ایم ایم اے حکومت کے دوران صوبہ سرحد میں کس طرح انتہا پسندی پھیلی؟


شریعت کونسل کی حسبہ بل پر عمل درآمد کی میٹنگ
بائیں سے دائیں: ڈپٹی چیئرمین مفتی کفایت اللہ، چیئرمین مفتی غلام الرحمان، چیف منسٹر اکرم خان درانی، سراج الحق، وزیر قانون ظفر اعظم، مولانا شجاع الملک، اور پروفیسر محمد ابراہیم

اسمبلی فلور پر ایم ایم اے کے ایم پی اے حسبہ بل کی اردو کاپی کا مطالعہ کرتے ہوئے۔ اسمبلی کا اجلاس دو مرتبہ ملتوی کیا گیا تھا کیونکہ حسبہ بل ایکٹ انگریزی میں تھا لیکن پھر اس کا جماعت اسلامی کے مرکز میں اردو ترجمہ کیا گیا اور اسمبلی میں پیش کیا گیا۔


ایم ایم اے کی جیت کے بعد صوبائی اسمبلی کا ایک منظر

ایم ایم اے کے سارے ممبران صوبائی اسمبلی پہلی بار منتخب ہوئے تھے اور ان کے لئے ہر روز جماعت اسلامی کے مرکز اسلامی ایک تربیتی اجلاس پروفیسر خورشید احمد اور قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ملک منعقد کیا کرتے تھے کیونکہ ان سب ممبران کو صوبائی اسمبلی کے رولز اور طریقہ کار کا علم نہیں تھا۔ ان کو پوائنٹ آف آرڈر، بل پیش کرنے اور اسمبلی کے فلور پر گفتگو کرنے کا اسلوب معلوم نہیں تھا۔


سنہ 2004: ایم ایم اے کے کچھ لیڈر تصویر اتروانے کے خلاف تھے اس لئے وہ کیمرے سے بچنے کی خاطر پورے چہرے پر نقاب لیتے تھے۔


سنہ 2004: افغانستان پر امریکی حملے کے بعد امریکی مصنوعات کے خلاف مہم چلی اور کوکا کولا کی جگہ لینے کے لئے مکہ کولا کے نام سے مشروب مارکیٹ میں لایا گیا۔


ایم ایم اے حکومت سے پہلے سینما پر ایسے پوسٹر لگائے جاتے تھے۔

ایم ایم اے کی حکومت کے بعد عورتوں کی تصاویر ہٹا دی گئیں۔ یہ تصویر پشاور کے سینما کی ہے۔ پکچر ہاؤس نامی یہ سینما قیام پاکستان سے قبل کا ہے۔

اس پوسٹر میں ایک شخص کچھ پوسٹر اتار رہا ہے اور کچھ پوسٹر پر خواتین کے چہروں پر سیاہی پھیر دی گئی ہے تاکہ اس جگہ پر حملے سے بچا جا سکے۔ میں (مجید بابر) نے سراج الحق صاحب سے پوچھا کہ ان تصویروں پر آپ سفید چونا کیوں نہیں پھروا دیتے ہیں۔ سراج الحق صاحب نے جواب دیا کہ کالی سیاہی تذلیل اور ریجیکٹ کرنے کی نشانی ہے۔

سنہ 2004: آرٹسٹوں کو چہرے کے بغیر تصاویر بنانے کا حکم دیا گیا۔ آرٹسٹوں نے فنی طریقے سے اس طرح کے پوسٹر بنا کر حکومت کے احکامات مانے بھی اور ان کی فنی طور پر دھجیاں بھی اڑا دیں۔

ایم ایم کے جیتنے کے بعد سب سے پہلا کام جو ہوا وہ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے پشاور یونیورسٹی کے سارے گیٹوں کے سامنے سڑک پر امریکی جھنڈے بنانے کا تھا۔ یہ اس نیت سے بنائے گئے تھے کہ یونیورسٹی میں آمد و رفت کے وقت اس پر سے طلبہ گزریں گے تو امریکہ کی توہین ہو گی۔

اس کام کو اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے سربراہ نے کہا کہ ایمان کا آخری درجہ یہ ہے کہ دل میں امریکہ سے نفرت ہو۔


ایم ایم نے سکولوں میں پینٹ شرٹ پر پابندی لگائی کہ کسی نجی یا سرکاری سکول میں طلبہ پینٹ کوٹ اور شرٹ مت پہنیں۔

اس پر بشیر بلور نے اپنے خطاب میں اسمبلی فلور پر کہا تھا کہ قائد اعظم ایک سیکولر پاکستان کہتے تھے اور جو اسمبلی میں تصویر ہے اس میں جناح صاحب نے بھی پینٹ کوٹ اور شرٹ پہنے ہوئے ہیں۔ پھر اس کو بھی یہاں سے ہٹاؤ۔

اس وقت سینئیر وزیر سراج الحق نے جواب میں کہا تھا کہ آپ جناح کی شلوار قمیض والی تصویر پیدا کرو ہم اس کو یہاں لگا دیں گے۔

اس کے بعد ہر جمعے کی نماز کے بعد پشاور پولیس کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ جناح پارک میں عین اسی جگہ پر ویڈیو آڈیو میوزک کیسٹ اور سی ڈیز لا کر جلائی جائیں جس جگہ پر قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں پہلے دورہ پشاور میں خطاب کیا تھا۔

پشاور کی پولیس اس کو فحاشی کا خاتمہ اور ایم ایم اے اس کو صفائی پشاور مہم کہتی تھی۔ یہ باقاعدگی سے ہر جمعے کی نماز کے بعد جناح پارک میں ایک عوامی شو ہوتا تھا۔

سابق جہادی کمانڈر اور جماعت اسلامی کے رکن صابر اعوان نے اس پوری صفائی پشاور مہم اور کیسٹ جلانے اور پوسٹروں پر سیاہی ملنے کی مہم کی قیادت کی۔ ان کا دستہ جی ٹی روڈ پر کارخانو مارکیٹ تک جتنے بھی بورڈ تھے اس پر موجود مرد و زن کی تصاویر ہٹاتا تھا۔

پشاور کے پی سی ہوٹل میں چالیس سال پرانا ایک مے نوشی کا بار تھا۔ جان محمد پچھلے تیس سال سے اس اس بار میں کام کرتا تھا۔ ایم ایم کے حسبہ ایکٹ اور شریعت لا کے بعد اس بار کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا۔

پھر اس کے بعد جان محمد ہوٹل کے لان اور لابی میں ہر وقت موجود ہوتا تھا اور جس کو بھِ ڈرنک کی ضرورت ہوتی تو وہ باہر کھڑی اپنی گاڑی سے اپنے گاہکوں کو شراب دیتے تھے۔

جس رات اس بار کو بند کیا گیا میں نے خود اپنی آنکھوں سے جان محمد کو روتے دیکھا تھا۔ میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں۔ اس نے کہا میں نے تیس سال تک غیر ملکی لوگوں کو کہا کہ پشتون اور پشاور لبرل شہر ہے اور لبرل لوگ ہیں۔ اب میں ان کو کیا جواب دوں گا۔

یہ دو سو سال پرانا ڈبگری بازار ہے۔ یہاں پر موسیقی سے وابستہ لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ بالاخانے پر ڈھول ٹانگا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ بالا خانہ کھلا ہے۔ یہ اس بازار کے بند ہونے سے ایک ہفتہ پہلے کی تصویر ہے۔

 

لیکن پھر ان کو کہا گیا کہ اپنے بالا خانوں کے دروازے بند رکھیں اور موسیقی کے آلات باہر نا ٹانگے جائیں

 

پھر ملا محمد عمر نامی ایک مقامی مولانا کے ذریعے صفائی پشاور نامی ایک مہم چلائی گئی۔ ڈبگری بازار کے ڈھائی ہزار سے زیادہ موسیقی کے پیشے سے وابستہ افراد کو دربدر ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔

2004 میں پشاور پریس کلب کے سامنے صرف ایک درجن مسیحی اکٹھے ہوئے اور طالبان سٹائل کے شریعت لا کے خلاف مظاہرہ کیا۔

سنہ 2004 میں صدارتی پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ یافتہ آرٹسٹ ارباب سردار نے پورٹریٹ پینٹنگ کو ہٹا کر لینڈ سکیپ تصاویر سے اپنے ہوم سٹوڈیو اور گیلری کی تصاویر کو مزین کر لیا۔


مجید بابر ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں جو چیک ریپلک کے شہر پراگ میں واقع پشتو زبان کے بین الاقوامی ریڈیو مشال کے لئے اس وقت کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ نیویارک ٹائمز اور دیگر امریکی اور یورپی میڈیا اداروں کے لئے افغانستان اور پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں۔

مجید بابر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مجید بابر

مجید بابر ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں جو چیک ریپلک کے شہر پراگ میں واقع پشتو زبان کے بین الاقوامی ریڈیو مشال کے لئے اس وقت کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ نیویارک ٹائمز اور دیگر امریکی اور یورپی میڈیا اداروں کے لئے افغانستان اور پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں۔

majeed-babar has 2 posts and counting.See all posts by majeed-babar