ملکہ رانی کی شان میں گستاخی۔ پروفیسرصاحب جیل میں!!


 ہمارے معاشرتی زوال کی ایک داستان رقم ہوئی ہے سرگودھا کے کالج میں۔ وہاں کی ایک عدد ملکہ عالیہ (اسسٹنٹ کمشنر) محترمہ عفت النساءصاحبہ انٹر کا سینٹر چیک کرنے گورنمنٹ بوائز کالج کوٹ مومن تشریف لے گئیں۔ اب بھلا اتنی بڑی آفیسر کہیں جائیں اور افراتفری نہ مچے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ملکہ عالیہ نے اپنی افسری دیکھانے کا فیصلہ کیا، پرنسپل کی کرسی پر قبضہ جمایا اور شاہی حکم سنایا کہ حاضری رجسٹر چیک کرایا جائے۔ وہاں صحافت کے ایک استاد محترم پروفیسر اظہر شاہ نے عرض گزاری کہ محترمہ، پرنسپل کی کرسی پر براجمان ہونا اور اساتذہ کی حاضری چیک کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا کہ ملک کے شاہی خاندان (بیوروکریسی) سے تعلق رکھنے والی سترہویں گریڈ کی آفیسر جلال میں آگئیں اور فرمان جاری ہوا کہ ” پرنسپل اور پروفیسر میرے تلوے چاٹتے ہیں “۔

ایسا کوئی کسی ریاست کی ملکہ عالیہ ہی ارشاد فرما سکتی ہے کہ رعایا کے ” کمی کمین“اس کے تلوے چاٹتے ہیں۔ محترمہ عفت النساءصاحبہ نے اس ”گستاخ پروفیسر“ کو زندان میں ڈالنے کا حکم جاری کیا۔ ان کے خاوند حضور ماضی میں پولیس ڈپارٹمنٹ میں ملازم رہے ہیں۔ گویا سسرال کے سابق محکمے نے بھی فوری حکم کی بجاآوری کی اور ”دہشت گرد، مجرم اور گستاخ “ پروفیسرکو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ سرگودھا کی ائیر فورس تو دنیا بھر میں اپنی پھرتی میں مشہور ہے لیکن آج سے وہاں کی پولیس نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ اتنی پھرتی سے ”مجرم “ گرفتار ہوا۔ پروفیسر اظہر شاہ کی گرفتاری ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک تمانچہ ہے۔ جی ہاں۔ حقیقت میں ہماری قوم اپنے استادوں کو یہی عزت دیتی ہے۔

دنیا بھر میں روایت تو یہی ہے کہ استاد کو ”باپ“ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ کیا بڑا آفیسر ہونے سے ”باپ “ کی عزت سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ مانا کہ بیوروکریسی ملک کے شاہی خاندان کا حصہ ہے، انہیں حق دیا گیا ہے کہ وہ جیسے چاہیں جتنا چاہیں ذلیل کریں لیکن ذرا تصور کریں کہ کوئی اپنے ”باپ “ کے درجے پر فائز شخصیت سے بھی ایسا کر سکتا ہے۔ ہمارا ہاں کا المیہ تو یہی ہے کہ چھوٹے افسر بڑے افسران کی خوشامد کرتے، جھڑکیں سنتے اور غلامی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، جب انہی چھوٹے افسروں کا پالا عوام یا ماتحتوں سے پڑتا ہے تو اپنا غصہ خوب نکالتے ہیں، افسری جماتے ہیں اور لوگوں کو احساس دلاتے ہیں کہ وہی حکمران ہیں اور باقی سب غلام۔ کاش سرگودھا کی اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ اپنا یہ رعب و دبدبہ اپنے سے بڑے کسی آفیسر کے سامنے دیکھانے کی جرات کر سکیں۔

ہمارے یہ آفیسر جو اساتذہ اور دیگر محکموں کے ملازمین پر اپنا رعب جما کر خود کو آفیسر ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں کبھی کسی سیاستدان کی حکم عدولی کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں، وہاں تو ان کی اونچی آواز بھی نہیں نکلتی۔ پروفیسر اظہر شیرازی واقعی مجرم ہیں کہ انہوں نے ایک غلام طبقے میں ہوتے ہوئے بولنے کی جرات کی ہے۔ انہیں چند گھنٹوں کی بجائے کم سے کم اتنی دیر ضرور جیل میں رکھنا چاہیے تھا جب تک انہیں یقین نہ ہوجاتا کہ ان کا تعلق غلاموں سے ہے۔ بھلا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی پروفیسر پنجرے میں قید رہ کر ذرا اونچی آواز میں بات کرنے کی جرات کرے۔ پروفیسر بیچارے غلام ہی تو ہوتے ہیں۔ ڈینگی ڈھونڈنا یا مارنا ہوتو یہ پروفیسر حاضر ملتے ہیں اور وہ بھی ہر اتوار کے دن، الیکشن ڈیوٹی پر تین دن کی خواریبھی انہی کے کھاتے میں آتی ہے۔ حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو گریڈ تو دیتی ہے لیکن ساتھ ساتھ ان کو ”اوقات“ بھی یاد دلاتی رہتی ہے۔ اگر آپ نے کبھی اس کا تجربہ کرنا ہوتو پنجاب سول سیکرٹریٹ چلے جائیں وہاں انیس، بیس گریڈ کے معزز پروفیسر صاحبان گردن جھکائے نئے نئے افسر بنے کسی سیکشن آفیسر کی جھڑکیاں سنتے اور ترلے منتیں کرتے ملیں گے جبکہ سترہ، اٹھارہ گریڈ کے پروفیسروں کو تو وہاں کے نائب قاصد وغیرہ ہی جھاڑ پلا کر کسی بھی صاحب کے کمرے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ پروفیسر اظہر شیرازی کو کیا پتہ تھا کہ ان کا تعلق ایسے طبقے سے ہے جسے ملک میں صرف اتنی ہی عزت دی جاتی ہے جو کہ اچھالنے کے کام آ سکے۔ میری دعا ہے کہ اللہ اس معزز پروفیسر کو اتنے بڑے جرم کے بعد بڑوں کے عتاب سے محفوظ رکھے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).