نیم کے مزیدمرکبات


گزشتہ ماہ کے ایک کالم میں نیم کے مرکبات بیان کیے گئے۔ یہ تمام نیم کے سابقے سے بننے والے مرکبات تھے، جیسے نیم حکیم، نیم ملا،نیم انصاف، نیم پارسا وغیرہ۔کالم کی تنگ دامنی کی بنا پر ایسے کچھ مرکبات عرض کرنے سے رہ گئے۔علاوہ ازیں نیم کے لاحقے کے بھی چند مرکبات پائے جاتے ہیں۔آج یہ مرکبات ملاحظہ فرمائیے۔

نیم جمہوریت: اسے لولی لنگڑی جمہوریت بھی کہاجاتاہے۔دکھاوے کی جمہوریت بھی یہی ہوتی ہے اورگائیڈڈ جمہوریت بھی نیم جمہوریت ہی کہلاتی ہے۔اس میں ازراہ محبت اختیارات کامنبع عوام اوران کے منتخب نمائندون کو کہاجاتاہے مگر اصل منبع کہیں اورہوتاہے۔عوام کے نمائندوں پر تو اختیارات کی فقط تہمت ہی دھری جاتی ہے۔ تہمتیں تو خیر نیم جمہوریت پر اور بھی بہت سی دھری جاتی ہیں، جیسے کوڑھ زدہ سسٹم اورخون چوس نظام وغیرہ وغیرہ۔نیم جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ عوام سے ووٹ اورٹیکس تو خوب وصول کرتی ہے مگر جواب میں ڈیلورکچھ نہیں کرتی۔ نیم جمہوریت عوامی فلاح وبہبودکے منصوبے تو بہت بناتی ہے مگرخداجانے کیوں ان کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے ۔ بادشاہت جیسا کروفر اوررعایا کے لئے عدم تحفظ،عدم روزگار،عدم تعلیم،غرض ہر نوع کی عدم سہولیات بھی نیم جمہوریت کی پہچان ہیں۔نیم جمہوریت میں دنیاکے مستندجمہوری نظاموں سے اپنے مطلب کے اصول حاصل کر لئے جاتے ہیں جبکہ ناپسندیدہ اصول ان کے لئے چھوڑدئے جاتے ہیں۔اسے لولی لنگڑی جمہوریت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے آزادی سے چلنے نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے یہ کسی صحت مند نظام کی طرح چلنا سیکھ ہی نہیں سکتی۔ اگر یہ لنگڑاکر بھی ذراتیز چلنے کی کوشش کرے تو اسے فوراً رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ کارخیر اس لئے ضروری تصور کیا جاتا ہے کہ اگر نیم جمہوریت صحیح طریقے سے چلنا سیکھ لے تو آنکھیں دکھانا شروع کر دیتی ہے۔

نیم بادشاہت: اسے نام کی بادشاہت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بڑی مظلوم ہوتی ہے۔ نیم بادشاہت جن ممالک میں رائج ہے، وہاں محلات اورتاج تو ہوتے ہیں مگراختےارات اور تخت نہیں۔یہ بلائیں عوامی نمائندوں کے پاس ہوتی ہیں جبکہ بادشاہت صرف احترام اورتنخواہ وصول کرتی ہے۔ اسے نام کی بادشاہت اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خلاف استحقاق کسی کو بجلی کا میٹر بھی لگوا کر نہیں دے سکتی۔ چونکہ نیم بادشاہت کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا، لہٰذا یہ آرام اور حکومت کام کرتی ہے۔منتخب نمائندے بادشاہ کے نام پر اختیارات تو استعمال کرتے ہیں مگراس کے نام پر ٹھگی نہیں کر سکتے، جو بڑی افسوسناک بات ہے۔

نیم ٹوئٹ: نیم ٹوئٹ نیم جمہوریت ہی میں ممکن ہے۔یہ اداروں میں غلط فہمیاں اورکشیدگی پیدا کرنے کاسبب بنتے ہیں۔تاہم بعض اوقات دھول اڑاکرادارہ جاتی بالغ نظری سے ایسے معاملات حل کر لئے جاتے ہیں اورنیم ٹوئٹس واپس ہوجاتے ہیں،جس سے بہت سے تماشہ گیروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

نیم مہاجر: یہ نیم پناہ گزین یا نیم تارکین وطن بھی کہلاتے ہیں،جو اپنے ملک میں کسی ناگہانی صورت حال کی وجہ سے کسی دوسرے ملک میں ہجرت کرتے ہیں مگرانہیں یہ ملک اتنا پسند آتا ہے کہ وہ وہاں کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔ یہ انسانی ہمدردی کے تحت پناہ دینے والے ملک میں جا کر دو نمبر طریقوں سے وہاں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے ہیں اورجائیدادوں اور ہر طرح کے کاروبارکے علاوہ جرائم کی دنیا میں بھی نام کماتے ہیں،جیسے ایک برادر پڑوسی ملک سے تھوک کے حساب سے ہمارے ہاں آنے والے مہاجرین برادران نے یہاں تباہی پھیلا رکھی ہے۔ کچھ نیم تارکین وطن ایسے بھی ہوتے ہیں جو روزگار کی خاطرصرف انسانی حقوق ارزاں کرنے کے شوقین ممالک کورونق بخشتے ہیں۔ یہ اکثرجعلی ویزوں پروہاں جاتے ہیں اورجعلی دستاویزات اورجھوٹ کے بل بوتے پرشہریت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پھران مملک کے لوگوں کواپنی اعلیٰ اقدارکی مثالیں دے کرانہیں اخلاقیات سکھاتے ہیں۔نیزان سے وہ حقوق بھی ادھارواپس مانگنے جیسے لہجے میں مانگتے ہیں جن کی انہوں نے وطن عزیزمیں شکل تک نہیں دیکھی ہوتی۔ایسے تارکین وطن جب اپنے وطن کر دورے پر آتے ہیں تو اہل وطن کوان مملک کی صفائی اورسچائی کی مثالیں دیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ وہ خود وہاں کتنا گند ڈال کر آئے ہیں؟وہ وطن کو تو ترک کر دیتے ہیں لیکن اپنی عادات کو نہیں۔بسا اوقات کسی ناگہانی صورت حال کا شکاراسلامی بھائیوں کوجب برادراسلامی مملک پناہ نہیں دیتے تو اخلاق باختہ یہودونصاریٰ انسانی ہمدردی کی بناپر یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔

نیم عاقل: انہیں شیخ چلی کی نسل بھی کہا جاتا ہے۔ نیم عاقل بجلی کے ہوئی منصوبے بناتے ہیںاورپھر اپنے جد امجد کی طرح خوشی سے بیانات کے ہوئی فائر بھی کرتے ہیں۔ دنیاجانتی ہے کہ یہ منصوبے خلائی ہیں مگر نیم عاقلوں کوتب پتا چلتاہے جب گرمی میں شارٹ فال سات ہزارمیگاواٹ تک جا پہنچتاہے اورملک اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔تب وہ کف افسوس ملتے ہوئے دوبارہ کمرکس لیتے ہیں اورتوانائی کے نئے ہوائی منصوبے شروع کر دیتے ہیں۔

نیم سیاست دان: نیم سیاست دان کی پہچان یہ ہے کہ وہ آمریت  کا ظہور ہوتے ہی اس کے در پرسجدہ ریز ہو جاتا ہے اورجمہوریت بحال ہونے پرعوامی حق حکمرانی کی قوالی شروع کر دیتا ہے۔ نیم سیاست دان ٹین ڈبے بنانے والی مخصوص فیکٹریوں کی پیداوارہوتے ہیں۔

نیم ذہین: نیم ذہین،نیم شائستہ بھی ضرورہوتاہے۔ یہ نیم چڑھا کی ہرخصوصیت پرپورا اترتا ہے، جو پچھلے کالم میں عرض کی جاچکی ہیں۔ نیم ذہین خود کوعقل کل سمجھتا ہے اورہراس سیاسی یا سماجی مسئلے پر اپنی رائے کو حرف آخر قرار دیتا ہے، جس کے متعلق اس کی معلومات ناقص ہوتی ہیں۔الیکٹرانک وپرنٹ میڈیااورمحفلوں میں فساد بپاکرنے میں اس کا ثانی نہیں۔

دو نیم: نامساعد حالات میں نیم عاشقوں کے دل اورنیم قوموں کے ممالک دونیم ہوجاتے ہیں۔ دل نیم محبوب اورملک نیم حکیموں، نیم ملاﺅں، نیم سیاست دانوں، نیم دانشوروں اورنیم کمانڈروں کے ہاتھوں دونیم ہوتے ہیں۔

شجرنیم: نیم کو درختوں کا بھگوان کہا گیا ہے۔ چونکہ بھگوان ہندوﺅں کا ہوتا ہے اورعموماً کفریہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،لہذا ہم اپنے ملک سے اس کا بلکہ احتیاطاً ہر درخت کو بھگوان سمجھ کر ان کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں۔ ویسے بھی نیم، اس کی گولیاں اور مسواک خاصے کڑوے ہوتے ہیں اور کڑوی چیزوں کوسنبھال کر کیا رکھنا؟ البتہ کڑوا ہونے کے باوجود نیم کا درخت سایہ دار ضرور ہوتا ہے۔ آزاد صحافت کو بھی حکمرانوں اورملک وقوم کے لئے نیم کا شجر کہا گیا ہے، جو کڑوا مگر سایہ دار ہوتا ہے۔ شاید آزادی صحافت کے متعلق ہی شاعر نے کہا ہے کہ:

چیزکڑوی ہے مگر دھوپ سے بچنے کے لئے
نیم  کا پیڑ آنگن میں اگا لیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).