فیض صاحب ، خان صاحب…. اور تذکیر تانیث


\"Hussain01\"بیرون ملک مقیم ہم وطن دوستوں میں خان صاحب ایک ایسی شخصیت تھے جن کے ساتھ وقت کیسے گزرجاتا تھا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنے پرلطف اندازِ گفتگو سے علمی و ادبی اور سنجیدہ موضوعات کو بھی اتنا پر لطف بنادیتے کہ ان کے محفل سے رخصت ہونے کے دیر بعد تک احباب ان کا ذکر کرتے اور اکثر ان کی غیر موجودگی میں ان کی باتوں کو یاد کر کے لطف اندوز ہوتے تھے۔ خان صاحب ایک پرائیوٹ کمپنی میں ایک اچھے عہدہ پر فائز تھے ۔مطالعہ کے بے حد شوقین تھے، بالخصوص اردو ادب میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے،۔فیض صاحب کے فیض سے ہمیں یوں فیضیاب کرتے کہ اگر خود فیض صاحب اس محفل میں موجود ہوتے تو ان کے ذخیرہ علم و بصیرت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا۔ان کو فیض صاحب کے وہ شعر یاد تھے جو خود فیض صاحب کو بھی یاد نہ ہوں گے۔

ایک روز آمریت و جمہوریت پر زور دار مباحثہ چھڑ گیا۔ چند احباب آمریت کا دم بھر رہے تھے اور چند جمہوریت کے گن گا رہے تھے۔ ان میں خان صاحب آمریت کے خلاف ایک پُرجوش اور دلائل آمیز گفتگو کچھ اس انداز میں فرما رہے تھے؛

خوچہ۔۔۔۔ یہ جو حکومت ہوتا ہے یہ کسی ملٹری شلٹری کے بس کا کام نہیں ہے۔

تم جوتے کو ٹوپی کی جگہ پہن سکتی ہے۔۔۔۔ نہیں۔

جوتا اپنا اہمیت رکھتی ہے ٹوپی اپنا۔

مڑا۔۔۔۔

جوتے کو تسمہ لگا ہو تی ہے ٹوپی کو۔۔۔۔نہیں۔

 تو ہم کیسے ٹوپی کو جوتا بنا سکتی ہے۔

تم کیا سمجھتی ہے فیض پاگل تھی۔

اس کو صرف شاعری کی شوق تھی۔۔۔نہیں۔

وہ جمہوریت کی بڑی علم بردار تھی مگر خوچہ ۔۔۔ یہ آج کل والاجمہوریت نہیں اُس کا جمہوریت کچھ الگ تھا۔

اور جوشِ بیان میں انہوں نے فیض صاحب کا ایک ایسا شعر پڑھا کے ہم سب کچھ دیر تک بحث کو ترک کر کے ان کے شعر پر غور کرنے لگے اور پھر ان کی علم دوستی اور فیض نوازی پر انگشتِ بدانداں رہ گئے۔ انہوں نے شعر کچھ یوں سنایاتھا۔

خوچہ نہ پوچھو فیض کا گھر، ابھی ویسی ہے اس کا کیفیت

سرِ راہ گزار بیٹھی ہے کہیں ستم کشی بھی منتظر ہوگی

اس شعر کو سننے کے بعد محفل میں ایک سکوت طاری ہوگیا سب لوگ حیران ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ خان صاحب نے اجازت لی اور رخصت ہو لئے۔ درحقیقت یہ شعر فیض کا نہیں علامہ اقبال کا تھا اور کچھ یوں تھا۔

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اس کی

کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا، ستم کشِ انتظار ہوگا

خان صاحب کے اسی آزاد اور سادہ اندزِ گفتگو نے کئی بار ہمارے اندر مخفی طوفان کو متحرک کرنے کی کوشش کی مگر فکرِ معاش اور مسائلِ بے وطنی کے بڑے بڑے شگافوں میں وہ طوفان اس طرح غرق ہو جاتے تھے گویا صحرا پر پانی کے چند قطرے۔خان صاحب کی اردو گرامر بھی کچھ روایتی پٹھانوں جیسی ہی تھی جس میں مذکر مونث کا فرق ذرا غور طلب ہوتا تھا۔ ایک روز ان کے ایک فقرے نے ہم کو اس قدر متاثر کیا کہ ہم غور و فکر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ خان صاحب اور میں حسبِ معمول چائے کا مزاہ لے رہے تھے تو انہوں نے کہا؛

خوچہ ۔۔۔۔ یہ جو علم ہوتی ہے یہ ہمیشہ رہتی ہے اور دولت آنے جانے والا شئے ہے

ان کا یہ فقرہ روایتی اردو کے اعتبار سے یوں ہونا چائیے تھا؛

جو علم ہوتا ہے وہ ہمیشہ رہتا ہے اور دولت آنے جانے والی شئے ہے۔

معذرت کے ساتھ مجھے لفظ خوچہ کے اردو لغت معنی معلوم نہیں یا شاید میں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔بہر حال اس فقرہ نے میرے خیالات کے دریا کا رخ اس سمت موڑدیا کہ علم مذکر اور دولت مونث کیوں ہے؟ حسبِ روایت ہم نے کسی موثر مثال یا دلیل کے لئے اپنے سوال کے کشکول کا رخ مغرب کی جانب موڑدیا تو احساس ہوا کہ بے شک مغرب میں آج جو عورت کسی ایک مرد کے ساتھ نظر آرہی ہے کل کسی اور کے ساتھ ہوگی اور آئندہ چند روز بعد کسی اور کے ساتھ ۔۔۔۔ اور یہ صفت دولت سے کافی متشابہ نظر آتی ہے۔ مگر مشرقی معاشرہ کو نظر انداز کر کے کوئی رائے قائم کرنا ہم کو کچھ مناسب محسوس نہیں ہوا۔ تو ہم نے اپنے گردوپےش پر بھی غور کرنا شروع کردیا کہ شاید کوئی دلیل تلاش کرلیں ۔ تاہم اسی اضطرابی کیفیت میں ایک آواز نے ہماری روح کو جھنجھوڑدیا اور بیگم کی آواز پر لبیک کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ برائے تعمیل حکمِ زوجہ بازار کو روانہ ہولئے ۔آج کوئی خاص موقع تو نہیں تھا بس ہمارے والد کی طرف کے کچھ رشتے داروں نے شام میں گھر پر آنا تھا تو ان کی دعوت کے احتمام کے لئے کچھ سبزیاں اور گوشت وغیرہ لانا تھا۔

خیر سبزیاں لینے کے لئے پہلے ہم کپڑا مارکٹ گئے؛

بیگم: ”بھائی وہ لال والی چادر دکھانا، نہیں نہیں وہ کالے پرنٹ والی نہیں سفید والی، پردے کیسے ہیں؟“

صوفوں کے کور وغیرہ وغیرہ دیکھتے دیکھتے بالآخر ایک دسترخوان پر اکتفا کیا ۔ پھر ہم سبزی والے کی طرف ہو لئے کہ اچانک راستے میں برتن والے نے برتن کچھ اس خوبصورت انداز میں نمائش پر لگائے تھے کہ بیگم خود کو روک نا سکیں۔ یوں تو گھر میں خدا کے فضل سے ایک پوری بارات کی دعوت کے برتنوں کا ذخیرہ موجود تھاپھر بھی حفظ ما تقدم ایک درجن گلاس، میٹھے کی کٹوریاں، نمکدانی اور روٹی رکھنے کا برتن جیسی اہم اور ضروری اشیا خریدی گئیں۔

ہم نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھ ہی لیا۔ جی بیگم! اب کیا ارادہ ہے۔ بیگم صاحبہ انتہائی غصب ناک انداز میں متوجہ ہوئیں: ”کیا؟…. کیا ارادہ؟ جو سامان لینے آئے ہیں وہ لیں گے اور کیا…. مجھے ابھی گھر جا کر کھانا پکانا ہے اور صفائی بھی کرنی ہے۔ میں کیا بازار میں فضول گھوم رہی ہوں ؟دو چار کام کی چیزیں نظر آئیں تو لے لیں۔ آپ تو بس….“

آگے کی گفتگو کا بیان حلقہ احباب میں ہماری شایانِ شان نہ ہوگا۔لہذا گھر کی بات گھر میں ہی رہے تو عزت ہے۔خیر اس کے بعد ہم نے ”جی بیگم“ کہہ کر ان کے ساتھ ہونے کو ہی غنیمت جانا۔مگر دل فوراََ خان صاحب کے فقرے میں پوشیدہ راز کی طرف ہولیا کہ دولت کا مزاج بھی کبھی مستقل نہیں رہتا۔کبھی فراوانی تو کبھی تنگی۔ محنت اور کوشش سے اسے قریب تو کرسکتے ہیں مگر خرچ اس کی مرضی کے مطابق ہوگا ۔ کبھی دکھنے میں کم اور افادیت میں زیادہ تو کبھی دکھنے میں زیادہ مگر افادیت میں کم ۔ پس اب ہمارا دل مطمعن ہوگیا کہ دولت حقیقتاَ ’ہوتی ‘ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments