تین مزاح نگاروں کے مستنصرحسین تارڑ کے نام نامے


 اردو ادب کے تین ناموروں، شفیق الرحمٰن، محمد خالد اختر اور کرنل محمد خاں سے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کا قریبی تعلق رہا، جس کا اظہار،ان خطوط سے بخوبی ہوتا ہے جو اردو مزاح نگاری کی اس تثلیث نے مستنصرکے نام لکھے۔ ان خطوط کا بنیادی وصف وہ بے تکلف طرز بیان ہے، جس کے ذریعے بساط ادب پرنووارد کا حوصلہ بلند کیا جا رہا ہے، دل جوئی ہو رہی ہے، اوراس کے پڑھنے کے لیے کتب تجویز کی جا رہی ہیں۔ سنیئر ادیب بڑے خلوص سے غیر محسوس انداز میں جونیئر کی ادبی تربیت کرتے نظرآتے ہیں۔ اور ساتھ میں ذاتی دکھ درد بھی بانٹا جا رہا ہے۔ تینوں ادیبوں کا مکتوب الیہ پراعتماد بھی بہت ہے، مثلاًایک بار کرنل محمد خاں کو خبر پہنچی ہے کہ مستنصر نے کسی محفل میں ان کا ناملائم الفاظ میں تذکرہ کیا ہے، تو وہ بے ریا شخص اپنے محب سے ناراض تو کیا ہوتا، الٹا لطف لیتا ہے۔ مستنصر کی وضاحت پر وہ کہتے ہیں، اس کی چنداں ضرورت نہیں۔ یاروں کی لگائی بجھائی سے محمد خالد اختر، ان سے روٹھ گئے، حقیقت واضح ہونے پر گِلہ جاتا رہا اور دل مانندِ آئینہ صاف ہوگیا، جس کی غمازی ان خطوط سے ہوتی ہے جو تعلقات ڈھب پرآنے کے بعد لکھے گئے۔ مستنصر کے بارے میں ادبی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو ذرا کم ہی گردانتے ہیں، یہ نامے اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ مستنصر کے خطوط ہمارے سامنے نہیں، مگران کے نام ، خطوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس ارادت اور محبت سے خط لکھتے ہوں گے۔ مستنصرحسین تارڑ نے ان تینوں ادیبوں سے انسپریشن لینے کا ہمیشہ کھلے بندوں اعتراف کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کا پہلاسفرنامہ’’ نکلے تری تلاش میں‘‘ شفیق الرحمٰن کی ’’ برساتی ‘‘سے نکلا ہے۔کرنل محمد خاں کی ’’بجنگ آمد‘‘کو اردو کی بہترین کتابوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ یہ کتاب ایسی ہٹ ہوئی کہ کرنل محمد خاں کی دوسری کتابیں آنے کے باوجود اب تک ان کی پہچان کا مرکزی حوالہ ہے۔ ایک خط میں کرنل محمد خاں بتاتے ہیں ’’ویسے آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’’بسلامت روی‘‘ کی بنیادی کمزوری ’’بجنگ آمد‘‘ ہے۔‘‘بقول شخصے، ’’ بجنگ آمد‘‘ کے بعد کرنل محمد خان کے چاہنے والے اس قدربڑھ گئے کہ ان کی تعداد کم کرنے کے لیے انھیں ’’بسلامت روی ‘‘لکھنی پڑی۔

محمد خالد اختر کی تحریروں کے بھی وہ پرشوق قاری رہے۔ محمد خالد اختر بھی مستنصر کی تحریروں کے بارے میں اونچی رائے رکھتے تھے، جس کا اظہار خطوں سے بھی ہوتا ہے اور ان تبصروں سے بھی، جوانھوں نے مستنصر کی کتابوں پرکئے۔

شفیق الرحمٰن ، کرنل محمد خان اور محمد خالد اختر کے مکتوبات پر مشتمل اس کتاب ’’خطوط‘‘ میں ان تینوں لکھاریوں کے بارے میں الگ سے لکھا مستنصر حسین تارڑ کا خاکہ بھی شامل ہے ،جس سے پتا چلتا ہے کہ شگفتہ تحریروں سے مسکراہٹیں بکھیرنے والے ان ادیبوں کی اپنی زندگی رنج ومِحن سے پُر رہی ، جس کی بنیاد پر مستنصرنے انھیں ’’ تین بدنصیب دیوتا‘‘ قرار دیا ہے۔

مستنصر حسین تارڑ کے نزدیک ،ان ادیبوں کا مقام و مرتبہ کیا ہے، اسے جاننے کے لیے یہ اقتباس کافی ہے۔

’’دانشور اور انگریزی صحافت کے ستونوں میں سے ایک مولوی محمد سعید۔ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ان مولوی صاحب نے شہر لاہور کی قدامت اور تخلیقی مزاج کے حوالے سے ایک یادگار کتاب تحریر کی اور مجھے فخر ہے کہ انھوں نے خصوصی طور پر اس کی ایک جلد اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے بھی عطا کی تو اُس کا انتساب شاید کچھ یوں تھا کہ’ مجھے فخر ہے کہ میں تب لاہور میں تھا جب مشرق کا سب سے بڑا شاعر اقبال، مشرق کا سحر بیاں مقرر عطا اللہ شاہ بخاری اور دنیا کا سب سے بڑا پہلوان گاما بھی لاہور میں مقیم تھے۔ اگر میں بھی گزر چکے زمانوں کی کوئی داستان قلم بند کروں تو اُس کا انتساب یقیناًکچھ یوں ہوگا کہ مجھے فخر ہے کہ میں اْن زمانوں میں سانس لیتا تھا جب اردو ادب میں شگفتہ نگاری اور رومان کے سب سے بڑے تخلیق کار شفیق الرحمن، کرنل محمد خاں اور محمد خالد اختر میرے ہم عصر تھے اور ان تینوں کی تحریروں کی اثر انگیزی نے مجھ بیمار میں بھی ایک نئی روح پھونک دی۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).