فوج کے ساتھ مفاہمت کےلئے حکومت کی اہم پیشرفت


بی بی سی نے اطلاع دی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپریل کے آخر میں بھارتی صنعتکار سجن جندال اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کے بارے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اعتماد میں لیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ یہ ملاقات بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ تھی۔ یہ خبر ڈان لیکس کے معاملہ پر حکومت اور فوج میں مفاہمت کے بعد سامنے آئی ہے۔ ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کےلئے وزیراعظم ہاؤس نے 29 اپریل کو اعلامیہ جاری کیا تھا جسے اسی روز آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے درشت انداز میں مسترد کر دیا تھا۔ نواز شریف کی جندال سے ملاقات سے ایک روز پہلے یعنی 28 اپریل کو ہوئی تھی، اس لئے بہت سے مبصر ڈان لیکس کے سوال پر فوج کے ردعمل کو دراصل اس ملاقات پر برہمی سے تعبیر کر رہے تھے۔ وزیراعظم ہاؤس یا وزارت خارجہ نے اس ملاقات کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ البتہ مریم نواز نے ایک ٹویٹ پیغام میں اس حوالے سے سنسنی پیدا کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف اور سجن جندال پرانے دوست ہیں۔ یہ دو دوستوں کے درمیان ملاقات تھی۔ اسی دوران پاکستان میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت کے اعلان کے بعد بھارت کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور اسے ’’بھارت کا بیٹا‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے بچانے کےلئے کسی بھی حد تک جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس تناظر میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سجن جندال بھارتی وزیراعظم کی طرف سے کلبھوشن کےلئے رعایت لینے نواز شریف سے ملنے آئے تھے۔

اب وزیراعظم کے قریبی حلقے یہ واضح کر رہے ہیں کہ نواز شریف اور سجن جندال کی ملاقات میں کلبھوشن یادیو کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔ بلکہ سجن جندال وزیراعطم نریندر مودی کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی ختم کروانے کی کوششیں کرنے اور معاملات آگے بڑھانے کےلئے نواز شریف سے ملاقات کرنے پاکستان آئے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی یہی پیغام دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے فوج میں اس ملاقات کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش کو کم کرنے کےلئے وزیراعظم سے حاصل شدہ معلومات اپنے ساتھیوں تک پہنچائی ہیں۔ اس طرح وزیراعظم کی وضاحت کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ فوج بھی مطمئن ہو گئی ہوگی۔ فوج کلبھوشن یادیو کے مسئلہ پر کسی مفاہمت کے موڈ میں نہیں ہے۔ بھارت کی طرف سے اسے بچانے کےلئے ہر ممکن کوشش کا اعلان سامنے آنے کے بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ قومی سلامتی کے معاملہ پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اس بیان سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ فوج ملک کے خلاف سازش کرنے والے بھارتی ایجنٹ کو اس کے انجام تک پہنچانا چاہتی ہے اور اس حوالے سے کوئی عالمی دباؤ یا حکومت کی مجبوری کو خاطر میں نہیں لانا چاہتی۔ اس لئے حکومت کی وضاحت سامنے آنے کے بعد فوج اور سول حکومت کے درمیان اعتماد میں اضافہ ہوگا کہ وزیراعظم نے جندال سے کلبھوشن کے معاملہ پر بات نہیں کی اور نہ ہی جندال اس حوالے سے کوئی درخواست لے کر پاکستان آئے تھے۔

یہ موقف وزیراعظم کے حوالے سے ان کے بااعتماد ساتھیوں نے میڈیا تک پہنچایا ہے۔ تاہم ماضی میں ایسے حساس معاملات پر فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان تعلقات میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں فوج ناراضگی کا اظہار بھی کرتی رہی ہے۔ اور تعلقات میں خلیج بھی حائل ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں ایسا پہلا موقع سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی رہائی اور بیرون ملک روانگی سے متعلق تھا۔ وزیراعظم نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو یقین دلایا تھا کہ حکومت اس سلسلہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی۔ جنرل راحیل شریف نے یہ بات اپنے کور کمانڈرز کو بتائی تاہم بعد میں حکومت کی طرف سے پیچیدگیاں سامنے آنے کی وجہ سے فوجی قیادت کو احساس ہوا کہ ان سے کئے گئے وعدوں کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ پرویز مشرف تو چند ماہ بعد ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو گئے لیکن وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اختلافات کا آغاز ہوگیا۔ یہی اختلاف بعد میں ڈان لیکس کی صورت میں شکایت اور فوج کے احتجاج پر منتج ہوا۔ فوج نے 6 اکتوبر 2016 کو روزنامہ ڈان میں آئی ایس آئی کے سربراہ کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ایک ملاقات کے حوالے سے رپورٹ شائع کی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ سول حکومت انتہا پسند گروہوں کے بارے میں آئی ایس آئی کی حکمت عملی سے متفق نہیں ہے اور اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ خبر اگر اس ایک ملاقات کا حوالہ دیئے بغیر سامنے آتی تو شاید فوج کو اعتراض کرنے کا موقع نہ ملتا۔ کیونکہ یہ بات بہرحال اس ملک میں کوئی راز نہیں ہے کہ انتہا پسند گروہوں کے حوالے سے فوجی ادارے جس حکمت عملی پر کاربند ہیں، وہ حکومت کی اعلان شدہ سکیورٹی اور خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ حکومت کے اعلانات اور اقدامات میں بعض انتہا پسند عناصر کے حوالے سے تضاد اظہر من الشمس ہے۔ لیکن حکومت کے نمائندے اس پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تاکہ فوج کو مشتعل نہ کیا جائے۔ روزنامہ ڈان کی رپورٹ میں اسی اختلاف اور فوجی اداروں کی بعض پالیسیوں پر تشویش کو خبر کی صورت میں شائع کیا گیا تھا۔ اس لئے اخبار کے ایڈیٹر یقین سے کہتے رہے ہیں کہ انہیں اپنی خبر کی سچائی پر یقین ہے۔ البتہ اس رپورٹ میں چونکہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک خاص اجلاس کا حوالہ موجود تھا، اس لئے فوج کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ جب وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی باتیں بھی باہر آ سکتی ہیں تو حکومت پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ یہ معاملہ اس حد تک پیچیدہ اور مشکل ہو گیا کہ حکومت کو تحقیقاتی کمیٹی مقرر کرنا پڑی اور نواز شریف کو اپنے دو قریبی ساتھیوں کی قربانی بھی دینا پڑی۔ اس کے باوجود 29 اپریل کے ٹویٹ میں آئی ایس پی آر نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دے کر مسترد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

فوجی ترجمان کے ٹویٹ کے غیر پارلیمانی اور درشت الفاظ کی وجہ سے بھی حکومت کو فوج سے دوٹوک بات کرنے اور اس کی زیادتی کی نشاندہی کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اگرچہ 29 اپریل کو جاری ہونے والے اعلامیہ کے کے علاوہ کوئی حکم جاری نہیں کیا لیکن فوج نے نہ صرف ٹویٹ واپس لے لیا بلکہ ڈان لیکس پر معاملہ طے ہونے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اب نواز شریف جندال ملاقات کے حوالے سے وزیراعظم کی وضاحت کو قبول کرتے ہوئے سول ملٹری تعلقات میں حائل دوریوں کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ خوش آئند خبر ہے۔ لیکن یہ اندیشہ موجود ہے کہ اگر اس حوالے سے وزیراعظم کی طرف سے نامکمل یا غیر واضح معلومات فراہم کی گئی ہیں تو یہ مسئلہ بھی فوج کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ وزیراعظم پاناما کیس پر بننے والی جے آئی ٹی کے حوالے سے سیاسی اور قانونی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس جے آئی ٹی کو 2 ماہ کے اندر رپورٹ سامنے لانے کا حکم دیا ہے۔ اس رپورٹ میں اگر نواز شریف کے مالی معاملات واضح نہیں ہوتے تو سپریم کورٹ وزیراعظم کی نااہلی کی سفارش کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔

نواز شریف فطری طور پر اپنی ساری توجہ اس معاملہ پر مبذول رکھنا چاہتے ہیں تاکہ جے آئی ٹی کو مناسب معلومات فراہم کرکے مطمئن کیا جا سکے۔ ایسے میں انہیں فوج کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ وہ اس مقصد میں کسی حد تک کامیابی دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali