مولانا فضل الرحمن ایک غیر روایتی سیاستدان


پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں مولانا کا حقیقی ظہور سنہ اسی کی دہائی میں ہوتا ہے۔ ضیا مارشل لا اپنے جوبن پر ہوتا ہے، ایسے میں مولانا مارشل لا کی مسلسل مخالفت کرتے ہوئے ہمیں ایم آر ڈی کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں انھیں آمرانہ ہتھ کنڈوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اسٹیٹ سپانسرڈ افغان جہاد سے بھی مناسب فاصلے پر رہتے ہیں۔

انیس سو اٹھاسی میں پہلی بار جے یو آئی ان کی قیادت میں الیکشن لڑتی ہے۔ وہ خود بھی اسمبلی پہنچتے ہیں، بلوچستان میں بھی ان کی پارٹی ایک اہم قوت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ تب پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کو اسلامی جمہوری اتحاد سامنے آتا ہے۔ مولانا اپنی جماعت کو اس سے دور ہی رکھتے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد ہو یا مہران بنک سکینڈل دونوں ہی میں مولانا یا ان کی جماعت کا نام دکھائی نہیں دیتا۔ مولانا جب پیپلز پارٹی سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں تو بھی نوے کا الیکشن وہ اپنے جماعت کے انتخابی نشان پر لڑتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کی اسٹیبلشمنٹ سے بغاوت سمجھا جاتا ہے، لہذا ان کے مقابلے میں ایک عالم دین کو کھڑا کر کے مذہبی ووٹ تقسیم کر کے ان کی شکست کا انتظام کیا جاتا ہے۔

انیس سو ترانوے میں مولانا دوبارہ اسمبلی میں پہنچتے ہیں، بے نظیر بھٹو کی حکومت ہے۔ جنرل نصیر اللہ بابر افغان مسئلہ اور بے قابو مجاہدین کو سبق سکھانے کے لیے اپنے بچے طالبان کے نام سے سامنے لاتے ہیں۔ مولانا اس وقت پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیرمین ہوتے ہیں۔ مولانا پھر بھی فیصلہ ساز قوتوں کے ڈیزائن سے باہر رہتے ہیں، پس پردہ دباؤ کا شکار ہونے سے انکار کرتے ہوں گے، اب ان پر افغانستان ڈیزل اسمگلنگ کے الزامات لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ انیس سو چھیانوے کے جنرل الیکشن ہوتے ہیں، مولانا اس بار اپنی نشست ہار جاتے ہیں۔

اس الیکشن میں ہارنے کے بعد پہلی بار مولانا ایک دو مواقع پر اپنی تقاریر میں تنبیہہ کرتے ہیں کہ اگر جمہوری راستے روکے گئے تو پھر ہمارے پاس خونی انقلاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ مسلسل جمہوریت آئین کی بات کرتے رہنے کے بعد مولانا کے یہ ایک دو بیانات، اگر ان کا تجزیہ بھی تھے، تو بھی ہم ایک جمہوری سوچ کے عالم دین سیاستدان کے کمزور لمحات کا ہی مشاہدہ کرتے ہیں۔

نوازشریف کا دور مختصر رہتا ہے، جنرل پرویز مشرف مارشل لا لگادیتے ہیں۔ ستمبر گیارہ کا واقعہ ہوتا ہے دنیا بدلنے لگتی ہے۔ مولانا جو ایک مارشل لا بھگت چکے ہیں، اب مختلف حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ وہ اس بار انیس سو پچاسی کے عام انتخابات کے بائیکاٹ والی غلطی نہیں دُہراتے۔ مذہبی جماعتوں کو اکٹھا کرتے ہیں، فیصلہ سازوں کو سمجھاتے ہیں۔ دو ہزار دو میں پارلیمنٹ کا راستہ تب اختیار کرتے ہیں جب ایک وردی والا صدر اپنی طاقت کے نشے میں چور ہے۔ ملک میں شدت پسندی کی اٹھتی لہر ہے، افغانساتن پر امریکا کے حملے کے بعد ہاکستان کے جو دو صوبے متاثر ہوتے ہیں، دونوں میں مولانا کی جماعت شریک اقتدار ہوتی ہے۔ مولانا خود ایک طاقتور اپوزیشن لیڈر بنتے ہیں، جس کے زیر قیادت اتحاد دو صوبوں میں مکمل اور جزوی اقتدار حاصل کرتا ہے۔ مولانا ہی آئین میں سترہویں ترمیم کروانے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ ان جیسا زیرک سیاستدان مشرف سے وردی اتارنے کی شق تو منوا لیتا ہے لیکن مشرف اپنا وعدہ پورا نہیں کرتا اور وقت آنے پر وردی اتارنے سے انکار کر دیتا ہے۔

اس ناکامی کو ہم مولانا کی سیاسی مذاکراتی کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں، مولانا کے مداح اس کو کامیابی بھی بتا سکتے ہیں کہ آمر وقت کو ہلا نہیں سکے تو بھی معاہدے میں ایسی شق رکھوا دی کہ اس سے انکار کرنے پر فوجی آمر کی ساکھ برباد ہو کر رہ جائے۔ یہ کمزور ساکھ ہی تھی پھر جس کا جنازہ افتخار چودھری اور عدلیہ بحالی تحریک نے نکالا۔ مولانا آج کل پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں، پہلے بھی اس منصب پر رہے ہیں۔ مولانا کو کشمیر کمیٹی کے حوالے سے میڈیا میں اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ اس تنقید پر مولانا تو ہنستے ہی ہیں کہ انھیں جب کوئی اور بات نہیں ملتی تو مجھ پر یہ اعتراض شروع کر دیتے ہیں۔ مولانا کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے جس سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کی اکثریت نے متحدہ ہندُستان ہی کو سپورٹ کیا تھا، وہ پاکستان بنانے کے حامی نہیں تھے۔ کشمیر کے حوالے سے کسی بھی مذاکراتی فورم پر مولانا کی موجودگی بھارتی حکومت کے لیے الگ قسم کی مشکلات پیدا کر جاتی ہیں۔ وہ ایسے بندے سے کیا مذاکرات کریں جو بات ہی یہاں سے شروع کرے کہ دیکھیں ہمارے بڑے تو متحدہ ہندُستان کے حامی تھے۔ کشمیر کا مسئلہ تقسیم سے متعلق ہے یہ ہمارے حق کی بات ہے اس کو تو پر امن طور پر بات چیت سے حل کرنا ہو گا۔ اس کے بعد بھارتی زعما جو بھی کہیں اس کا ہر جواب مولانا کے پاس موجود پایا جائے گا اور ان پر کوئی اعتراض کرنا یوں بھی ایک مشکل امر ہے کہ مولانا کی جماعت پر کشمیر میں مسلح تحریک کی سپورٹ کا بھی کوئی الزام نہیں ہے۔ وہ تنازع کے پر امن حل ہی کے حامی ہیں۔

مولانا کا ایک اپنا ویژن بھی ہے جو ان کے بیانات، اسمبلی میں تقاریر، ان کے انٹرویوز سے سامنے آتا ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ جب بنائی گئی تو عالمی طاقتوں نے طے کیا تھا کہ دنیا کو اب اصول، قانون اور معاہدوں کے مطابق چلایا جائے گا، ایسا نہیں ہو سکا۔ اب بھی اگر عالمی معاہدوں پر عمل کیا جائے تو حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمام عالمی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں مشترکہ عالمی مداخلت کی گئی۔ اب یہ جنگ بھی میری سرزمین پر لڑی جا رہی ہے مارا بھی مجھے جا رہا ہے اور دہشت گرد بھی مجھے ہی کہا جا رہا ہے۔ آئے تو یہ لوگ دہشت گردی شدت پسندی کا خاتمہ کرنے تھے لیکن ان کے آنے پر تو اس سب میں اضافہ ہو گیا، فساد تو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا۔ یہ نکتہ اس قابل ہے کہ اس پر امریکیوں اور ان کے اتحادیوں سے ہماری ریاست کو بار بار جواب طلب کرنا چاہیے۔

مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ ستمبر گیارہ کے بعد جب پاکستان میں شدت پسندی نے زور پکڑا تو بلوچستان خیبر پختون خواہ میں وہ حکومتوں کا حصہ تھے۔ وہ اپنے دور میں امن امان کی مثٓال دیتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ بتائیں کہ صرف سیاسی اور انتظامی سپورٹ کے ساتھ صوبائی حکومت کتنا ڈیلیور کر سکتی تھیں۔ وہ بھی ایسے حالات میں جب اپنی مرکزی حکومت اور افغانستان میں حملہ آوروں کی پالیسیاں ہی شدت پسندوں کو سپورٹ ہی نہ کر رہی ہوں بلکہ وہ عملی طور پر بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت شدت پسندی کو بڑھا رہے ہوں۔

مولانا یہ بھی کہتے ہیں، لوگوں کو اس لہر سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ ہم خصوصی اقدامات کرتے اس کا راستہ روکتے۔ انہوں نے قانون سازی کی وہ حسبہ بل لائے تھے تاکہ لوگوں کے مسائل کا فوری حل ملے وہ پر امن رہیں۔ علما صورت احوال کو قابو رکھ سکیں ان میں سے کچھ کو با اختیار بھی کیا جائے تاکہ لوگوں کو مذہب کے نام پر شدت پسندی اختیار کرنے سے روکا جائے۔ مولانا کا ماننا ہے کہ حسبہ بل مقامی عدالتوں کا ستر فیصد بوجھ کم کر دیتا۔ جب لوگوں کو اپنے مسائل کا فوری حل ملتا علما مناسب تعداد میں فراہمی انصاف کے عمل میں شامل ہوتے تو شدت پسندی کی لہر نہ اٹھ پاتی۔ جو مولانا کے بقول ان لوگوں نے اٹھائی جنہوں نے وضع قطع مذہبی لوگوں کی سی اختیار کر کھی ہے اور مذہب سے ان کا دور دور تک واسطہ نہیں نہ ہی وہ بنیادی مذہبی تعلیمات سے واقف ہیں۔

مولانا ایک مختلف سیاستدان ہیں۔ سینکڑوں علما کے مسلمہ قائد ہیں۔ مدارس کے ہزاروں اساتذہ اور طلبا ان کی جماعت کے سرگرم ارکان ہیں۔ ان کی جماعت لاکھوں ووٹ لیتی ہے۔ ہمیشہ آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں اس کی مثال دیتے ہیں، اسی مثال کو ان کا مذاق اڑانے کے لیے میڈیا میں دُہرایا جاتا ہے۔ یہ ہی مثال مولانا کی تعریف کرنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ ایک بڑے مذہبی مکتبہ فکر کا نمائندہ جب بات کرتا ہے تو ملکی قوانین اور آئین کے حوالے دیتا ہے۔ وہ یہ فرق برقرار رکھتا ہے کہ وہ نمائندہ تو مذہبی فکر کا ہے لیکن وہ نظام کا حامی ہے۔ اصل میں وہ اپنے لوگوں کو اصول اور قانون پر چلانے کی ہی تو کوشش کر رہا ہے انہیں بتا رہا کہ ہم اپنی فکر تھوپ نہیں سکتے ہمیں مل جل کر ہی چلنا سب کو ساتھ لیکر۔

مولانا سے جب ان کے اسلامی ماڈل کا پوچھا جائے تو ان کا جواب دل چسپ ہوتا ہے۔ وہ گلہ کرتے ہیں کہ جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو آپ ہم لوگوں کے کردار میں صحابہ سے مماثلت ڈھونڈتے ہیں۔ آپ کو مذہب کا سن کر سخت اسلامی سزائیں ہی یاد آتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھ۔ سے ماڈل کیوں پوچھتے ہو۔ ہم اپنا ماڈل بنائیں گے، اپنے حالات کے مطابق اپنے لوگوں کی طبعیت کے مطابق۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi