برق رفتار پولیس کی گمشدہ گاڑی


میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر بنی ایک پوش آبادی میں رہتا ہوں۔ یہ ایک خوبصورت منصوبہ ہے۔ کشادہ سڑکیں، صفائی کا بہترین انتظام، چوبیس گھنٹے کی سیکیورٹی، بہترین کمرشل ایریا، سینما، ریسٹورانٹ اور بھی بہت کچھ۔ دو شہروں کے درمیان ایک نیا شہر سمجھ لیجیے۔ جس گھر میں میرا قیام ہے، وہ اس آبادی کی عین سرحد پر ہے۔ میرے گھر کے عقب میں ایک دیوار ہے۔ دیوار کے ساتھ ایک سڑک ہے اور سڑک کے پار کچے پکے گھروں کا ایک سلسلہ ہے۔ میں صحیح طرح نہیں کہہ سکتا کہ یہ گھر راولپنڈی میں آتے ہیں یا اسلام آباد کے مضافات میں پر یہ معلوم ہے کہ یہ اس تھانے کی حدود ہیں جو فیڈرل پولیس کے قبضہ قدرت میں ہے۔

یہ قصہ چند روز قبل کا ہے۔ سڑک کے پار ایک احاطہ ہے۔ وہاں کوئی تقریب تھی۔ سالگرہ، شادی، عقیقہ۔ کچھ واضح نہیں تھا پر سہ پہر کے بعد سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری تھا۔ شام چھ بجے موسیقی سے مہمانوں کو محظوظ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرے گھر سے اس احاطے کا فاصلہ سو گز سے زائد نہ تھا اس لیے جھنکار گویا میرے آنگن میں گونجتی تھی۔ پہلے تو معاملہ قابل برداشت رہا پر سات بجے کے قریب کسی نے آواز کی ناب کو پکڑ کر پورا گھما ڈالا۔ یوں لگا کہ میرے گھر میں گویا زلزلہ آ گیا ہو۔ ساز، آواز اور بول سب ایک دوسرے میں گھس گئے۔ کھڑکیوں کے شیشے ایک نئی لے اور تال میں بجنے لگے جو کہ ہرگز روح کے سکون کا باعث نہیں تھیں اور ہر کم وزن شے محو رقص ہو گئی۔

خیر صاحب، ہو جاتا ہے۔ جلدی سے گھر کی تمام کھلی کھڑکیوں کو بند کیا گیا۔ پنکھے پوری رفتار سے چلا دیے گئے۔ ہم گھر کے اگلے کمروں کی طرف مراجعت کر گئے پر حالات کوئی خاص تسلی بخش اب بھی نہ تھے۔ میری بیٹی اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھی۔ تھوڑی دیر تو اس نے مزاحمت دکھائی پر پھر کتابیں ایک طرف پھینک دیں۔ کہ اس شور قیامت میں کچھ سمجھ میں آنا ممکن نہیں تھا۔ اب ہم سب منتظر تھے کہ یہ سلسلہ تھمے تو اپنے اپنے کام سے لگیں۔ اس میں ایک گھنٹہ اور گذر گیا۔ سات بجے میں نے سوچا کہ خود نکلتا ہوں اور جا کر اپنے سرحد پار کے ہمسایوں کو عرضی ڈالتا ہوں کہ ہمارے حال پر رحم کریں پر میری تین بٹا چار بہتر سد راہ بن گئیں۔ استفسار پر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اس کھڑکی پر لے گئیں جہاں سے تقریب کا منظر صاف دکھتا تھا۔ اس منظر میں ہتھیار بند حضرات تھے جن کا حلیہ، وضع اور تمام قطع انتہائی غیر شریفانہ تھی۔ کچھ خواتین تھیں جو فنی مظاہرے کی تیاری میں مصروف تھیں لیکن ہم نے ان سے صرف نظر کیا کیوں کہ ایک تو ہماری ازلی شرافت کا تقاضہ تھا دوسرے بیگم عین بغل میں موجود تھیں۔

“ ایسی جگہ تو میں تمہیں جانے نہیں دوں گی“ بیگم نے فیصلہ صادر کر دیا۔ یہ بتانا مشکل تھا کہ انہیں میری جان کا خوف زیادہ تھا یا میری شرافت پر بھروسہ نہیں تھا لیکن فیصلہ بہرحال حتمی تھا۔

میری بیٹی اب سخت پریشان تھی۔ اس کی تیاری آخری مراحل میں تھی اور اس شور کے ساتھ پڑھنا بالکل ممکن نہیں تھا۔ اب کیا کیا جائے۔ کیوں نہ آبادی کے سیکیورٹی آفس سے رابطہ کیا جائے۔ انہیں فون ملایا۔ اگلی طرف ایک صاحب نے انتہائی ہمدردی سے میرا مسئلہ سنا پھر فرمایا

“ سر، لیکن یہ گھر تو ہماری حدود میں نہیں ہے“

“لیکن بھائی شور تو آپ کی حدود میں آ رہا ہے نا“

“ سر۔ ہماری باؤنڈری کے اندر کوئی شور کر رہا ہو تو ہماری ذمہ داری ہے لیکن سر باؤنڈری سے باہر تو ہماری نہیں چلتی“

“ یعنی نوائز پلوشن آپ کی ذمہ داری نہیں ہے“

“کیا چیز سر“

“ صوتی آلودگی“

“ سر، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا“

“یار۔ اچھا چھوڑیں۔ ایک کام کریں۔ کم ازکم ایک گارڈ کو وہاں بھیج کر ان سے درخواست کریں کہ میوزک کی آواز کم کر دیں“

“ سر، گارڈز کو باؤنڈری کے باہر بھیجنے کی اجازت نہیں ہے“

“ تو اس مسئلے کا کیا حل ہے“

“ سر۔ میں پولیس کو مطلع کر دیتا ہوں۔ وہ آ کر میوزک بند کروا دیں گے“

“ ٹھیک ہے۔ مگر انہیں کہیں ذرا جلدی کریں“

“ جی سر۔ بس ابھی کال کر رہا ہوں“

گفتگو ختم ہوئی تو میں نے بیٹی کو تسلی دی کہ بس مسئلہ تھوڑی دیر میں حل ہو جائے گا۔ ایک گھنٹہ اور گذر گیا۔ میوزک ابھی بھی اسی زورشور سے بج رہا تھا۔ اردو سے پنجابی گانوں کے بعد اب پشتو نغمے ماحول کو گرما رہے تھے۔ تنگ آ کر میں نے دوبارہ سیکیورٹی آفس فون ملایا

“یار۔ گھنٹہ ہو گیا ہے۔ ابھی تک پولیس نہیں آئی“

“سر۔ میں نے تو اسی وقت کال کر دی تھی“

“یار، یہ پولیس چوکی دو سو گز دور ہے۔ میرے گھر سے نظر آتی ہے۔ اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے“

“ سر۔ اس پولیس چوکی میں تو کوئی نہیں ہوتا“

“کیا مطلب“

“سر، وہاں ایک محرر ہوتا ہے۔ ایک شاید اس کا نائب ہے۔ وہ بھی کبھی ہوتے ہیں کبھی نہیں۔ اور ہوں بھی تو دوپہر کو وہ چھٹی کر جاتے ہیں“

“ تو اس پولیس چوکی کا فائدہ کیا ہے۔ یہ کرتے کیا ہیں“

“سر، یہ تو پتہ نہیں۔ یہ بس ایسے ہی ہیں یہاں پر۔ ہم انہیں کال نہیں کرتے۔ ان کی کوئی اتھارٹی بھی نہیں ہے“

“ تو آپ نے کسے کال کی ہے“

“سر۔ میں نے تھانے کال کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ گاڑی بھیجتے ہیں۔ آپ تھوڑا انتظار کر لیں“

چلیے صاحب، ہم نے پھر انتظار شروع کر دیا۔ اس بیچ یہ آس بھی بندھی تھی کہ شاید تقریب ہی ختم ہو جائے پر ایسی خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔ ایک گھنٹہ اور گزار دیا گیا۔

“کیوں نہ 15 پر فون کیا جائے؟ “

میں نے بیگم سے پوچھا

“ کوئی فائدہ نہیں۔ یاد ہے جب ایک دفعہ ایکسیڈنٹ ہوا تھا تب بھی کوئی نہیں آیا تھا۔ کتنی دفعہ کال کی تھی“

“ پر وہ تو کوئی آٹھ سال پرانا قصہ ہے۔ اب ہو سکتا ہے سروس بہتر ہو گئی ہو“

“ کر لیں کوشش۔ کسی نے فون بھی نہیں اٹھانا“

بہرحال ہم نے کہا کہ کوشش کر ہی لیتے ہیں۔ نمبر ڈائل کیا۔ ابھی آٹھ دفعہ ہی گھنٹی بجی تھی کہ فون اٹھا لیا گیا۔ ہم نے فاتحانہ نظروں سے بیگم کو دیکھا مگر وہ حسب معمول کہیں اور دیکھ رہی تھیں۔

“ السلام علیکم ۔ جی جناب“

پولیس کے منہ سے جی جناب سن کر ہم تھوڑا پھول گئے۔ تفصیل سے انہیں اپنا مسئلہ سمجھایا۔ دوسری جانب ایک ہمدرد روح تھی۔ انہوں نے کمال صبر سے ہماری روداد سنی۔ ہمارا پتہ نوٹ کیا۔ راستے کی نشانیاں پوچھیں پھر کہا

“ سر۔ میں آگے اطلاع کر رہا ہوں۔ آپ کا نمبر بھی انہیں فارورڈ کر رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں جو بھی گاڑی آپ کے علاقے میں ہو گی۔ وہ پہنچ جائے گی۔ شکریہ“

فون بند ہوا تو ہم نے گھڑی دیکھنی شروع کر دی۔ تقریبا نو بجے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم کھڑکی سے باہر جھانکتے۔ گلی میں مڑتی ہر گاڑی ہمیں پولیس کی گاڑی لگتی۔ اس دوران ہم بیٹی کو یہ بتاتے رہے کہ پولیس ریسپانس ٹائم تین منٹ سے پانچ منٹ ہوتا ہے۔ اگر بہت بھی رعایت دے دیں کہ ہم پاکستان میں بیٹھے ہیں تو بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ میں پولیس آ جائے گی۔

“یہ آپ کو کیوں یقین ہے“ بیٹی نے پوچھا

“ کیونکہ اگر ریسپانس ٹائم اس سے زیادہ ہو تو پھر تو پولیس کی اور ایمرجنسی کال کی ساری افادیت ختم ہو جائے۔ کوئی میرے گھر میں ڈاکہ ڈال رہا ہو۔ کوئی قتل ہونے کا امکان ہو۔ کوئی آگ لگا رہا ہو۔ کوئی گاڑی چوری ہو رہی ہو۔ پندرہ منٹ میں تو سارا کام ختم ہو جائے گا۔ پھر کوئی لب بام آیا بھی تو کیا“

بیٹی کو لب بام والا جملہ تو سمجھ نہیں آیا پر اب وہ کچھ مطمئن لگ رہی تھی۔

کرتے کرے چار دفعہ پندرہ منٹ گذر گئے۔ اب دس بج چکے تھے اور پولیس کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ میں نے جھلا کر دوبارہ 15 پر فون کیا۔ اتفاق سے کال پھر انہی صاحب کے پاس گئی جن سے پہلے بات ہوئی تھی۔

“ بھائی میرے، میں نے گھنٹہ پہلے آپ کو اس نمبر اور اس پتے سے شکایت کی تھی۔ ابھی تک کوئی گاڑی نہیں پہنچی“

“ کوئی گاڑی نہیں پہنچی؟ “

“جی۔ کوئی گاڑی نہیں پہنچی“

“ اچھا اا اا اا اا ا“

“جی۔ آپ ذرا گاڑی سے رابطہ کریں“

“سر۔ گاڑی سے تو میرا رابطہ نہیں ہے“

“ کیا مطلب؟ “

“سر، وہ آپ کی شکایت ہم نے متعلقہ تھانے کو بھجوا دی تھی۔ گاڑی انہوں نے بھیجنی تھی“

“ انہوں نے تو نہیں بھیجی“

“ تو کسی نے آپ سے رابطہ بھی نہیں کیا؟ “

“نہیں“

“اچھا اا اا اا اا اا“

“یار۔ کوئی اس مسئلے کا حل نکالے۔ یہ تو بڑی زیادتی کی بات ہے کہ میں 15 ایمرجنسی پر فون کروں اور گھنٹے تک کوئی شنوائی نہ ہو“

“ کیا نہ ہو؟ ”

“ کچھ نہیں یار۔ آپ مجھے حل بتائیں اب“

“ سر۔ میں دوبارہ تھانے پر بات کرتا ہوں۔ انہیں کہتا ہوں کہ آپ کو priority۔ پر ڈیل کریں“

“ یعنی پہلے یہ پرائیراٹی نہیں تھی“

“ سر۔ بس میں ابھی رابطہ کر رہا ہوں۔ آپ اپنا فون آن رکھیں۔ “

“ جی۔ وہ آن ہی ہے“

چلیے حضور۔ ایک اور راونڈ ختم ہوا۔ اب تک کان شور کے عادی ہو چکے تھے۔ بیٹی سخت بیزار ہو کر کانوں میں ہیڈ فون لگائے اب اپنی مرضی کی موسیقی سن رہی تھی کہ پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ کوئی پینتالیس منٹ اور گذرے تو فون کی گھنٹی بجی۔ ایک نامعلوم نمبر سکرین پر جگمگا رہا تھا

“ہیلو“

“جی ہیلو۔ یہ میوزک کی شکایت آپ کی ہے“

“ جی۔ میری ہے“

“میں گاڑی سے بات کر ریا ہوں۔ یہ آپ کا پتہ کیا ہے“

“ پتہ تو میں لکھوا چکا ہوں۔ خیر پھر بتا دیتا ہوں“

اس کے بعد میں نے انہیں پتہ لکھوایا

“اچھا۔ یہ ہے کہاں جی۔ کوئی راستہ سمجھا ئیں گے“

“ آپ کوئی navigation استعمال نہیں کرتے؟ “

“ کیا نہیں کرتے؟ “

“ کچھ نہیں۔ میں سمجھاتا ہوں“

اس کے بعد میں نے تفصیل سے انہیں راستے، موڑ اور راستوں کی نشانیاں سمجھا ئیں۔ آخر میں انہیں ایک مشہور کمرشل پلازہ کا بتایا کہ میرا گھر اس سے کچھ دوری پر تھا

“ تو یہ میوزک پلازے میں بج رہا ہے“

“ نہیں یار۔ میوزک پلازے میں نہیں بج رہا۔ میرے گھر کے پیچھے ایک اور گھر میں ہے“

“اس گھر کا پتہ کیا ہے؟ “

“ وہ تو مجھے نہیں پتہ“

“ لیکن وہ آپ کے پیچھے ہے تو گلی نمبر تو پتہ ہو گا“
“بھائی وہ میری آبادی میں نہیں ہے“

“ لیکن ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کے ساتھ والا گھر ہے“

“ میں نے کہا تھا پیچھے والا گھر“

“وہی نا۔ ساتھ ہی ہوا نا“

“ نہیں بھائی۔ ساتھ نہیں ہے۔ بیچ میں ایک دیوار ہے۔ ایک سڑک ہے“

“ تو ہم ادھر کیسے جائیں جب آپ کو پتہ نہیں معلوم“

“ تو آپ نے یہ جو دس منٹ لگا کر میرے گھر کا پتہ سمجھا ہے آپ ادھر تشریف لے آئیں۔ یہاں سے میں آپ کو بتا دوں گا“

“ہمممم۔ ٹھیک ہے جی۔ پھر ہم پہنچتے ہیں تھوڑی دیر میں“

فون بند کر دیا گیا۔ گیارہ بج چکے تھے۔ پانچ گھنٹے سے یہ کہانی جاری تھی پر اب لگتا تھا کہ اس کا اختتامی وقت آن پہنچا تھا۔

“ جہاں اتنا صبر کیا ہے وہاں تھوڑی دیر اور۔ گاڑی پہنچنے میں کتنی دیر لگ جائے گی۔ تھانے سے بھی چلے تو پندرہ بیس منٹ۔ “

میری بیوی نے سخت طنزیہ نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن اب میں کسی اور سمت دیکھ رہا تھا۔ پندرہ بیس منٹ والا اندازہ خام ثابت ہوا۔ بارہ بجے میں نے تنگ آ کر ”گاڑی والے“ کے نمبر پر یکے بعد دیگرے کالیں کی مگر جواب ندارد۔

ساڑھے بارہ بجے پھر فون کی گھنٹی بجی۔ اب ایک اور نیا نمبر تھا۔

“ السلام علیکم“

“جی۔ وعلیکم السلام ”

“ یہ آپ کی شکایت تھی جی میوزک والی“

“ جی۔ میری ہی تھی پر اس کو کئی گھنٹے ہو گئے ہیں اور آپ کون بول رہے ہیں“

“ جی میں تھانہ ایس ایچ او بول رہا ہوں“

“ ایس ایچ او صاحب، یہ آپ کی گاڑی ابھی تک کیوں نہیں آئی“

“ گاڑی نہیں آئی؟ “

“ نہیں جی۔ نہیں آئی“

“اچھا اا اا اا ا“

“ یہ گاڑی نے آنا ہے یا نہیں؟ “

“ نہیں جی کیوں نہیں آنا۔ میں چیک کرتا ہوں۔ مجھے ذرا اپنا پتہ تو لکھوائیں“

اس دفعہ میں نے یہ بحث غیر ضروری سمجھی کہ اسے بتاوں کہ پتہ دو دفعہ پہلے لکھوایا جا چکا ہے۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر میں نے ایس ایچ او صاحب کو پورا جغرافیہ بھی سمجھایا اور پھر اسی پلازے کی نشانی کا ذکر کیا جو میرے گھر کے قریب تھا

“ تو یہ پلازے والے میوزک کیوں بجا رہےہیں؟ ” ایس ایچ او نے پتہ سمجھتے ہی پہلا سوال داغا

“ بھائی میرے، پلازے والے میوزک نہیں بجا رہے۔ میرے گھر کے پیچھے والے گھر میں میوزک بج رہا ہے“

“ اچھا۔ تو اس کا پتہ لکھوا دیں“

“ اس کا پتہ مجھے نہیں معلوم۔ لیکن میرے گھر سے وہ گھر نظر آتا ہے۔ آپ گاڑی میری طرف بھجوائیں۔ یہاں سے آگے میں انہیں سمجھا دوں گا“ اس سے پہلے کہ وہی منحوس گفتگو دوبارہ شروع ہوتی، میں نے پوری رام کتھا سمیٹنا مناسب سمجھا

“ ہاں۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔ بس جی گاڑی پہنچتی ہے آپ کی طرف۔ فون آن رکھیے گا“

“ جی۔ فون آن ہے میرا“

فون بند کر کے میں نے اطمینان سے ایک طرف رکھا اور انتظار کرنے لگا۔ اس دفعہ انتظار دو گھنٹے کا تھا۔ ٹھیک پونے تین بجے میوزک بند ہو گیا کیونکہ تقریب ختم ہو گئی تھی۔ ہم سب اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو گئے۔

آج ایک ہفتہ گذر گیا ہے۔ گاڑی ابھی تک نہیں پہنچی ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad