بچوں سے جنسی زیادتی انسانیت کا تاریک براعظم ہے


ہر بار کوئی بات سامنے آئے، کوئی سانحہ ہو تو لگتا ہے اچھا شاید اب اس سے سبق سیکھ لیں گے مگر سچ یہ ہے کہ ایسا ہوتا نہیں۔ قصور سکینڈل کا بہت چرچا ہوا تھا، پھر کیا ہوا؟اب سرگودھا سکینڈل کا تو نام بھی نہیں سنا ہو گا آپ نے۔ دو چار لوگوں نے لکھا اور بات ختم۔ یہ بات صرف کسی مجرم کو پکڑنے یا اسے سزا دینے تک محدود نہیں ہے۔ جو لوگ بچوں کو اس دنیا میں لاتے ہیں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کو ایسے استحصال سے بچائیں۔ کیا وہ اپنی اس ذمہ داری کو سمجھتے ہیں یا ان کے خیال میں یہ کوئی اہم بات ہے؟ اس جیسے کسی موضوع پر ڈرامہ بن جائے تو لوگوں کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں یا وہ بالکل انکاری ہو جاتے ہیں کہ ایسا تو ہوتا ہی نہیں ہمارے معاشرے میں۔

ضروری نہیں ہے کہ آپ کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جائے یا آپ کو اولاد اس اذیت سے گزرے تب ہی آپ اس کو تسلیم کریں کہ ایسا کچھ ہوتا ہے یا یہ حقیقت ہے۔ کیا اپنے گھر سے لاش اٹھائیں یا اپنے پیارے کو تڑپتا دیکھیں پھر ہی ہم ایسے کسی معاملے کو سنجیدہ لے سکتے ہیں؟ یہ معاملہ غلط طریقے سے چھونے سے لے کر پورن ویڈیو بنانے تک کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ ممکن ہے آپ کی اولاد یا آپ اس کرب سے نہ گزرے ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی اور کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی اولاد سے آپ کا فاصلہ ایسا ہو کہ وہ اس معاملے کو بیان کرنے یا کسی کا نام لینے سے قاصر ہوں کیونکہ زیادہ تر ایسے معاملات میں وہی لوگ استحصال کرتے ہیں جن کا آپ کے گھر میں بہت زیادہ آنا جانا ہو یا آپ ان رشتوں پر بہت اعتبار کرتے ہوں، یا پھر آپ اس بات سے لاعلم ہوں کہ گھر سے باہر جہاں وہ جا رہے ہیں وہ کیسی جگہ ہے، وہاں کس قسم کے لوگ ہیں۔

ان موضوعات پر بننے والے ڈراموں سے کچھ کو کمرشل ازم کی شکایت ہے اور کچھ کو سنسنی خیزی کی، کچھ لوگ بجا طور پر یہ شکایت کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ کسی کہانی میں اسی مجرم کو مسیحا کے طور پر کیوں دکھایا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ کسی ایسے فرد کو مسیحا کے طور پر قبول کرنا مشکل نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ فرض کیجئے کہ کمرشل ازم اور سنسنی خیزی ہے تب بھی کیا اس معاملے کو لے کر کسی کو بولنے کی ہمت مل رہی ہے؟ اگر کوئی ایک بھی ایسی کسی داستان کو پڑھنے ،سننے یا دیکھنے کے بعد بولنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو یہ کامیابی ہے۔ اگر یہ کہانیاں کسی ایک کو بھی بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو ہمارا گلہ ختم ہو جائے گا۔ کیا ان کہانیوں کے بعد والدین اپنی اولاد کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا فرق سکھا سکتے ہیں ؟ کیا وہ خود اپنے بچوں سے اس موضوع بات کر سکتے ہیں ؟ کیا وہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ ایسا ان کے بچے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے یا انہیں بھی سب کی طرح ایک اندھا اعتبار ہی رہے گا کہ یہ دنیا ان کی اولاد کے لیے اتنی ہی محفوظ ہے جیسی وہ سوچتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا۔ اقدار، روایات، شرم و حیا وغیرہ وغیرہ کا نام لے کر اس موضوع سے بھاگنا بےکار ہے۔ یہ سب یہاں ہو رہا ہے، اسی معاشرے ہو رہا ہے جس کی اعلی اقدار پہ آپ ہم سے روز جھگڑتے ہیں ۔

اس کرب کا بجا طور پر اندازہ وہ انسان خود ہی کر سکتا ہے جو اس تکلیف سے گزرا ہو کیونکہ ایک مدت تک اس کے اندر کا وہ خوف ختم نہیں ہو پاتا۔ اس کے نفسیاتی اثرات اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ ہر کسی کے لیے اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کانٹے آپ کو نہ چبھیں تو آپ کسی کی تکلیف کو ماننے سے ہی انکار کر دیں۔ اس معاملے پر بولنا، ایسے فرد کی نشاندہی کرنا اور آواز اٹھانا آسان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات خوف اس قدر ہوتا ہے کہ متاثرہ فریق کچھ بول ہی نہیں سکتا۔ بعض اوقات آپ کے پاس سننے کا وقت نہیں ہوتا۔ اگر اولاد کسی رشتے دار یا کسی فرد کے نام پر الجھن محسوس کرے، غصہ میں آ جائے، اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کرے ، اس کے پاس جانے سے گھبرائے تو آپ کو رویہ کی اس تبدیلی پر سوچنا بھی چاہیئے اور دوستانہ ماحول میں اس بچے سے بات بھی کرنی چاہیئے۔ شاید اس طرح آپ کسی کو بچا سکیں۔ اور وہ لوگ جو کہیں نہ کہیں اس کا شکار ہوئے یا انہوں نے کسی پیارے کو دیکھا انہیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ مسائل سے بھاگنے یا نظر چرانے سے کوئی حل نہیں نکلتا۔مسئلے تب حل ہوتے ہیں جب ان پر بات کی جائے، جب ان کا سامنا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).