بچے بدتمیز ہیں یا استاد شفقت سے خالی ہیں


اساتذہ کی برادری کا حصہ ہوتے ہوئے اس طرح کے جملے اکثر سننے میں آتے ہیں
مجھے تو کچھ اور کرنا تھا….
میں تو خود کو ڈھونڈ رہی یا رہا ہوں….
مجھے تو کچھ اور بننا تھا۔….
غلط فہمی: یہ لفظ جو ایک محفوظ بچاﺅ ہے۔ ہر جگہ سے، ہر میدان میں، آپ اسی بنا پہ دامن بچا کے گزر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں قابو تو ہوتا نہیں، نا حالات پہ نہ خود پہ اور نہ اپنی زبان پہ۔ تو پھر آخری بچاﺅ غلط فہمی میں ہی پوشیدہ ہے۔ اسکا سہارا لیں اور آگے بڑھتے جائیں۔ ہمارے اندر کا سچ اور انسانیت تو چادر اوڑھے سوئے رہتے ہیں۔ زندہ ہے تو جھوٹ اور غلاظت۔
دو ہی باتیں ہیں، سچ کہوں یا عمر۔ دونوں میں سے ایک کہوں گی تو دوسری حقیقت خود بخود عیاں ہو جائے گی۔ انیس سال سے یہ کان چند زہر آلود جملے سنتے ہی چلے آرہے ہیں۔ بچے کسی کے نہیں ہوتے، ذرا ہوشیار رہنا۔ بچوں سے ہنسی مذاق نہ کرنا، بچوں کا اعتبار نہ کرنا، زیادہ چپکانے کی ضرورت نہیں بچوں کو، بچے بہت بدتمیز ہیں، بچے کسی کی عزت نہیں کرتے وغیرہ۔ جی ہاں، ا ن جملوں کی مناسبت سے میری بدقسمتی کہیے کہ مجھے تعلیمی حلقے میں کوئی بیس سال گزر گئے ہیں۔ انہی ذمہ دار، انسانیت کے پیکر اساتذہ کے بیچ۔ جو اپنی زندگیوں سے تنگ، آس پاس کے ماحول سے تنگ، زنگ آلود چہرے لیے تعلیم کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں۔ انکے نزدیک ان سے زیادہ قابل کوئی نہیں۔ جی بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں آپ سب، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن پنجے کا حال تو یہی ہے جناب۔
میری قوم کے معماروں میں اتنے کیڑے۔ چودہ سے بیس سال کے بچوں سے کسطرح پیش آیا جاتا ہے ، یہ اس وقت کیوں بھول جاتے ہیں جب کسی دوسرے کا بچہ سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر ہر بات اعلیٰ مرتبے کی چاہیے تو ایک کتا کیوں نہیں پال لیتے اور اس سے فرمانبرداری کروا لیں۔ آپ کو کس نے حق دیا کہ استاد بنیں۔ دوسرے کا بچہ جو آپ کا شاگرد ہے وہ سب سے برا، بدتمیز ، نشئی اور اپنا بچہ سب سے سلجھا، پڑھا لکھا، فرمانبردار کیونکہ اسکی تربیت آپ جیسی عظیم ہستی نے کی۔ واہ رے شتر مرغ۔ یہ تو وہی بات ہو گئی اپنی بیٹی بیٹی اور دوسرے کی بیٹی بیٹی نہیں۔
ارے بھائی، آپ اپنا سا منہ لے کے استاد بنے ہی کیوں؟ اپنے اندر تو جھانکیے۔ نوکری نہیں مل رہی تھی یا جس وقت ماں باپ پڑھنے کا کہہ رہے تھے اس وقت آپ یہی سب کر رہے تھے جو آپ کو اب برا لگتا ہے۔ معذرت کے ساتھ ۔ لڑکیاں ٹیچرز اس لیے عمومی طور پہ بنتی ہیں کہ یا تو انکی شادی نہیں ہو رہی ہوتی یا اور کسی نوکری کی اجازت نہیں ملی ہوتی یا پھر کسی اچھے اسکول میں جاب کرنے سے بچہ فری پڑھ لیتا ہے۔ میں نے جوش و جذبے سے ٹیچر بنتے ہوئے تو بہت کم لوگ ہی دیکھے ہیں۔ پھر ہوتا کیا ہے کہ یہ محرومی اور تلخی دوسرے کے بچوں پہ نکلتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں استاد کی اوقات بھی’ سیالکوٹ کے کلاک ٹاور‘ سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ لڑکی کے والدین بھی استاد کو رشتہ دیتے دس بار سوچتے ہیں کہ یہ شخص تو کچھ نہیں کرتا۔ ناسور تو اساتذہ کو ہم نے خود بھی بنا ڈالا ہے، تلخی اور زہر تو آنا ہی ہے ان کے اندر۔
لیکن پھر وہی بات، آپ استاد بنے ہی کیوں؟ بچوں کا کیا قصور۔ان معصوموں سے انکی شرارتیں کیوں چھینتے ہیں۔ ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا کیوں دیتے ہیں، اور کچھ نہیں تو مخلوط تعلیمی نظام کی دھجیاں اڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔ میں زندگی بھر مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھی ہوں اور یقین کیجیے، میں نے نہ بھاگ کے شادی کی اور نہ ہی پسند ا ور محبت کی۔ جو ہوا ، جو کیا میرے ماں باپ نے۔
ہم خود کو پر سکون اور خوش کیوں نہیں رکھ سکتے؟ خود سے محبت کیوں نہیں کر سکتے۔ اپنی زندگی کیوں نہیں آسان کرتے۔ کیوں وحشی پن کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں لیکن نہیں۔ وہی زعم۔ میں تو استاد ہوں۔ اسلام میں استاد کا مقام تو سب سے اونچا ہے۔ میرا مقام بھی اس لیے اونچا ہے۔
پچھلے دنوں میرے اسکول میں پریکٹیکل امتحان ہو رہے تھے۔ چار دن گزرے امتحان لینے والا نہیں آتا اور اگر آتا تو صرف پرچے سمیٹنے۔ واہ ری ایمانداری۔ میرے اسکول کا شمار پاکستان کے چند بڑے اسکولوں میں ہوتا ہے۔ تو ظاہر ہے یہاں بچے بھی اونچی کلاس والے ہی آتے ہیں۔ جس دن ہمارے اسکول کے بچوں کا امتحان تھا وہ صاحب آکے تشریف فرما ہو گئے۔ میری کوئی ڈیوٹی نہیں تھی۔ صرف مشاہدہ لکھ رہی ہوں۔میں نے لیب میں جا کے ممتحن کو ڈھونڈا، سامنے عبجیب اجڑے ہوئے حال میں ایک شخص کھڑا ملا جس کو دیکھ کے شدید وحشت ہوئی۔ معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ وہی ممتحن اور وہی سپرنٹنڈنٹ بھی ہے۔ تھوڑی دیر ہی میں اس نے زہر اگلنا شروع کر دیا۔ بچو ں سے مجال ہے کہ کوئی سوال پڑھائی کا کیا ہو اور آخر کار ایک لڑکا بدک گیا۔ کہ ظاہر ہے، بچہ ہو یا بڑا، عزت نفس تو سب ہی میں ہوتی ہے مگر وہ صاحب یہ دماغ بنا کر آئے تھے کہ یہاں بڑے باپ کی سرپھری اولادیں ملیں گی مجھے۔ تو آج میں انھیں ٹھیک ہی کر کے آﺅں گا۔ اس بچے نے بہر حال ایسی کوئی بدتمیزی نہیں کی مگر اس ممتحن نے کہا کہ میں سارے اسکول کو بلیک لسٹ کر دوں گا۔ آخر کیوں؟ نہیں پتہ۔ ایسا کیا ہوا۔ نہیں پتہ۔ چھ سے سات لوگ ناکردہ گناہ کی معافی مانگتے رہے مگر اس بدتمیز سر پھرے پہ کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے ایسے وحشت زدہ، احساس کمتری سے چور ، سخت چمڑی والے گورنمنٹ ٹیچرز کی شکل میںپہلے بھی کافی دیکھے ہیں ۔ جی ہاں، کافی دیکھے ہیں مگر پرائیوٹ سیکٹر میں بھی کام چوروں اور لٹیروں کی کمی نہیں جو اپنا سارا زور بازو ٹیوشن میں لگا کے اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑھتے ہیں۔
آپ استاد ہیں؟ اعلیٰ مرتبے پہ فائز۔ اخلاق ہے آپ میں۔ مسکرانا جانتے ہیں؟ کتنی بار بچے کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ کتنی بار کسی بچے کی اداسی کی وجہ پوچھی؟ کتنی بار کسی معصوم سے یا شرارتی سے کام نہ کرنے کی وجہ پیار سے پوچھی۔ کیوں سب کو ایک ہی لاٹھی
سے ہانکتے چلے جاتے ہیں اور جب اپنی خود کی اولاد سر پہ کھڑی اخلاقیات کے جھنڈے گاڑھتی ہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ ہم کیوں ایسی قوم ہیں جو ہر بات کا فیصلہ ذہن میں پہلے سے کر لیتے ہیں اور پھر اسی پہ عمل پیرا رہتے ہیں۔ آخر کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).