کیا تصوف سے مذہبی انتہاپسندی کی روک تھام ممکن ہے؟


بلاشبہ تصوف کی روایت ہزاروں برس قدیم ہے اور تصوف کی بے شمار صورتیں ہر مذہب کی روایت پسندی کے مدِ مقابل ہوتی رہی ہیں۔ اگر تصوف کی ذیلی صورتوں٬ طریقوں اور تاریخی پس منظر کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہر دور میں مذہبی انتہاپسندی کے سماج میں عام ہونے کو روکنے میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب جب ریاست اور مذہبی پیشواؤں نے اپنے مفادات باہمی طور پر ہم آہنگ اور مشروط کیے تب مذہب کے نام پر معاشروں کو تاریکیوں میں دھکیلا گیا ہے اور تصوف بھی وقتی طور پر کوئی بڑی متحرک قوت بن کر سامنے نہیں آ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ جنید بغدادی٬ بی بی رابعہ بصری٬ منصور حلاج٬ شمس تبریز اور برِصغیر میں سرمد اور شاہ عنایت شہید تک باغیانہ صوفی عتاب کا شکار رہے ہیں۔ ہزاروں برس گزرنے کے باوجود آج بھی تصوف نے اپنی اہمیت٬ تخیل کی خوبصورتی، انسان دوست اور فطرت پسند جوہر نہیں کھویا اور اسی وجہ سے وہ اکیسویں صدی میں بھی ایک فکری رجحان اور احساساتی لہر کے طور پر مختلف صورتوں میں موجود ہے۔

اگرچہ سندھ میں تصوف کی روایت گذشتہ ایک ہزار برس سے بھی زیادہ عرصہ سے کبھی بھی متروک نہیں ہوئی تھی لیکن گذشتہ صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین کے زوال کے نتیجے میں مجموعی طور عالمی کمیونسٹ تحریک کے کمزور ہونے کے باعث سندھ میں تصوف کا رجحان زیادہ تیزی سے پروان چڑھتے ہوئے نظر آیا ہے۔ بیشتر لوگوں اور سابق ترقی پسندوں نے تاریخ میں نظریات سے انکار کرکے محض تصوف میں پناہ لینے کو ہی سب کجھ سمجھا ہے۔ درحقیقت وہ ان کا فرار تھا اور اپنے ہمعصر دور کے تلخ اور ناپسندیدہ حقائق کی معروضیت کو سمجھنے اور نئے حالات میں اپنا کردار متعین کرنے سے انکار تھا۔ کیوں کہ تصوف احساس٬ خیالات٬ کیفیت خواہ فطرت پسندی کا ایک خوبصورت داخلی مظہر تو ہو سکتا ہے لیکن وہ طبقاتی ریاست٬ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام٬ معاشی غیرمساوات اور حالات کے جبر کا جواب یا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی تصوف نے کبھی اس کا دعویٰ کیا ہے۔ تصوف کا سفر فرد کی داخلیت سے شروع ہوکر فرد کی داخلیت پر ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب عوام دشمن ریاستوں اور طبقاتی یا عقیدہ پرست معاشروں کی بے رحمیوں کا سدِباب ظاہر ہے کہ تصوف یکسر نہیں کر سکتا۔ تصوف کے ذریعے ایک فرد معاشرے سے قطع نظر ہوکر اپنا داخلی سکون تو حاصل کر سکتا ہے لیکن وہ معاشرے کو مجموعی طور پر استحصالی نظام کی دلدل سے نہیں نکال سکتا۔ کیوں کہ اس کے محرکات معروضی٬ خارجی٬ معاشی٬ سماجی ٬ سیاسی اور تاریخی ہوتے ہیں۔ جب کہ تصوف ایک داخلی مظہر ہے۔

حالیہ گذشتہ عرصے میں سندھی سماج کے اندر تصوف کی ایک لہر زیادہ تحرک کے ساتھ سامنے آئی ہے٬ جس سے بیک وقت مثبت اور منفی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ مثبت ان معنوں میں کہ نوجوان نسل اس ثقافتی تحرک کی وجہ سے مذہبی انتہاپسندی کی بجائے تصوف کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ یہ بھی ایک مثبت پہلو ہے کہ نوجوان نسل اس کے ذریعے اپنی کلاسیکی شاعری٬ موسیقی٬ لوک دانش اور تصوف کے انسان دوست جوہر کے قریب ہو رہا ہے۔ دوسری جانب منفی اس معنیٰ میں کہ سماج کے اندر موجود اور ظاہر ہونے والے کثیرالجہت بحرانوں اور تضادات کا حل صرف تصوف یا داخلیت اور کلاسیکل موسیقی کو سمجھنا خود فریبی ہے۔ تصوف اپنی بے شمار خوبصورتیوں کے باوجود نہ تو ماضی میں ریاست اور سماجی بحران کے تضاد کو حل کرنے میں کوئی بنیادی کردار ادا کر پایا تھا اور نہ ہی اب کر سکتا ہے۔ کیوں کہ تصوف کا سفر داخلی ہے جب کہ سماج کا سفر خارجی محرکات پر مبنی ہے۔

اس ضمن میں ایک اور منفی روایت بھی سامنے آ رہی ہے کہ تصوف کچھ حلقوں میں بطور ایک فیشن بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ نہ صرف تصوف جیسی گہری روایت کے ساتھ سنگین مذاق ہے بلکہ اس سے تصوف کے نام پر سطحی روحانیت کا رجحان بھی عام ہو رہا ہے۔ کوئی بھی شخص گیروا لباس زیب تن کرنے یا گلے میں گیروا مفلر ڈالنے سے نہ تو صوفی بن سکتا ہے اور نہ ہی ایسے افراد کا تصوف کی نفیس روایت سے دور کا بھی کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔ جو چیز محض فیشن کے طور پر سامنے آئے گی وہ کبھی بھی محض دکھاوے اور سطحیت سے بچ نہیں پائے گی۔ سماج کے محرکات اور معروضی حقائق سے کوسوں دور بطور ایک فیشن انقلابی نعرے عام ہوں یا نظریات اور یہاں تک کہ تصوف بھی٬ وہ سماج کو مطلوبہ حاصلات نہیں دے سکتے۔ اسی طرح سندھ میں تصوف کی حَسین روایت کو کھوکھلے فیشن بننے سے بچانا بھی بہت ضروری ہے۔

اس وقت مذہبی انتہاپسندی کو نظر میں رکھتے ہوئے تصوف کے حوالے سے سماج دو غلط اور غیرمتوازن رجحانات کا شکار ہو رہا ہے اور ان دونوں رجحانات کی مطلوبہ چھان بین کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ دونوں رجحانات ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ پہلا رجحان یہ ہے کہ سندھ میں مذہبی انتہاپسندی کو صرف تصوف اور صوفیانہ تحرک سے روکا یا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ سوچ کا یہ انداز غیرمنطقی اور حقائق سے دور ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کا اُبھار تو مقامی سماج میں ہوتا ہے لیکن یہ ایک عالمگیر لہر ہے٬ جس پر سامراجی قوتوں نے اربوں ڈالرز خرچ کیے ہیں۔ اس کا تعلق تہذیبی زوال سے بھی ہے٬ جس میں سے ہندو٬ یہودی٬ عیسائی اور مسلمان سماج گذرے ہیں اور آج بھی گذر رہے ہیں اور یہ بھی ایک یک طرفہ پروپیگنڈہ ہے کہ مذہبی انتہاپسندی عالمی سطح پر صرف مسلمان معاشروں میں ہے۔ مذہبی انتہاپسندی تمام مذہبی معاشروں میں موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے تاریخی اسباب و محرکات کی وجہ سے یہ مسلمان معاشروں میں زیادہ ہے۔ کیوں کہ مسلم معاشرے مکمل طور پر علم٬ سائنس٬ آزاد سوچ اور تنقیدی شعور سے کٹ کر تہذیبی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں مذہبی انتہاپسندی میں تیزی ضیاالحق کے دور میں آئی۔ یقیناً تصوف کے انسان دوست اور فطرت پسند جمالیاتی جوہر کو آج بھی سماج میں ایک اہم اور مثبت محرک کے طور پر عوام کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سمجھنا خام خیالی ہوگی کہ یہ عالمی اور مقامی لہر صرف تصوف٬ صوفیانہ پیغام یا موسیقی سے ختم ہو جائے گی ۔ تصوف اس ہمہ گیر جنگ میں ایک عنصر تو ہو سکتا ہے لیکن تصوف کے ذریعے یکسر یہ جنگ لڑنا ہرگز ممکن نہیں۔ کیوں کہ اس میں عالمی مفادات٬ ریاست کا جانبدارانہ اور جابرانہ کردار٬ معاشرے کی علم٬ سائنس اور تنقیدی شعور سے دوری٬ سخت غربت٬ لاوارثی اور عوام میں شدید مایوسی کے عناصر بھی شامل ہیں۔ ان کے لیے الگ الگ حکمت عملیوں اور شعبوں یا عناصر کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے دوسرا بڑھتا ہوا غلط رجحان یہ ہے کہ سطحی روشن خیالی کے حامل افراد یا گروہ سمجھتے ہیں کہ تصوف کا اب کوئی کردار نہیں رہا٬ یہاں تک کہ کئی لوگ تو اسے بھی ایک منفی روایت سمجھتے ہیں۔ درحقیقت یہ بھی حقائق اور تاریخیت سے ایک کٹا ہوا اور غلط تصور ہے۔ یہ تصوف کی عظیم روایت ہی تھی جس نے ہر دور میں اور ہر مذہب کی تنگ نظر٬ مفاد پرست اور عوام دشمن مُلائیت سے بھرپور مزاحمت کی۔ ایسا نہیں ہوتا تو حلاج اور تبریز جیسے عظیم انسانوں اور صوفیوں پر زندگی حرام نہ ہوتی۔ تصوف نے نہ صرف انسان اور خدا کے درمیاں حَسین رشتہ قائم کرنے کی بات کی بلکہ وحدت الوجود کی صورت میں انسانی محبت اور انسانی جوہر کو پوری فطرت اور کائنات سے جوڑ دیا۔ صوفی کا کیف کائنات کے کُل سے انسان کے جز کو اس طرح سے جوڑ دیتا ہے کہ دونوں میں کوئی حدِ فاصل نہیں رہتی اور یہ کیف منصور کا ‘‘اناالحق’’ ہوجاتا ہے۔ اناالحق کوئی خالی نعرہ نہیں٬ کیف اور سرمستی کی وہ معراج ہے٬ جہاں پر انسان کا وجدان کائنات گیر ہو جاتا ہے۔ ہمارے جو دوست روشن خیالی کے نام پر تصوف کو غیراہم سمجھتے ہیں٬ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جس سماج میں عوام کی اکثریت تعلیم سے محروم ہو٬ سائنس سے دور ہو٬ جہاں مذہب کے انسان دوست جوہر کو ختم کرکے اس کے آڑ میں مذہبی انتہاپسندی کو بڑھایا جا رہا ہو٬ وہاں آج بھی لوگوں کی اکثریت کو تصوف کے ذریعے انسان دوستی کا درس دینا آسان ہے۔ کچھ خاص معنوں میں تصوف خود روشن خیالی کی ایک شکل ہے۔ جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑا پُراثر کردار ادا کیا ہے اور آج بھی ہمارے جیسے سماجوں میں اس کا کردار متروک اور خارج المعیاد نہیں ہوا ہے۔

اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ سندھ اور پورے ملک میں مذہبی انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے سماج کو کثیرالطرفی اور کثیرالشعباتی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے تصوف ایک اہم عنصر کے طور پر کردار ادا کر سکتا ہے لیکن مجموعی اور کثیرالجہتی طور پر نہیں۔ دوسری بات کہ ہمارے ہاں تصوف یا تو شاعری کی صورت میں موجود ہے یا پھر مختلف صوفی سلاسل کی صورت میں لیکن تصوف پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس کی علمی اور فکری چھان بین بہت کم ہوئی ہے۔ اگر سندھ اور پورے ملک میں اس موضوع پر علمی٬ فکری اور تحقیقی کام ہو گا تو یقیناً تصوف کے بارے میں غیرمتوازن رویوں یا اس کے پروان چڑھتے سطحی فیشن کی طرف راغب ہونے کی بجائے لوگ اور بالخصوص نوجوان اس کے حقیقی جوہر اور اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور تصوف کی آڑ میں سماج میں ناجائز مفاد حاصل کرنے والے عناصر کا بھی پردہ چاک ہو جائے گا۔ میرے خیال میں سندھو تہذیب میں تصوف کی قدیم٬ کلاسیکل اور نفیس روایت کو جدید دور کی فکری ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس طریقے سے ہی تصوف سماج میں مذہبی انتہاپسندی کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

جامی چانڈیو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جامی چانڈیو

جامی چانڈیو پاکستان کے نامور ترقی پسند ادیب اور اسکالر ہیں۔ وہ ایک مہمان استاد کے طور پر ملک کے مختلف اداروں میں پڑھاتے ہیں اور ان کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے۔ Jami8195@gmail.com chandiojami@twitter.com

jami-chandio has 8 posts and counting.See all posts by jami-chandio