کیا میرا وجود زندگی کے لیے ضروری ہے ؟


مقتول ہونا ایک دکھ ہے تو قاتل ہونا ایک اور عذاب۔ بات قاتل کی ہرگز نہیں، مقتول کا تذکرہ ہے۔ دکھ بے شمار ہیں۔ اسباب بہت ہیں تو اشکال بھی حد سے سوا۔ حل مگر ایک ہے، مکالمہ۔

گزشتہ ماہ لاہور کے علاقہ شاد باغ میں ایک خاتون نے اپنے دو کم سن بچوں کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔ کچھ دن قبل ایک اردو اخبار نے یک کالمی خبر لگائی، ’مختلف واقعات میں حالات سے دلبرداشتہ نو خواتین سمیت سولہ افراد کی خودکشی‘۔ گزشتہ ہفتے ایک باپ نے نہ صرف خود زہر خورانی کی بلکہ اپنے پانچ بچوں کی زندگیوں کے چراغ بھی گل کیے۔ عالمی ادارہ صحت کی گواہی ہے، دنیا بھر میں ہر سال دس لاکھ سے زائد لوگ اپنی ہی وحشت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس عفریت کا کوئی منظم ریکارڈ تو نہیں لیکن رپورٹس کہتی ہیں گزشتہ دس برس میں اپنے ہاتھوں جان لینے کا رجحان بتدریج بڑھ رہا ہے۔

پروین شاکر کے تخیل سے انکار ممکن نہیں کہ حادثہ ایک دن میں رونما نہیں ہوتا۔ سزاوار ہماری کوتاہ نظری ہے جو اسباب و عوامل دیکھنے سے قاصر ہے۔ آنکھ صرف نتیجے پر ہی کھلتی ہے۔ بسا اوقات تب بھی نہیں۔ وجوہات میں شاید یہ بھی شامل ہے کہ خودکشی کرنے والے اپنی جان کنی کی کوئی فلم عکس بند نہیں کرتے، قاتل ہمارا نظریاتی دشمن نہیں ہوتا اور مقتول کی بے گناہی ثابت کرنے میں بھی کسی کا مفاد نہیں ہوتا۔ سو اخبارات یک کالمی خبر بنا کر ذمہ داری نباہ جاتے، الیکٹرانک میڈیا پرائم ٹائم میں ایسی عدم دلچسپی کی خبریں نشر کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تو سوشل میڈیا کی اپنی جہتیں ہیں، وہاں ایسی خبر ٹرینڈ نہیں بنا پاتیں۔

چور دروازے سے زندگی سے فرار حاصل کرنے والوں میں اکثریت حضرات کی ہے۔ خواتین، ان کا، تقریباً نصف ہیں۔ عمروں کی تقسیم یوں ہے کہ لڑکے بالے ایسی حماقت کرنے میں جلدی کرتے تو شادی شدہ زندگی سے غیر مطمئن سمجھدار عمر کی خواتین بھی ایسا جذباتی قدم اٹھا جاتی ہیں۔ ایسی درجہ بندیاں کوئی سرا ہاتھ نہیں پکڑا رہیں اور ہر ایک واقعے کا سبب جاننا بھی سہل نہیں۔ تاہم جذباتیت، غصے کی زیادتی، مایوسی، سماجی عدم اعتماد اور جلدبازی ایسے لوگوں کی مشترک عادات ہوتی ہیں۔ اور یہ کوئی ایسے اطوار بھی نہیں جو اچانک سے نمودار ہو جائیں۔ تعجب ہوتا ہے جب والدین ملنے والوں سے اپنے کسی بچے کے تعارف میں مسکرا کر یہ کہتے ہیں، ’یہ غصے کا بہت تیز ہے‘ یا’یہ کسی کی نہیں سنتا‘۔ حضور، ایسی باتیں فخر کا باعث نہیں، لمحہ فکریہ ہیں۔ آپ کی تربیت میں سقم ہے۔

ہمارے ہاں نوجوانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں اپنی زندگی کی ’ٹائم لائن‘۔ واضح نہیں ہوتی۔ تعلیم کب تک جاری رکھنی ہے؟ مضامین کون سے پڑھنے ہیں؟ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا کرنا ہے؟ شادی کس عمر میں کرنی ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالوں کے جواب وہ وقت آنے پر سوچتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے سفر میں ہر پڑاو کو وہ منزل سمجھ بیٹھتے ہیں، زندگی جیسے ہی اس مقام سے آگے سرکتی ہے، ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ نوجوانی کی عمر میں، جب ہر لڑکی ہی اچھی لگتی ہے، یہ خام خیال ذہن میں پنپ جاتا ہے، ’مجھے تو زندگی کی محبت مل کے بچھڑ بھی گئی ہے، اب زندہ رہنا فضول ہے‘۔ رواں برس جنوری کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد میں ساتویں جماعت کا طالب علم اپنی خاتون استاد کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ اپنی ’محبت‘ کا انجام سوچ کر خود کو گولی مار لی۔ 2015 میں کراچی کے ایک نجی سکول میں پندرہ برس کے نوجوان نے اسی طرح کے ایک واقعے میں اپنی ہم جماعت لڑکی کو قتل کر کے خود کشی کی تھی۔ یا للعجب، کیا سوچتے ہیں یہ بچے؟ اور کیا اتنا چھپ کے سوچتے ہیں کہ کسی مربی، کسی استاد کو خبر تک نہیں ہوتی؟

مالی مشکلات، بہرحال، خود کشیوں کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ خدا غارت کرے اس سرمایہ دارانہ نظام کو جس میں امیر، امیر تر ہوئے جا رہا ہے اور غریب، غریب تر۔ کسی کو تعلیم مکمل کرنے پر بھی ملازمت نہیں ملتی تو کسی کا اچھا خاصا چلتا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ اور یہ بزدل حضرات ایسی آزمائشوں سے گھبرا کر زندگی سے لڑنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اتنے واقعات خبروں کی زینت بنتے ہیں کہ شمار مشکل عمل ہے۔ لاہور کا ساٹھ برس کا فضل الٰہی یاد آتا ہے جس کا بال بال قرضے سے جکڑا جا چکا تھا، ستمبر 2012 میں پھندے سے جھول گیا تھا۔ ابھی فروری میں نوڈیرو میں پینتیس برس کا ندیم، جو تین بچوں کا باپ بھی تھا، مالی مشکلات سے تنگ آ کر خود کو گولی مار بیٹھا۔

خود کشی کرنے والی خواتین کی اکثریت وہ ہے جن کی شادی کو دس، بارہ برس بیت چکے ہیں۔ بہت سی تو اولاد والی بھی ہوتی ہیں۔ اپنے شوہروں سے نباہ نہیں کر پا رہی ہوتیں۔ مالی مشکلات ہوں یا کوئی اور مسئلہ، حل انہیں زندگی کا خاتمہ نظر آتا ہے۔

اشکال بے شمار ہیں۔ اسباب بھی یقینا حد سے سوا۔ مخلص کوشش، لیکن، مسائل کے حل کی کرنی چاہئے۔ ہمارے ہاں تعلیم کو ہی تربیت سمجھا جاتا ہے جو ایک فاش غلطی ہے۔ لاریب بات ہے کہ یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ لازم نہیں کہ تعلیمی میدان میں کامیاب شخص اچھی تربیت کا حامل بھی ہو۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ بدقسمت جو بوجوہ تعلیم میں پیچھے رہ گیا، زندگی کے نشیب و فراز خوب سمجھتا ہو۔ ہمیں بچوں کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ جلدی غصے میں آ جانا، ہر بات کو انتہا پر لے جانا، زندگی میں صرف زیاں کا ہی حساب کرتے رہنا، ہر کسی کو اپنا دشمن سمجھتے رہنا اور ایسی بے شمار باتیں، جو زندگی سے دور کرتی ہیں، نفسیاتی عارضے ہیں۔ دور مشینی آ گیا ہے، سمارٹ ڈیوائسز نے ایسے غیر حقیقی ماحول میں دھکیل دیا ہے کہ اب مل بیٹھنا، باتیں کرنا، دکھ سکھ بانٹنا قصہ پارینہ ہوتا جارہا ہے۔ نفسیات کا علم کہتا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل ہمارے ہی پاس ہوتا ہے، ہمیں صرف ایک اچھے سامع کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک ایک امید بھی زندہ رہے، کوئی خود کشی نہیں کرتا۔ خدارا آنکھیں کھولیں، اطراف میں دیکھیں۔ پریشان چہروں اور خاموش زبانوں کو متوجہ کریں۔ گفتگو کا آغاز کریں۔ نوجوانوں کو سمجھائیں کہ محبت سچی ہو گی تو مل جائے گی، وقتی بخار ہو گا تو اتر جائے گا۔ ملازمت نہیں ملتی تو مقدر کا رزق حاصل کرنے کے اور بہت سے جائز طریقے ہیں۔ اکیس کروڑ آبادی کے ملک میں ملازمت یا کاروبار کے مواقع کم ہو سکتے ہیں، کام کرنے والوں کے لیے راستے بہت ہیں۔ شادیاں بچوں کی مرضی سے کریں۔ پھر بھی حالات خراب ہو جائیں تو بات کریں، راستہ نکل آتا ہے۔ ہر راستہ بند گلی میں جاتا ہو تب بھی علیحدگی، خود کشی سے، ہر حال میں، بہتر ہے۔ مادی وسائل کی اہمیت انسانی جانوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ زندگی کی دوڑ میں آگے آگے بھاگنے کی بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کو ضرور ثمر ملتا ہے۔ گھر میں، حلقہ احباب میں، محلے میں، دفتر میں پریشان چہروں سے قربت اختیار کریں۔ بات کریں گے تو بات بنے گی۔

مقتول ہونا ایک دکھ ہے تو قاتل ہونا ایک اور عذاب۔ بات قاتل کی ہرگز نہیں، مقتول کا تذکرہ ہے۔ دکھ بے شمار ہیں۔ اسباب بہت ہیں تو اشکال بھی حد سے سوا۔ حل مگر ایک ہے، مکالمہ۔

جون ایلیا کا شکوہ آج بھی بر محل ہے۔

کس کو فرصت ہے
مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ
میراوجود
زندگی کے لیے
ضروری ہے….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).