نرگسیت کی شکار خیبر پختون خوا پولیس



نرگسیت علم نفسیات کی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں خود پسندی، یہ اصطلاح یونان کی ایک کہانی سے اخذ کی گئی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک ہیرو ہے جسے اپنے ارد گرد کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لوگوں سے اپنی تعریفیں سنتے سنتے اتنا خود پسند ہو گیا تھا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہوگیا، رات دن اپنے آپ کو دیکھتا رہتا۔ بھوک پیاس سے نڈھال ہوتے ہوئے بھی پانی کو چھو نہیں سکتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ پانی کے ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اس کی خوبصورت شکل ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ چنانچہ پیاس سے نڈھال ہو کر مر گیا۔ دیو مالا کے بیان کے مطابق دیوتاﺅں نے اسے نرگس کا پھول بنا دیا اسی وجہ سے خود پسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا۔ اس مرض کے کئی اور بھی خطرناک پہلو ہیں جو ہمیشہ سے مسائل کا بیش خیمہ رہے ہیں۔

نرگسیت کسی صورت میں بھی ہو ہمیشہ خطرناک ثابت ہوئی ہے ، خواہ وہ پورے معاشرے کے لئے ہو یا کسی ایک فرد کے لئے ۔ یونانی کہانی کی طرح خیبر پختون خوا کی پولیس بھی نرگسیت کا شکار ہو گئی ہے، گزشتہ چار سال کے دوران شاید ہی کوئی موقع ایسا ہو جس پر تحریک انصاف کے بانی اور وزراء نے صوبے کی پولیس میں تبدیلی اور تھانہ کلچر کو ختم کرنے پر بات نہ کی ہو ۔ پولیس کے حق میں ہر وقت بے جا قصیدوں نے ان پنجانی فلموں کے ولن جیسے کرداروں کو یونانی کہانیوں کی نرگسیت سے بھر پور ہیرو بنادیا ہے مگر یونانی کہانیوں کے برعکس یہ خود پسند پولیس خود کی بجائے دوسروں کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ چند ماہ میں اس موڈیفائڈ پولیس کے ہاتھو ں مردان میں تین معصوم لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ یہ تین واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں اس لئے لوگوں کے علم میں ہیں ورنہ پتہ نہیں روز کتنے لوگ پولیس کے ہاتھوں رسوا اور خوار ہو تے ہوں گے۔

ڈاکٹر مبارک حیدر کے مطابق جب نرگسی شخص کی انا کو خطرہ پیدا ہوجائے تو وہ صحت مند آدمی سے زیادہ جذباتی رد عمل ظاہر کرتا ہے ، حتیٰ کہ نرگسی طیش کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ جس طرح گزشتہ روز مردان میں کیا گیا ۔ ایک حافظ قرآن جو کہ دماغی مریض تھا ، نے اپنے والد کی موٹر سائیکل سے اتر کر ایک پولیس والے تھپڑ ماردیا ، بدلے میں پولیس نے اسے قتل کردیا ، اسے کہتے ہیں نرگسی طیش ، ورنہ مقتول کے والد نے پولیس کو کہا تھا کہ میرا بیٹا دماغی مریض ہے اور وہ اسے علاج کے لئے لے کر جا رہے ہیں، وہ نہیں سمجھتا کہ پولیس کون ہے، مگر تھپڑ سے پولیس کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی اور انہوں نے وہی کیا جو نرگسیت کے مرض میں مبتلا لوگوں سے توقع کی جاتی ہے۔

نرگسیت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ نرگسیت کا شکار شخص اپنی ناکامی کو ماننے کی بجائے اپنی ذات سے باہر نکال دیتا ہے ، یعنی دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ مردان میں اس سے پہلے ایک اور واقعہ رونما ہوا تھا جس میں پولیس نے ایک بزرگ شخص کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ دونوں واقعات میں پولیس نے لاشوں کو قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق پہلے شخص کو پولیس کو دیکھ کر بھاگنے اور دوسرے کو اس کے حلئے کے باعث مارا گیا۔

ملک کا قانون کسی بھی شخص کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ، پولیس کو اگر کسی مشکوک شخص پر گولی چلانے کی اجازت بھی دی گئی ہے تواس کے لئے بھی قوانین وضع کئے گئے ہیں۔ مگر ڈیوڈ تامس کے مطابق نرگسیت کے شکار شخص کے خیال میں کسی بھی کام کے قواعد کی پابندی اس پر لازم نہیں ہوتی۔

پولیس میں اچھے لوگ بھی ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف زیادہ قربانیاں بھی انہی لوگوں کی ہوںگی لیکن 2013ء سے پہلے یہاں کی پولیس خود کو پنجاب کے چودھری، سندھ کے وڈیرے ، خیبر پختون خوا کے بدمعاش اور بلوچستان کے نواب تصور کرتی تھی۔ 2013ء میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پولیس کی ٹریننگ اوراس کے رویوں پر کام کرنے کی بجائے اسکی بے جا اور بے مقصد تعریفوں کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ پارٹی کے چیئر مین پختون خوا پولیس کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ ان تعریفوں نے صوبے کی پولیس کو نرگسیت میں مبتلا کردیا ہے اور اب یہ یونانی کہانی کے ہیرو کی طرح نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لئے بھی درد سر بن گئی ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ پر عاشق ہوگئے ہیں اور خود کے علاوہ ہر شخص کو مشکوک سمجھنے لگے ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو انسان نہیں سمجھتے۔

مبارک حیدر کے مطابق نرگسیت کے مریضوں کا علاج ممکن ہے مگر مشکل یہ ہوتی ہے کہ مریض خود کو مریض نہیں مانتا۔ اپنے مرض کا اعتراف کرنے کی بجائے یہ مریض اپنے نقاد پر جوابی الزام عائد کرتے ہیں اوراکثر الزام یہ ہوتا ہے کہ نقاد حاسد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).