضرورت ہے۔ ایک کو گردہ، ایک کو پتہ، ایک کو جگر، ایک کو دل اور ایک کو پھیپھڑے چاہئیں ورنہ سب مر جائیں گے۔ آپ کا چھٹا مریض عطیہ دینے کے لیے رجسٹرڈ ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ اس کے انستھیزیا میں معمولی سا اضافہ کر دیں۔ اس سے اس کی موت ہو جائے گی اور اس کے اعضا سے پانچ جانیں بچ جائیں گی۔ فرض کر لیجیے کہ آپ کا حلف آپ کو اس کام سے نہیں روکتا اور قانونی طور پر آپ کا گرفت میں آنا ناممکن ہے۔ کیا آپ اپنے چھٹے مریض کو مار کر پانچ جانیں بچا لیں گے یا نہیں؟

مختصر تجزیے میں اگر آپ نے سوال نمبر 1 سے 3 تک کوئی جواب ہاں میں دیا تھا اور اب آپ کا جواب ناں میں ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ جبکہ آخری نتیجہ ہر صورت میں ایک ہی ہے۔ آپ اس پر سوچیے اور ہم آپ کے لیے کچھ اور سوال رکھے دیتے ہیں

سوال نمبر 5 : سیاحوں کا ایک پندرہ رکنی گروپ ساحل کے ساتھ موجود غاروں میں بھٹک گیا ہے۔ گروپ کی قیادت ایک فربہ شخص کر رہا ہے۔ایک غار میں گھستے ہی پچھلی سمت سے راستہ منہدم ہو گیا ہے۔ غار کا ایک دہانہ ہے جس سے باہر نکلنا ممکن ہے۔ گائیڈ نے سب سے پہلے غار کے دہانے سے نکلنے کی کوشش کی مگر سر باہر نکلنے کے بعد وہ اس میں پھنس گیا۔ رات کا وقت ہے اور چودھویں کی رات ہے ۔ سمندری پانی نے چڑھنا شروع کر دیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں غار میں پانی بھر جائے گا اور پندرہ کے پندرہ سیاح ڈوب کر مر جائیں گے۔ صرف گائیڈ بچے گا کیونکہ اس کا منہ دہانے سے باہر ہے۔ مدد کا پیغام بھیجا گیا ہے لیکن مدد آنے میں کافی وقت ہے ۔ تب تک صرف فربہ گائیڈ زندہ بچے گا۔ گائیڈ کو کھینچ کر نکالنا ناممکن ہے تاہم خوش قسمتی یا بدقسمتی سے سامان میں ایک ڈائنامائٹ سٹک موجود ہے۔ اگر اس کو گائیڈ کے جسم کے نیچے رکھ کر اڑا دیا جائے تو راستہ کھل جائے گا۔ پندرہ لوگ بچ جائیں گے پر گائیڈ مارا جائے گا؟ سیاحوں کو کیا کرنا چاہیے؟

ایک اور تجزیہ کیے لیتے ہیں۔ اس سوال میں آپ موجود نہیں ہیں اس لیے آپ کے فیصلے میں آپ کی اخلاقی ذات مکمل طور پر ملوث نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ بھی اس گروپ میں ہیں اور ڈائنامائٹ سٹک بھی آپکے پاس ہے۔ کیا اب بھی آپ کا جواب وہی ہے۔

سوال نمبر 6: سوال نمبر 5 کے کردار اور حالات تھوڑا بدل کر دیکھتے ہیں۔ اب گائیڈ کی جگہ ایک حاملہ خاتون ہے۔ ڈائنامائٹ سٹک کی جگہ ایک خنجر ہے۔ حاملہ کو ہلاک کر کے اسے ہٹایا جا سکتا ہے ۔ اس عمل میں اس کے بطن میں موجود بچہ بچ جائے گا۔ اب آپ کیا کریں گے؟

کیا سوال نمبر 5 اور 6 کے جواب مختلف ہیں۔ یاد رکھئے کہ آپ نے جواب انتہائی ایمانداری سے دینے ہیں۔ یہ سوچیے کہ آپ کے ساتھ آپ کا خاندان بھی ہو سکتا ہے۔ ان سب کی موت مقدر ہے جب تک آپ کچھ کرتے نہیں۔ کیا اس صورت میں آپ کے جواب پھر بدل جائیں گے۔ اگر سوال نمبر 6 میں بچہ بھی مرتا ہو تو آپ کا جواب کیا ہو گا۔ اگر پندرہ کی جگہ پچاس سیاح غار میں پھنسے ہوں تو کیا آپ کا جواب مختلف ہو گا۔

سوال نمبر 7 : آئیے فرضی صورت حال سے آگے نکلتے ہیں اور ایک حقیقت سے قریب قصے پر غور کرتے ہیں۔ 1842 میں ایک جہاز ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر غرق ہو گیا۔ ایک لائف بوٹ پانی میں اتاری گئی جس میں صرف 7 لوگوں کی گنجائش تھی پر ڈوبتے جہاز کے تیس لوگ اس پر سوار ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں یہ بات واضح ہو گئی کہ اگر لائف بوٹ پر سے وزن کم نہ کیا گیا تو وہ بھی غرق ہو جائے گی۔ لائف بوٹ پر جہاز کا کپتان بھی موجود تھا۔ اس نے تجویز دی کہ کچھ لوگوں کو زبردستی سمندر میں پھینک دیا جائے ورنہ سب مارے جائیں گے۔ کچھ لوگوں نے اس سے اختلاف کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کچھ نہ کرنے کے نتیجے میں سب ڈوب جاتے ہیں تو کسی کا خون کسی کی گردن پر نہیں ہو گا۔ کپتان کا کہنا تھا کہ اگر سب ڈوب گئے تو سب کی موت اس کی گردن پر ہو گی کہ وہ کچھ کو بچا سکتا تھا مگر کسی کو بھی نہ بچا پایا۔ کپتان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ لائف بوٹ کو بہت دیر تک کھینا ہو گا اور اس کے لیے طاقتور لوگوں کی ضرورت ہو گی اس لیے لائف بوٹ پر موجود کمزور لوگوں کو سمندر برد کر دیا جائے۔ کپتان کی بات مانی گئی۔ کچھ لوگوں کو سمندر میں زبردستی پھینک دیا گیا ۔ لائف بوٹ ڈوبنے سے بچ گئی اور کئی دن بعد ایک اور جہاز تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ بعد میں مرنے والوں نے کپتان پر قتل کا مقدمہ دائر کر دیا۔ کیس چلا۔ فرض کیجیے کہ آپ جیوری کے رکن ہوتے تو آپ کا فیصلہ کیا ہوتا؟

سوال نمبر 8: آخر میں آپ کو ایک کربناک اخلاقی کشمکش سے متعارف کراتے ہیں۔ ولیم سٹائرون نے برسوں پہلے ایک ناول تحریر کیا تھا ۔ ناول کا نام تھا سوفی کا انتخاب ( sophie’s choice ). ناول کی کہانی ایک پولش خاتون سوفی زاویتوسکا کے گرد گھومتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دور میں سوفی اپنے دو بچوں کے ہمراہ نازیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتی ہے۔ سوفی کا ایک بیٹا ہے جو عمر میں بڑا ہے اور ایک اس سے کچھ چھوٹی نازک سی بیٹی ہے۔ سوفی کو بچوں سمیت بدنام زمانہ عقوبت خانے آشوویز پہنچایا جاتا ہے۔ چونکہ سوفی یہودی نہیں ہے اس لیے “ازراہ کرم” نازی اسے انتخاب کا موقعہ دیتے ہیں۔ بچے چونکہ مشقت کے قابل نہیں اس لیے انہیں گیس چیمبر کے حوالے کیا جانا ہے لیکن سوفی ان میں سےایک کو بچا سکتی ہے۔ سوفی کی ممتا یہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ اپنے کس جگر گوشے کو موت کے حوالے کرے۔ نازی انتظار کے قائل نہیں ۔ وہ دونوں بچوں کو گیس چیمبر کی جانب دھکیلنا شروع کرتے ہیں تو اچانک سوفی فیصلہ کر لیتی ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو موت کے حوالے کرنے پر راضی ہو جاتی ہے ۔ اس امید پر کہ اس کا بیٹا جو نسبتا طاقتور ہے، عقوبت خانے کی مشقت جھیل لے گا جبکہ نازک چھوٹی سی بیٹی شاید یوں بھی نہ بچے۔ بیٹی گیس چیمبر کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ بیٹا اس وقت بچ جاتا ہے پر پھر ماں کو کبھی اس کا سراغ نہیں ملتا۔ برسوں گزر جاتے ہیں اور اپنے اس فیصلے کا بوجھ سینے پر لیے سوفی آخر ایک دن خودکشی کر لیتی ہے؟ کیا سوفی کا اپنے آپ کو مجرم ٹھہرانا صحیح تھا؟

سوال نمبر 7 اور 8 کو ایک ساتھ رکھیں۔ پھر سوچیں کہ آپ کے جوابات میں کیا اب بھی ربط ہے۔

ان سوالوں کا کوئی درست یا غلط جواب نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ایک مختلف فیصلہ کر سکتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتے ہوئے مختلف حالات میں فیصلے بدل جاتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر اخلاقی کشمکش کے فلسفیانہ مباحث ہیں۔

ہم روز کسی نہ کسی اخلاقی کشمکش سے دو چار ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک دوراہا ہمارے سامنے آتا ہے۔ کونسا راستہ چننا ہے۔ کس کو مسترد کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ہم کیسے کرتے ہیں ۔ اس کے پیچھے کون سی تربیت اور کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ ایک پپیچیدہ فلسفیانہ بحث ہے۔ جو مثالیں یہاں دی گئی ہیں اس میں ایک افادیت یا یوٹیلیٹیرینزم کا قائل ہمیشہ ایک جان قربان کر کے زیادہ جانیں بچا لے گا۔ تاہم اگر آپ کانٹ کے فلسفے کے پیروکار ہیں تو آپ کا رویہ اور فیصلہ مختلف ہو گا۔ کون سا شخص جذبات کو اہمیت دیتا ہے۔ کون عقلی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ کون تجزیاتی طبعیت رکھتا ہے اور کون جبلت کو مقدم رکھتا ہے۔ یہ سب اخلاقی رویوں پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔

کچھ دن ہوئے کہ اس بات پر بحث چھڑی کہ اخلاقیات اجتماعی شعور کی پیداوار ہیں یا اخلاقی فلسفے کی بنیاد مذہب ہے۔ میں اس پر اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں اور یہ حتمی سوال آپ کے لیے چھوڑے جاتا ہوں کہ آج کی ان تمام مثالوں میں آپ کے جواب میں آپکے عقیدے اور مذہبی تربیت کا کتنا دخل تھا۔ شاید ایک ایماندارانہ تجزیے سے آپ کو سوچنے کو کچھ نیا مل جائے گا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad