بند کریں یہ استاد کارڈ کھیلنا


وکالت انتظامی افسر کی بالکل بھی نہیں۔ اساتذہ کے ان گنت احسانات بھی یاد ہیں۔ لیکن بات تو خدا لگتی کرنا چاہئیے۔ گزشتہ روز کوٹ مومن میں جو بھی ہوا، افسوس ناک، الم ناک اور شرمناک ہے۔ لیکن واقعے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر جیسا ردِ عمل آیا، وہ بھی اپنی جگہ ایک المیے سے کم نہیں۔

حیرت ہے کہ جو دلیل خاتون افسر کو غلط ثابت کرنے کے لیے خود ساختہ علم اور انسان دوست طبقہ استعمال کر رہا ہے، وہ تو محترم اظہر حسین شاہ صاحب نے بھی نہیں کی۔ واقعے کی جو تفصیل سننے، پڑھنے میں آئی، اس کے مطابق محترم شاہ صاحب کا اصرار تھا کہ ہم بڑے گریڈ والے ہیں اور خاتون اسسٹنٹ کمشنر کم گریڈ کی سرکاری ملازمہ۔ بھئی اگر بات اتنی ہی تھی تو ٹھیک ہے نا! جس کے پاس طاقت تھی، اس نے کرشمہ دکھا دیا۔ ملامت کرنا ہے تو اس نظام کو کریں جو انتظامی افسر کو چھوٹا گریڈ ہونے کے باوجود زیادہ اختیارات دیتا ہے۔ دوسری بات، شاہ صاحب امتحانات میں تدریسی عمل سر انجام نہیں دے رہے تھے، نگرانی ایسے خالصتاً انتظامی فرائض نبھا رہے تھے۔ ایک محترم سرکاری افسر “ہم سب” پر ایک تحریر میں دلائل مکمل کر چکے کہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس معائنے اور ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے تمام قانونی اختیارات ہیں۔ اُس حکمنامے کی رو سے تو شاہ صاحب معاونت کے پابند تھے، نا کہ محاذ آرائی کا حق رکھتے تھے۔

خیر، موضوع یہ واقعہ نہیں کہ اگر اس کی مزید تحقیقات ہوئیں تو سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ غلطی کرنے والے کا محاسبہ بھی ہو جائے گا۔ مجھے تو اس ہیجان آمیز اور منافقانہ رویے کی بات کرنا ہے جو ہم عموماً روا رکھتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی کے وقت ہمارے کندھوں پر چادر اور ہوتی۔ حقوق کی جنگ لڑنا ہوتی تو ہم اجرک بدل لیتے ہیں۔ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرنا ہو، جلسے جلوس منعقد کروانے ہوں تو ہم نادرا کے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ سے عام شہری بن جاتے ہیں۔ پولیس دھر لے تو استاد والا کارڈ سینے پر آویزاں ہو جاتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بھی دوسرے کسی ادارے کی پالیسیوں یا سربراہان کا مذاق اڑانا ہو تو ہم انسانی حقوق والے ہیں۔ جب وہ تلملا کر اپنے جائز و ناجائز اختیارات استعمال کریں تو ہم استاد والی قمیض پھر سے پہن لیتے ہیں۔ اس حقیقت کو واضح ہونا چاہیئے کہ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں ملازمت کرنے والے لوگوں میں استاد بھی ہیں اور نوکری پیشہ افراد بھی۔ لازم نہیں کہ ہر مدرس مولوی میر حسن ایسا استاد بھی ہو۔

دستار کے ہر پیچ کی تحقیق ہے لازم

 ہر صاحبِ دستار معزز نہیں ہوتا

مشال خان کے قتل پر اکسانے والے، منصوبہ بندی کرنے والے استاد کیسے ہو سکتے ہیں؟ جامعات میں اپنی شاگردوں کو جنسی ہراساں کرنے والے استاد کیوں کر کہلا سکتے ہیں؟ تعلیمی اداروں میں سیاست کرنے والوں کو استاد کیسے مان لوں؟ سرکاری کالجوں میں آج بھی طلبا کی کامیابی کا انحصار شام میں استاد کی اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھنے پر ہوتا ہے۔ یہ لوگ قوم کے معمار ہونے کا دعویٰ کیسے کرتے ہیں؟ سندھ کے امتحانات میں نقل میں معاونت کرنے والوں پر بھی استاد ہونے کا گمان ہے؟

سوال کِیا تھا، تعلیم حاصل کرنا کیا ہے؟ جواب مِلا تھا، وہ عمل جو انسانی رویوں اور سوچ میں مثبت تبدیلی لائے۔ آج ہزاروں سکول اور کالج موجود ہیں، دو صد کے قریب جامعات بھی دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ اخلاقی زوال، مفاد پرستی، بے حسی اور نفرت پھر بھی ہمارا مقدر؟ اگر استاد اپنے فرائض سے عہدہ برا ہو رہے ہوتے تو وطن کی پڑھی لکھی لاٹ روشنی کا استعارہ ہوتی۔ پبلک سروس کمیشن ہر سال مقابلے کے امتحانات میں امیدواروں کی بدترین کارکردگی کے بعد رپورٹ میں تعلیمی اداروں کے گرتے ہوئے معیار کا نوحہ لکھتا ہے۔ یہ استاد کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اساتذہ اپنے فرائض ادا کریں، تو ان کے حقوق کے لیے کسی کی وکالت کی ضرورت نہ رہے گی۔

مکرر عرض ہے، حمایت انتظامی افسران کی بالکل بھی نہیں۔ جہاں جہاں وہ حد سے تجاوز کریں، باز پرس ضرور ہونی چاہئیے۔ لیکن یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے کہ مقابلے کے امتحان کا کشٹ کاٹ کر انتظامی عہدہ حاصل کرنے والوں کے پیشِ نظر معاشرے میں اشرف مقام حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔ اور جب قانون و آئین انہیں انتظامی امور سربراہی تفویض کرتا ہے تو اپنے عہدے کا جائز استعمال کرنے پر واویلا کیوں؟

بات اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی ہے۔ استاد ہو یا انتظامی افسر۔ بات اصول کی رہے تو حق جیتے گا۔ انا کی جنگ بنے تو طاقتور کے مقدر میں، کم از کم، وقتی فتح تو ضرور آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).