امپائر کی انگلی اور ’’مثبت نتائج”


دو ہی گھڑیاں زندگی میں مجھ پہ گزری ہیں کٹھن

اک تیرے آنے سے پہلے، اک تیرے جانے کے بعد

یہ خوبصورت شعر عاشق کے دل میں ہجروفراق کا درد عیاں کرتا ہے۔ اور اگر آپ کو عملی سیاست سے دلچسپی ہے تو اندازہ ہو گا کہ اہلِ سیاست، اہلِ عشق سے بھی زیادہ مظلوم ہیں۔ جان لیوا انتظار کے بعد عاشق تو وصالِ یار کے مہربان لمحوں سے لطف اندوز ہوتا ہے مگر سیاست دان کی مشکلات الیکشن جیتنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتیں۔ اُس کی وجہ گروہِ رقیباں کا ردِ عمل ہے۔ پاکسانی سیاست کے ناگوار تجربات سے گزرنے والے سیاست دان اپنی شکست تسلیم نہیں کرتے۔

ایک طرف جیتنے والے کی یہ جائز توقع ہے کہ اقتدار کی دیوی کے ساتھ وصال کے خوبصورت لمحوں کا لطف اٹھائے‘ لیکن ہوتا کچھ اور ہے۔ اگر اِن قیمتی ساعتوں کے درمیان، رقیبانِ روسیاہ، خلوت کدے کے باہر مسلسل نعرہ بازی میں مصروف رہیں یا دروازہ توڑ کر اندر آنے کی کوشش کریں تو مہربان وقت بھی بے لطف ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، الیکشن ہارنے والے کے حالات اور بھی بُرے ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں شکست  تسلیم کرنے کی روایت نہیں۔ قیادت حمایتیوں کو یقین دلاتی ہے کہ اُن کی جیت ایک سازش کے تحت ہار میں تبدیل کی گئی۔ یہ رویّہ دل شکستگی کا تریاق سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر سیاسی رہنما بہت خوش گمان ہوتے ہیں۔ پارٹی کی کارکردگی اگر توقعات کی بلندیوں تک نہ پہنچے تو دھاندلی کے شک کا جرثومہ ذہن میں کھلبلی مچائے رکھتا ہے۔ نتائج دیکھ کر بھی کیفیت یہی رہتی ہے ”دل ہے کہ مانتا نہیں‘‘۔ جس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک حکمران ٹی وی پر بیٹھ کر ایک سیاسی رہنما سے 2002ء کے الیکشن میں کھلے بندوں نشستوں کی تعداد بارے سودا گری کا اعتراف کریں، وہاں الیکشن کی شفافیت پر شُبے کے سائے ختم نہیں ہو سکتے۔

ایسی صورت میں شکست کا ازالہ کیسے ہو؟ کیا طریقۂ کار اپنایا جائے کہ مسندِ اقتدار کے ناجائز قابضین بے دخل ہو جائیں۔ سوچ کا دھارا اس طرف مُڑ جائے تو نیرنگیٔ خیال عجب کرشمے دکھاتی ہے۔ سیاسی اُفق پر ”حسنِ طلب‘‘ کی ایک نئی قوسِ قزح طلوع ہوتی ہے۔ گزشتہ الیکشن ہی کو لیجئے۔ اِسی حسنِ طلب کے طفیل اُردو زبان کو نئی اصطلاحیں اور ترکیبیں عنایت ہوئیں۔ ”الیکشن چوری ہو گیا‘‘۔ ”اورکچھ نہیں ہمیں صرف انصاف چاہیے‘‘۔ ”ایک ایک کرکے سب کی وکٹ گرے گی‘‘۔ ”یقین ہے عدالت اٹھارہ کروڑ عوام کو مایوس نہیں کرے گی‘‘۔ ”امپائر کی انگلی اُٹھنے کو ہے‘‘۔ ”ووٹ کے تھیلے کھلتے ہی دھاندلی کی بلی باہر آ جائے گی‘‘۔

دھاندلی کے خلاف دھرنے میں حسنِ طلب کے اِن موتیوں کی بارش ہوتی رہی۔ اہلِ صحافت نے لطف اُٹھایا اور پھر عدالتی کمیشن نے الیکشن کا جائزہ لیا۔ فیصلہ آیا مگر تشنگی باقی رہی۔ عوام کی زندگی کچھ دیر کے لیے بے رنگ ہوئی کہ پاناما کا قصہ شروع ہو گیا۔ چوری چکاری کے نئے الزامات سے گرمیِ بازار میں اضافہ ہوا تو عدالت نے از خود نوٹس لیا۔ کچھ ہفتے میڈیا کی فضا چکا چوند رہی پھر اس کا بھی فیصلہ آیا۔ چشمِ فلک نے عجیب نظارہ دیکھا۔ دونوں فریق مٹھائیاں بھی بانٹتے رہے اور مطمئن بھی نہ ہوئے۔ فلم ابھی باقی ہے۔ جے آئی ٹی مصروفِ عمل ہے اور ”انصاف‘‘ کی توقع کا الائو ایک بار پھر روشن ہو چکا ہے۔ قصہ مختصر حسنِ طلب کا لانگ مارچ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس سفر میں نئے پڑائو آئیں گے۔ عوام کی بے رونق زندگی میں چہل پہل ختم نہیں ہو گی۔ اس بار آرکسٹرا نئے سازوں کے ساتھ نئی دُھنیں ترتیب دے رہا ہے۔ جمہوریت کی روح تو یہی ہے کہ ”سہاگن وہی جو پیا من بھائے‘‘ مگر نئی دُھن کا پیغام قدرے مختلف ہے۔ اب پیا کے من تک رسائی حاصل کرنے کے لیے صداقت اور امانت کے پل صراط کو پار کرنے کی شرط بھی شامل ہونے کا امکان ہے۔ کچھ عناصر نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ سویلین حکومت کا اعتماد اُسے ”قومی مفاد‘‘ کے صراطِ مستقیم سے دُور کر دے گا۔ سیاسی طاقت کے لیے ”شکستہ ہو تو عزیز تر ہے‘‘ کی پالیسی جاری رہنی چاہیے۔ امپائر کی انگلی اُٹھنے کا امکان اپوزیشن کے تیشوں کی دھار کو کُند نہیں ہونے دیتا۔

حسنِ طلب کی سیپ نے اُردو زبان کو جو نئے تحفے دیے ہیں، اُن میں ”امپائر کی انگلی‘‘ کا گوہرِ تابدار بہت دیر تک روشنی بکھیرے گا۔ اس لیے بھی کہ امپائر کون تھا، اُس کی شناخت کے بارے میں دلچسپ ابہام ختم نہیں ہو گا۔

مرحوم ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں حسنِ طلب کی ایک ترکیب ”مثبت نتائج‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔ یہ ترکیب اس لیے یاد آ رہی ہے کہ میری زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ اُس کے ساتھ جڑا ہے۔ 1982ء کی وہ سرد رات کبھی نہ بھولے گی۔ سونے کی تیاری تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دُوسری طرف ملتان آرٹس کونسل کے اہلکار کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی ”سر غضب ہو گیا، ڈرامہ چل رہا تھا، کسی ایکٹر نے ضیاء الحق کے خلاف کچھ بول دیا۔ پولیس نے گھیرا ڈال کر گرفتاریاں کی ہیں۔ سُنا ہے ایکٹروں کو فوج کے ہیڈ کوارٹر لے گئے ہیں‘‘۔

میری جان نکل گئی۔ ڈرائیور چھٹی کر چکا تھا۔ گاڑی نکالی اور دفتر پہنچ گیا۔ چوکیدار چابیوں کا گچھا تھامے مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میری پریشانی پوری طرح عیاں تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ خوف کا عالم اور تیزی سے دھڑکتا ہوا دل۔ ہر آہٹ پہ محسوس ہوتا تھا کہ ابھی کوئی جیپ آئے گی اور مجھے ساتھ بیٹھنے کا کہا جائے گا۔ اس حالت میں مذکورہ ڈرامے کے سکرپٹ کی فائل تلاش کرنا شروع کی۔

پس منظر کی وضاحت کرتا چلوں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد نوے دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ ضیاء الحق کو یاد دلایا جاتا تھا۔ حکومت نے پہلے تو انگریز کا فارمولا استعمال کیا۔ عوام کو بتایا گیا کہ ابھی آپ مرکزی اور صوبائی سطح پر نہیں بلکہ صرف لوکل گونمنٹ کے اہل ہیں۔ 1979ء کے الیکشن کے بعد ضلع کونسل اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمین‘ صوبائی اسمبلیوں کی عمارت میں بٹھا دیے گئے۔ یہ قدم عوامی توقعات پر پورا نہ اُترا تو چُنے ہوئے عمائدیں مجلسِ شوریٰ میں نامزد ہوئے۔ یہ بھی الیکشن کا متبادل نہ بن سکا۔ الیکشن کا سوال باقی رہا۔ انہی دِنوں ضیاء الحق نے غالباً کسی غیر ملکی ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن نہیں ہو سکتے کیونکہ ابھی انُہیں ”مثبت نتائج‘‘ کی توقع نہیں۔ وہ زمانہ مختلف تھا۔ ٹیلی وژن صرف سرکاری خبر نشر کرتا تھا اور اہلِ صحافت اور اہلِ ظرافت کے درمیان بھی ایک حدِ فاضل موجود تھی‘ مگر ”مثبت نتائج‘‘ کی نئی اصطلاح دونوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنی‘ اور حسنِ طلب کو ایک نیا رُوپ دے گئی۔

اپوزیشن نے ایم آر ڈی کی تحریک شروع تو حکومت نے ‘اصلاحِ معاشرہ مہم‘ کے تحت سخت گیر رویہ اپنا لیا۔ میں اُن دنوں ملتان میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھا۔ ڈپٹی کمشنر زاہدِ خشک تھے۔ آرٹس کونسل میں ڈرامے بند ہوئے تو بہت دُکھ ہوا۔ دوبارہ شروع تو ہو گئے مگر اِس شرط کے ساتھ کہ سکرپٹ پڑھنے کے بعد اجازت نامہ میرے دستخط سے جاری ہو گا۔

آرٹس کونسل میں جو کچھ ہوا، ذمہ داری میری تھی۔ سکرپٹ کی فائل تلاش کر رہا تھا کہ قابلِ اعتراض مواد پڑھ سکوں۔ ہاتھ پائوں پھولے ہوئے تھے۔ فائل نہ ملی تو آرٹس کونسل فون کیا۔ ڈرامے کے دوران قابلِ اعتراض مکالمے کی تفصیل پوچھی۔ پتا چلا کہ ایک situation میں لڑکا لڑکی شادی کرنا چاہتے تھے مگر دادا جان کی خواہش تھی کہ لڑکی کی شادی کسی اور سے ہو۔ دادا کو منانے کے لیے ایک کردار مشورہ دیتا ہے کہ خاندان کے تمام لوگ جمع ہیں‘ کیوں نہ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ابھی الیکشن کروا لیا جائے۔ جواب میں ڈکٹیٹر مزاج دادا کہتا ہے، ”میں الیکشن اُس وقت تک نہیں کروا سکتا جب تک مثبت نتائج کا یقین نہ ہو جائے‘‘۔

جو لوگ سرائیکی خطے سے تعلق نہیں رکھتے یا اُنہیں وہاں رہنے کا اتفاق نہیںہوا، وہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اُس مٹی کے اندر کس قدر قدرتی حسِ ظرافت موجود ہے‘ مگر یہ ظرافت اپنے اندر ایک بغاوت اور تعمیری سوچ رکھتی ہے۔ قصہ مختصر میری جان اسِ لیے چھوٹ گئی کہ سکرپٹ میں یہ ڈائیلاگ موجود نہیں تھے‘ اور ملتان کے فنکاروں نے نتائج کی پروا کیے بغیر اُنہیں از خود شامل کیا تھا۔ اِس انحراف پر اُنہیں کچھ سزا تو بھگتنا پڑی مگر جلد خلاصی ہو گئی۔

یہ کالم ایک لطیف پیرائے میں لکھا گیا ہے۔ اِس لیے کہ حساس ذہن رکھنے والے قاری کو کانٹوں پہ گھسیٹنا مناسب نہیں۔ گاڈ فادر ناول کے شروع میں کہا گیا کہ ہر بڑی مالیاتی کامیابی کے پیچھے ایک جرم چھپا ہے مگر اس تحریر کے آخر میں یہ لکھنے کو دل چاہتا ہے کہ ”امپائر کی انگلی‘‘ ہو یا ”مثبت نتائج‘‘۔ یہ اصطلاحیں ہماری سیاست کے اُس المیے کی نشاندہی کرتی ہیں جو صرف اہلِ نظر کو دکھائی دیتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood