کنڈیارو سے گوادر تک، محنت کش کا لہو ارزاں ہے


شاید گوادر میں مرنے والے مزدور اپنے گھر کے واحد کفیل ہوں۔ ایک مزدور کے معاشی حالات کیا ہوں گے اور اگر وہ واحد کفیل نہ رہے تو پیچھے رہ جانے والوں کی مشکلات کتنی بڑھ ہوں گی۔ یہ بھی ہو سکتا کے کہ وہ واحد کفیل نہ ہوں، اس صورت میں بھی ان سے جڑے رشتوں، امیدوں اور خوابوں کا کیا ہو گا۔ یہ تصور ہی بےانتہا تکلیف دہ ہے۔ اگر ہم اپنے لیے کام کرنے والوں کی حفاظت نہیں کر سکتے، ایک جگہ رہنے والوں کا تحفظ نہیں کر سکتے تو سب دعوے بےکار ہیں۔ جن منصوبوں کا چرچا ہے کہ وہ بڑی ترقی اور خوشحالی لائیں گے اسے دیکھنے کے لیے یہاں سب کو سلامت بھی رہنا چاہیئے۔ کسی نے کہا کہ وہاں موٹرسائیکل سوار آئے انہوں نے کہا ہاتھ اوپر کر کے لائن بناؤ، جب لائن بنائی تو گولیاں مار دیں۔ کسی غریب کو مار کر آپ کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے، اس ملک میں اتنے لوگ ہیں جو غربت کی اسی سطح پر ہیں جہاں ان کی جگہ اور لوگ لیتے رہیں گے۔ کسی کو بھی مار کر اپنا مقصد تو حاصل نہیں کیا جا سکتا البتہ خود سے نفرت کرنے کا جواز ضرور مہیا کر دیا جاتا ہے۔

اس مزدوری کی مد میں ملنے والی رقم سے کچھ امیدیں بندھی ہوتی ہیں، کچھ ضروریات کے پورا ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں کچھ خواب ہوتے ہیں، کچھ ارادے جو باندھے ہوں، جن کی تکمیل کی خواہش ہو۔ وہ دعائیں جو ان کی سلامتی کے لیے کی جاتی ہیں، وہ آنسو جو ان کی یاد میں آنگن میں بیٹھے بہائے جاتے ہیں، وہ امید جو کسی کے لوٹ آنے کی ہوتی ہے، وہ توقعات جو اُس سے لگائی ہوتی ہیں، یوں اچانک بلاجواز کسی سے جینے کا حق چھین لینا، اس سے بڑا جرم اور کیا ہو سکتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والے بھی اس اچانک ہو جانے والے سانحے کو بھلا نا پائیں، اور جو مارا گیا شاید اس کی آنکھوں کی حیرت کبھی بھلائی نہ جا سکے کہ اسے کس جرم میں مارا گیا۔ ایسے اچانک مرنے والوں سے سیّد کاشف رضا کی ایک نظم یاد آتی ہے

اچانک مر جانے والوں کے نام

موت ایک اہم کام ہے

اسے یک سُو ہو کر کرنا چاہیئے

یا سارے کام نمٹا کر

کسی کاروباری سودے سے پہلے

انتخابی مہم کے دوران

اور نظم کے وسط میں

موت نہیں آنی چاہیئے

موت سے پہلے

ارادے پورے کر لینے چاہیئں

انہیں دریا میں پھینک دینا چاہیئے

یا انہیں وصیّت میں لکھ دینا چاہیئے

ایسا کرنے والے

اُداس ہو کر مرتے ہیں

اور اُن کی موت

اُتنی افسوسناک نہیں ہوتی

جتنی اُن کی

جو موت سے پہلے اپنے کام نہیں نمٹاتے

اور حیران ہو کر مر جاتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).