رمضان آرڈیننس اور زمین زادے


 احترام رمضان آرڈیننس جو 1981 میں سامنے آیا، گذشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس میں ترمیم متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ اب جو بھی روزے کے ٹائم میں کھاتا پیتا یا سگریٹ نوشی کرتا پایا گیا اسے پانچ سو روپے جرمانہ اور تین ماہ قید کی سزا دی جا سکے گی۔ ہوٹل مالکان کو پانچ سو کی بجائے پچیس ہزار کا جرمانہ دینا ہو گا۔ بلاشبہ اس وقت یہ ہمارے ملک کا اہم ترین مسئلہ تھا جس پر سینیٹر حمد اللہ اور سینیٹر چوہدری تنویر حسین نے مناسب کارروائی کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو خوش خبری دی۔ یہ اہم ترین ایشو قبل از رمضان طے پا جانا اس امر کی علامت ہے کہ صاحبان اقتدار دین و دنیا میں توازن کے لیے ایک شفاف ترین اپروچ رکھتے ہیں جو یقیناً قابل ستائش ہے۔

رمضان شروع ہوتا ہے تو دن رات کی رونقیں لگ جاتی ہیں۔ شروع کے چار پانچ روزے گزار کر لڑکیاں عید کی تیاری اور لڑکے راتوں کو فلڈ لائٹ کرکٹ یا کسی اور کھیل میں لگ جاتے ہیں۔ سحری تک اکثر گھروں میں رت جگا چلتا ہے۔ ڈٹ کے سحری کرنے کے بعد قوم سوتی ہے اور صبح حسب مصروفیت اٹھا جاتا ہے۔ دوپہر کے بعد پھر افطاری کے معاملات شروع ہو جاتے ہیں۔ شربت، پکوڑے، فروٹ چاٹ، آلو کے چپس، دہی بڑے اور بیسیوں دیگر لوازمات تیار کیے جاتے ہیں۔ اس سب سے فارغ ہو کر تراویح کے لیے دوڑ لگتی ہے اور اس کے بعد وہی فلڈ لائٹ اور باقی سارا چکر، تیس دن یونہی پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں لیکن صرف ان کے جو یہ سب افورڈ کرتے ہیں، خدا نے ان کو اتنا بخشا ہے کہ وہ سکون سے یہ سب کھانا پینا کر سکتے ہیں اور عید بھی ان کے لیے خرچے کا نام نہیں ہے۔

ایک عام مزدور سے پوچھیے جو روز صبح دیہاڑی کے چکر میں چوک پر کھڑا ہوتا ہے، کیوں میاں روزہ رکھا ہے، وہ جو بھی جواب دے اسے اپنے تک رکھیے اور جان لیجیے کہ استطاعت وہ نعمت ہے جو بخشن ہار اپنے پسندیدہ لوگوں کو عطا کرتا ہے۔ جس شخص نے دیہاڑی طے کر کے چونا سفیدی کرنے جانا ہے، وہ روزہ کیسے رکھ سکتا ہے؟ لاکھ منہ سر لپیٹے، چونا سانس کے ذریعے اندر جائے گا۔ باہر کی دیوار پینٹ کرتے ہوئے اس گرمی کے موسم میں پانی نہ پئیے تو دھڑ کر کے سیڑھی سے زمین پر آ گرے گا، اگر پانی پیتا ہے تو کھٹ سے تین ماہ کو سرکاری مہمان قرار پائے گا۔ ریڑھی لگانے والے جو بے چارے سبزی پھل بیچتے ہیں، کہاں تک ایسے ہی تپتی دھوپ میں چلتے جائیں گے، باہر نہ نکلیں تو کمائیں کہاں سے اور کمانے نکلیں تو لٹانے کا ڈر زیادہ ہو گا۔ عید کے نزدیک تو ٹریفک پولیس تک چالان ڈبل کر دیتی ہے، عام پولیس سے کس بھلائی کی توقع ہے؟ اسی طرح پرائیویٹ سکولوں کے وہ استاد یا استانیاں جنہیں دن میں چھ چھ کلاسیں پڑھانی ہیں، وہ جذبہ ایمانی کے تحت روزہ تو رکھ سکتے ہیں لیکن اگر ہفتے میں ایک دو دن قضا کرنا چاہیں تو اس کے راستے بھی مسدود کر دئیے گئے ہیں۔

مسیحی بھائی ایک طرح سے ستر روزے رکھتے ہیں۔ چالیس ان کے اور تیس ہمارے، وہ غیر مسلم اسی لیے کہلاتے ہیں کیوں کہ وہ ہمارے عقائد سے اتفاق نہیں کرتے، جیسے ہم نان کرسچن ہوئے، لیکن وہ ان رسوم کا احترام کرتے ہیں اور برابر کرتے ہیں۔ اس قانون کی توثیق سے پہلے بھی کوئی مسیحی کبھی سرعام رمضان میں کھاتا پیتا نظر نہیں آتا تھا، اب بھی نہیں آئے گا لیکن اب یہ ان پر ریاست کی طرف سے لاگو ہو گا جو آئین کی بہت سی دفعات سے متصادم ہے۔ ایک پاکستانی شہری قطع نظر اپنے مذہب کے اتنا ہی معزز ہے جتنا کوئی بھی دوسرا ہو سکتا ہے، تو یہ قانون کیا اس کی شہری آزادی یا مذہبی آزادی کی حد بندی نہیں کر رہا؟ فرض کیجیے آج امریکہ میں ٹرمپ یہ قانون بنا دے کہ ہمارے چالیس روزے پوری پچاس ریاستوں پر فرض ہیں اور ان کے احترام میں کوئی بھی غیر مذہب والا سرعام کھاتا پیتا نظر آیا تو اسے تین ماہ قید ہو گی، تب ہم پاکستانیوں کا ری ایکشن کیا ہو گا؟

یہی معاملہ ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کا ہے، سب اپنے اپنے مخصوص ایام میں روزے رکھے جاتے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ بہرحال تعداد میں کم ہیں اور جتنے ہیں وہ ان معاملات میں بولنے کے بجائے دوسرے حل طلب مسائل کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔

مسافروں کو بھی روزے میں رعایت میسر ہے، بیماروں کو ہے، کئی عمر رسیدہ افراد ہیں جو نہیں رکھ سکتے تو یہ سب کہاں سے کھائیں گے؟ ایک شریف آدمی جو اپنی پینشن لینے گیا ہے، واپسی میں سر پہ گیلا رومال رکھے چلا آ رہا ہے، ایک دم چکرا کے گرتا ہے اور پھر کبھی نہیں اٹھتا تو یہ شہادت کس نے اسے عطا کی؟ کئی لوگوں کو بڑھاپے میں اولاد چھوڑ جاتی ہے، بہیتروں کے بچے ہوتے ہی نہیں، وہ بھی غریب انہیں ہوٹلوں سے کھاتے ہیں، وہ کہاں جائیں گے؟ دن میں کتنی مرتبہ شوگر یا بلڈ پریشر کی دوا خالی پیٹ لینے سے پہلے آپ کو یاد کریں گے؟

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ احترام رمضان قانون ان پر لاگو ہو گا جو دکھائی دیں گے، جن کا رشتہ زمین سے جڑا ہو گا، جو یا پیدل چلتے ہوئے، یا سائیکل پر، یا موٹر سائیکل پر سوار کچھ بھی ایسا کریں گے اور دکھائی دیں گے تو پکڑ میں آئیں گے۔ کچھ عجب نہیں کہ اس بار روزہ نہ رکھنے والوں کی بھی ماب لنچنگ ہو کیوں کہ اس کی راہ تو بظاہر ہموار ہے۔ پولیس کیا انصاف دے سکتی ہے جو ایک روزے دار دے گا۔ زمین زادے احترام کرنے والوں کے ہاتھ مارے جائیں گے اور جو کالے شیشے والی گاڑیوں سے ڈائریکٹ اپنے گھر کے پورچ میں اترتے ہیں، ظاہری بات ہے انہیں دیکھے گا کون اور جو دیکھے گا وہ باؤلا تھوڑی ہو گا جو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کرے گا، تو وہ بھلے سگریٹ پئیں، سگار پئیں، مرغ مسلم اڑائیں یا مقطر و مصفا آب طرب انگیز پیتے رہیں ان کو روکنے والا مائی کا لال اس قانون کے بعد بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔

کیا یہ قانون پنج ستارہ ہوٹلوں پر بھی اپلائے ہو گا یا بدستور چھپر ہوٹل اس کی زد میں آتے ہیں؟ اگر نہیں ہو گا تو یہ کیسے اطلاق ہے جو پچاس روپے کے نان چنے پر پچیس ہزار کا جرمانہ کرتا ہے اور پچیس ہزار کے بوفے سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے؟

مذہب خدا اور اس کے بندے کا آپسی معاملہ ہے۔ ریاست اگر مذہبی قوانین کا نفاذ کرتی ہے تو چاہے دس کروڑ میں سے ایک شہری بھی غالب مذہب کا نہ ہو، وہ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے سب کچھ کرے گی، نہیں کرے گی تو اس کی مرضی، کوئی نہ کوئی بختاور بھٹو ہر دور میں موجود ہو گی جو دو لفظوں میں ہی سہی لیکن اپنا اختلاف ریکارڈ پر لائے گی۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain