قومی سلامتی پر اجارہ داری اور متوازی کابینہ کی روش


اکتوبر کے اوائل میں اٹھا ڈان لیکس کا طوفان بالآخر دو دن پہلے تھم گیا۔ پچھلے ہفتے فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائرکٹر جنرل، میجر جنرل  آصف غفور کی جانب سے نامنظوری کی ٹویٹ اس طوفان کو اپنی انتہا تک لے گئی تھی۔ کہنے کو ایک سو چالیس حرفوں کی یہ ٹویٹ پاکستان کی عالمی رسوائی کا سبب بنی اور بین الاقوامی پریس کی جانب سے اس کی بہت منفی رپورٹنگ کی گئی۔ مگر یہ ٹویٹ اس بظاہر کبھی نہ رکنے والے طوفان کا آخری تھپیڑا ہی ثابت ہوئی۔ چند دن بعد ہی پتہ لگا کہ فوج اور حکومت کے درمیان ’تصفیہ‘ ہوگیا ہے۔ بقول ایک سینئر اینکر کے لفظ ‘سیٹل’ استعمال کیا گیا۔ ان کا اس بات پر اصرار ہے کہ یہ  لفظ اس سے پہلے شملہ معاہدے میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا مزید اصرار تھا کہ فوج نے 71 کی طرح ہتھیار ڈالے ہیں۔ میڈیا کے ایک خلیفہ کا کہنا ہے کہ فوج کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ فوجی قیادت سیاسی لیڈران سے ‘چکمہ’ کھا گئی ہے۔ خلیفہ نے فوجی قیادت کے فیصلے کو عجلت اور گھیرے میں آئے ہوئے شخص کا فیصلہ قرار دیا۔

اس سے زیادہ دلچسپ تبصرہ ملک کے ایک اور مشہور صحافی نے کیا۔ اپنے کالم میں ماضی اور حال کے تجربات بیان کر کے موصوف کا فرمانا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ‘ نے ہمیشہ ’قومی سلامتی کو خطرہ‘ کا نعرہ لگا کر میڈیا کو استعمال کیا۔ اس کے لئے ڈرون حملوں، ریمنڈ ڈیوس، میمو گیٹ اور حالیہ ڈان لیکس کا ذکر کیا۔ سوال یہ ہے کہ جناب یہ میڈیا کے جانے پہچانے چہرے ہی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال کیوں ہوتے ہیں؟ اور استعمال ہونے کے دوران جو صحافی، تجزیہ کار یا سول سوسایٹی کے نمائندے اسٹیبلشمنٹ کی لائن لینے سے گریز کرتے ہیں انہیں را کے کارندے، امریکی گماشتے، یہودی و قادیانی ایجنٹ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ ان کی حب الوطنی پر سوال کیوں اٹھائے جاتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ میڈیا میں ایجنٹی کے دھارے کا بہاؤ کیا صرف ایک جانب ہی بہتا ہے؟

6 اکتوبر کو ڈان میں یہ خبر لگی کہ سول قیادت نے عسکری قیادت بالخصوص آئی ایس آئی کے سربراہ کو یہ باور کروایا کہ شدت پسندوں کے وہ گروہ جو خصوصاً بھارت مخالف شناخت رکھتے ہیں اور پاکستان کے لئے عالمی طور پر بدنامی کا باعث بن رہے ہیں انہیں فوج میں سے کچھ عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے اور جب بھی ان کے خلاف سول حکومت کوئی اقدام اٹھاتی ہے تو ان کی خلاصی کے لئے یہ عناصر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ چند دنوں بعد پاکستان کی بری افواج کے کور کمانڈر اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں اس خبر کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اس پر سول قیادت بھی بیک فٹ پر چلی گئی اور چوہدری نثار نے کہا کہ ڈان لیکس میں وہی الزامات دہرائے گئے ہیں جو پاکستان کے دشمن لگاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد دسمبر میں قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے سینئر صحافیوں کو ایک آف دی ریکارڈ بریفنگ دی۔ بعض اخباری حلقوں نے جو اشارے کنائے میں اس بریفنگ کی روداد بیان کی اس کے مطابق اس بریفنگ میں جو مستقبل کی پیش بندی کی گئی اس کے اثرات جنوری میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے جب حافظ سعید کو نظر بند کر دیا گیا نیز جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاونڈیشن کو واچ لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔ یہ اور بات کہ چند دنوں بعد یہی جماعت تحریک آزادی کشمیر کے نام سے پھر ابھر آئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس خبر کے مندرجات پر عمل بھی شروع ہوگیا اور اس تصفیہ کے بعد تو بہت سے حواریان اسٹیبلشمنٹ بھی کہنے لگے ہیں کہ یہ خبر کہیں سے بھی قومی سلامتی کو خطرہ نہیں تھی۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ کون سا امر قومی سلامتی کو خطرہ ہے اور کون سا نہیں، اس کے فیصلہ کہاں ہوگا؟ کیا ملک میں عوام کی خواہشات کے مطابق ایک آئین نافذ نہیں ہے؟ کیا اس آئین کی بدولت ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ قائم نہیں کی گئی؟ کیا ان اسمبلیوں کی بدولت کوئی حکومت وجود نہیں رکھتی ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ قومی سلامتی کا تحفظ ذیلی اداروں کی مدد سے اس حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ اس حکومت کا ایک سربراہ ایک وزیراعظم ہے اور یہ قومی سلامتی کا ایک مشیر بھی رکھتا ہے۔ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ ان کا نام ہے۔ قومی سلامتی سے متعلق فیصلے تو وزیراعظم کی کابینہ میں ہونے چاہئے تھے۔ کیا پاکستان کی بری افواج کی کور کمانڈر کانفرنس نے متوازی کابینہ کی حیثیت اختیار کر لی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ کسی بھی سول ملٹری قیادت کے ٹکراؤ سے پہلے سرونگ آرمی چیف ایک کور کمانڈر کانفرنس بلاتا ہے اور اس کانفرنس کا اعلامیہ طبل جنگ کی علامت بن جاتا ہے؟ ماضی میں کیری لوگر بل، میمو گیٹ اور اب ڈان لیکس میں بھی ہم نے ایسا ہوتا دیکھا۔ دھرنے کے دوران بھی کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ مرکزی اہمیت اختیار کر گیا اور اب پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی کے لئے بھی فوج نے کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ کے ذریعہ اپنا موقف بتانا ضروری سمجھا۔ ایسے میں فوج سے ناراض ہوئے اینکر حضرات کا یہ کہنا کہ فوج اور حکومت نے تصفیہ کا لفظ استعمال کیا ہے جو شملہ معاہدے میں دو مقابل مگر برابر فریقین نے استعمال کیا تھا بہت معنی خیز بن جاتا ہے۔ یہ لفظ پاکستان میں جاری متوازی اقتدار کی حقیقت کو بہت کھول کر بیان کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈان لیکس کا تصفیہ جس کے لئے ایک اور جغادری صحافی نے ’فوج کے واٹر لو‘ کا نام دیا ہے درحقیقت سول بالادستی کے لئے ایک اور دھچکہ ہے۔ سول حکومت نے اس تصفیہ کے لئے تین عہدیداران کی قربانی دی ہے۔ اس کے لئے جو جواز گھڑا گیا ہے کہ یہ عہدیداران بشمول سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید خبر رکوانے میں ناکام ہوئے نہ صرف غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے بلکہ یہ ملک کے آئندہ مستقبل کے لئے بہت خطرناک روایت ہے۔ اس کے اثرات مستقبل میں واضح ہوں گے۔ نامنظوری کی ٹویٹ نے حکومت کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا جس کے بعد نواز حکومت کے پاس اپنی بقا کے لئے سٹینڈ لینے یا سیاسی شہید بننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ ایسے میں جو بچی کھچی سول بالادستی ہاتھ آئی ہے اسے ہی غنیمت سمجھا جائے۔

مدعا یہ ہے کہ پاکستان خطے میں تین ممالک سے جارحانہ حد تک مخاصمت میں گھرا ہے۔ ملک میں چین اپنا رسوخ جس تیزی سے پھیلا رہا ہے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ امریکہ نہ صرف پاکستان سی ناراض نظر آتا ہے بلکہ افغانستان میں جارحیت بڑھانا چاہتا ہے اور مشرق وسطیٰ فرقہ وارانہ بنیادوں پر فوجی اتحادوں کے راستے پر چل پڑا ہے۔ ایسے میں قیادت کو جس طرح کی تنظیم، تدبر اور دانش مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ طاقت کے ایک سے زائد مراکز، متوازی کابینہ اور سرکش ٹویٹوں کی روش سے پرہیز کیا جائے۔ جو باتیں پریس کانفرنسوں میں کی جاتی ہیں کہ وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں ان پر عمل بھی کیا جائے۔ اگلا سال آتا ہے اور عوام خود فیصلہ کر لیں گے کہ موجودہ وزیراعظم قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھا یا نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).