آزادی  کا چراغ جلتا رہے گا


آزادی ! یہ لفظ بہت ہی آسان ہے دیکھا جائے تو اس کے بہت سی مقاصد ہیں اور ہر پہلو کو مدنظر رکتھے ہوئے اس لفظ کی تہہ کو گہرائیوں سے سمجھنے کے قابل صرف وہ لوگ ہیں جن میں شعور ہو۔ کہتے ہیں کہ تعلیم شعور دیتی ہے و ہ ایک بنیادی حق بھی ہے اب تو تعلیم کو بھی ایک عیاشی بنا دیا گیا ہے تعلیم یافتہ نوجوان کالجوں، یونیورسٹیوں میں کھلے عام وحشی درندوں کی طرح شعور یافتہ نوجوانوں کو ماررہے ہیں۔ نوچ رہے ہیں۔ آیا کہ وہ تعلیم یافتہ ان باشعور نوجوانوں کو ختم کررہے ہیں کیا تعلیم یافتہ افراد میں شعور نہیں؟

 یہاں شعور اور تعلیم دو الگ چیزیں ہیں کیوں کہ وہ تعلیم یافتہ علم کو سر سے گزار رہے ہیں اس لئے وہ بے شعور ہیں۔ لیکن جو حقیقی معنوں میں علم کو حاصل کرتا ہے وہ باشعور ہوجاتا ہے ۔ وہ سب ایک طرف یہاں لفظ آزادی کی بات ہو رہی ہے مطلب کہ بے خوف۔ خودمختار کسی کا پابند نہ ہونا۔ اختیار پر سکون اور بھی بہت سے معنی ہیں ۔ کیا آزادی سب کے لیے برابر ہے؟ اس کا جواب بہت ہی مشکل ہے کیونکہ وہ نوجوان یا وہ لوگ جو تعلیم یافتہ بھی ہیں اور بے شعور بھی وہ بے خوف ہوکر لوگوں کو مار مارکر نوچ رہے ہیں اور وہی لوگ جو خود مختار ہوکر اپنی زندگی گزار رہے ہیں نا وہ کسی کا پابندہیں۔ نہ کسی سے خوف۔ ہرچیز ان کے اختیار میں ہیں اور ہو پر سکون وہ کر اطمینان سے جو چائے کر سکتے ہیں اور اس کے بر عکس دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو کہ تعلیم یافتہ بھی اور با شعور بھی ہیں لیکن وہ کافی حد تک ڈر ڈر کر خوف زدہ ہوکر زندگی گزار رہے ہیں ۔ انہیں بولنے تک کی آزادی نہیں اور نہ انہیں اپنی زندگی پر سکون ہو کر گزار نے کی اختیار ہے ۔ نہ ہی وہ خود مختار ہیں۔ بلکہ ہر طرح سے وہ کسی نہ کسی کا پابند ہیں۔ ہر دن گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں۔ یہاں آزادی بھی سب کے لیے نہیں بلکہ جس میں بولنے کی صلاحیت ہے تو اسے زندہ رہنے نہیں دیا جاتا ۔ یا مذہبی انتہا پرست لوگ اسلام کا مخالف کہہ کر انہیں ختم کردیتے ہیں یا ریاست خود ایسے لوگوں کو ختم کردیتا ہے ۔ جو بات کرنا جانتے ہیں۔ جو آزاد ہوکر رہنا چاہتے ہیں۔ انکے بولنے کی قوت ہی انکے موت کا سبب بن جاتی ہیں ۔ انہیں کچل دیتے ہیں۔ ایک طرف مشال خان ہو ہنستامسکراتا ہوا نوجوان جنہیں سب کے سامنے بے پردگی سے مذہب کے نام پر بے دردی سے مارا جاتا ہے ۔ لوگ تماشائی کھڑے دیکھ کر ویڈیو بناتے ہیں تاکہ سوشل میڈیا پر ان لوگوں کے لیے جلد از جلد اپلوڈ کیا جائے ۔ جو نئے تماشہ دیکھنے کے منتظر ہو اس میں قصور وار ہو تعلیم یافتہ بے شعور طبقہ نہیں بلکہ وہ تعلیمی ادارے یا وہ نظام جو یونیورسٹیوں میں ایسے درندے پیدا کررہے ہیں ۔ یہ صرف ایک مشال خان تو نہیں بلکہ یہاں لاتعداد اور بھی مشال ہیں ۔ بلوچستان کے ایسے لاتعدار نوجوان ہونگے جنکی مسخ شدہ لاشیں انکے ماﺅں کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں اور ایسے بھی نوجوان جو گمشدہ ہیں پتہ نہیں کس اذیت خانوں میں اذیت سہہ رہے ہونگے ۔ اور یہ سوچ کر تھک جاتی ہوں جب مشال خان کے ماں کے سامنے ان کا مسخ شدہ لاش لایا ہوگا تویقینا ماں کا کلیجہ پھٹ گیا ہوگا، لیکن آج بھی تو بلوچستان کے یونیورسٹی کا ہونہار طالب علم ذاکر مجید اور اس کے علاوہ ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں تو کیا ان کے ماﺅں کے کلیجے ہر روزپھٹتے ہونگے؟ شاید وہ ہر روز یہ بات سوچتے ہونگے کہ کب ہمارا لخت جگر ایک مسخ شدہ لاش کی صورت میں ہمارے سامنے رکھ دیا جائے گا حالانکہ مشال خان کو اسلام کے نام پر ختم کیا گیا تو ان نوجوانوں کو جو آزادی کے متعلق بات کرتے تھے یا کرتے ہیں انہیں ختم کرنے میں ریاست کا ہاتھ ہیں یہ دو الگ الگ پہلو ہیں لیکن تکلیف اور درد ایک ہی طرح کے ہیں آج مشال خان کی والدہ بھی تڑپ رہی ہوگی لیکن اس درد کا شاید ہمیں اندازہ نہ ہو یقینا وہ مائیں بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جن کے لال ایک مسخ شدہ لاش کی صورت میں ان کے سامنے رکھ دیے گئے۔ ان ماﺅں کے زخم پھرسے تازہ ہونگے جب وہ مشال خان کے بارے میں سنیں گی تو ایک بار پھر انکے درد کو دہرایا جاتا ہے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ مائیں اس درد کو بھول چکی ہوں بلکہ وہ تو اطمینان سے زندگی ختم ہونے تک کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ جلد وہ اپنے لخت جگروں کے پاس جاکر انہیں گلے لگا سکے ۔

مائیں بھی ان دردوں کو بھول نہیں سکتیں جو ہم بھول چکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ایک نئی زندگی کو جنم دینے کے لیے کروڑوںFeelings Plenty, of Desire, Feelings, Emotion, Senses,کی ضرورت ہوتی ہیں ۔ جب ایک ماں تخلیق کے عمل سے گزر تی ہے ایک بچے کو جنم دیتی ہے وہ درد بیس ہڈیوں کے Fractureہونے کے درد کے مترادف ہوتا ہے ۔ ہر طرح کے Biological Factorسے گزر تی ہے لیکن وہی مائیں جب ہزاروں خوائش لیے اپنے لخت جگروں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھیں تو ان پر کیا گزرتی ہوگی یہ ہم بھول گئے ہیں ہم یہ بھی بھول چکے ہیں ہم انسان ہے انسانیت کی قدر کرنا بھول چکے ہیں ۔ اب تو انسانیت بھی مرچکی ہے ۔ لیکن ان سب کے پیچھے اصل ذمہ دار کون ہے!

آئیے ذرا سوچیے ان سب کے پیچھے کیا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ ہے؟ کیا مذہبی جنونی پرست لوگ ہیں؟ کیا ریاست ہے؟ آخر اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ان تمام برائیوں کی جڑ پورے کے پورے نظام System کے زمرے میں آتی  ہے ۔ میں کس طرح طالب علموں کو قصور وار ٹھہراﺅں !یہاں تک کہ ہم نے استادوں کو بھی دیکھا اور سنا ہے کس قدر جاہلیت کا دورہے اس کا ہمیں اندازہ تک نہیں اس لیے میں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے بارے میں بتانا چاہوں گی جس سے اس بات کو سمجھنے میں آسانی ہو کہ نہ صرف انتہا پرستی میں سیکھنے والا شریک ہے بلکہ سکھانے والے کا ہاتھ بھی شامل ہے ۔ یہ حقیقت کچھ اس طرح سے ہے جب ہم Vivaدینے کے لیے Examination Hallمیں گئے تو ایک External یونیورسٹی کی پروفیسر Chemistryکے Vivaمیں ایک طالب علم سے یہ پہلا سوال پوچھتی ہے کہ آپ Nail polish لگا کر آئی ہو مسلمان نہیں ہو؟ طالب علم جواب دیتی ہے میم میں مسلمان ہوں ۔ پھر دوسراسوال کرتی ہے نماز نہیں پڑھتی ہو؟ پر تیسرا سوال کرسٹن ہو اس طرح کچھ سوالات کیا۔ کیا ہندو ہو؟ پر لڑکی ڈرکی وجہ سے خود کو مسلمان کہہ کر کہتی ہے شاید وہ خود کو مسلمان بھی اس لیے کہتی ہے تاکہ اسے Viva میں Failنہ کیا جائے ۔ وہ مذہب بھی تبدیل کرکے کہتی ہے میم میں مسلمان ہوں چیک کرنے کے لیے لگا لیا تھا ۔ لیکن اب نہیں اتر رہے ہیں ۔ تو ٹیچر مشورہ بھی دیتی ہے بیٹا آئندہ سے اسلامک Nail polishلگالینا ۔ میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں یہاں قصور وار صرف ایک طبقہ نہیں پورانظام ہے ۔ لیکن میں بس یہ واضح کردینا چاہوں گی انسانی جسم کوتو ختم کردینا ممکن ہے لیکن اس سوچ کو کیسے ختم کر سکو گے ۔ آج ایک مشال خان کو ماروگے کل ایسے ہزاروں مشال پیدا ہونگے۔ کتنے ذاکر مجید کو زندان میں رکھوگے آج بھی تو ذاکر مجید جیسے نوجوان اپنی بات منوا سکتے ہیں ۔ جتنے پروفیسر صبا دشتیاری جسمانی طور پر ہم میں سے نہیں ہیں لیکن ان کے نظریہ ہمیشہ لوگوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ہزاروں صبا دشتیاری کی شکل میں لوگ ظلم کے خلاف آج بھی آواز اٹھا رہے ہیں ۔ آج کون کہتا ہے سبین محمود ہمارے درمیان نہیں وہ تو ہر دلوں میں زندہ ہیں ۔ جتنا بھی ہوسکے لیکن یہ چراغ۔ قندیل روشنی رات کو ختم ہونے کے بعد صبح دوبارہ سے بیدار ہوجائے گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).