میری ماں شاید مجھ سے محبت نہیں کرتی ہے!



اس سے بد تر اور کیا ہوگا کہ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر لائے گئے تمام تحفے لینے سے آپ کی ماں انکار کر دے اور آپ کی دادی کو بھی تمام تحائف قبول کرنے سے منع کر دے۔ ہاں یہ میرے ساتھ ہوا آج۔ اس سب نے میرے وجود کو جنجھوڑ دیا اور میں بے اختیار آبدیدہ ہوگیا۔ میں نے ان کے سامنے غم و غصے کا اظہار کیا مگر سب بےسود۔ وہ ناخوش ہیں کہ میں گھر پر صحیح طرح وقت نہیں دیتا، میں انہیں گھر پر میسر نہیں ہوتا مگر دل کی گہرائیوں سے میں اپنے والدین کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ اس سب کی وجہ میرے کام کی نوعیت اور دیر رات تک کے اوقات ہیں، میں اکثر ہفتہ اتوار کو بھی کام کرتا ہوں اور اس جدید دنیا میں کاروباری زندگی کے تقاضے والدین کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے۔

سوشل میڈیا ایک کمال کی چیز ہے، یہ ہمیں جوڑتا بھی ہے اور کاروبار کے لئے فاصلے کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے مگر اپنی تمام تر اچھائیوں کے باوجود یہ ہماری زندگیاں اور معاشرہ تباہ کر رہا ہے کیونکہ ہم اس کا غلط استعمال ذاتی مفاد کے ساتھ ساتھ کاروباری مفاد کے لئے بھی کرتے ہیں۔ یہاں دو باتیں ہیں کہ کیا سوشل میڈیا ہماری معاشرتی اقدار اور دفتری روٹین کو تباہ کر رہا ہے؟ میں سب سے سوال کرنا چاہتا ہوں جو دیر تک کام کرتے ہیں، جو ہفتے کے آخر میں کام کرتے ہیں، گھر واپس آکر وہ اپنے باس یا ٹیم کو ہر وقت واٹس ایپ گروپ یا ای میلز پر جواب دیتے ہیں۔ میرے معاملے میں تو یہ سب حقیقت ہے، میرے کوئی مخصوص دفتری اوقات کار نہیں ہیں۔ ہاں مجھے وہاں وقت پر پہنچنا ہوتا ہے مگر واپسی کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ میں گھر آتا ہوں یا جب میں ڈرائیو کر رہا ہوتا ہوں یا ہفتہ وار چھٹیوں میں بھی میں گھر سے آفس کا کام کر رہا ہوتا ہوں تو ایسے میں باس کو “ناں” کہنے کا کوئے تصور نہیں ہے۔ میرے کوئی دس واٹس ایپ گروپ ہیں اپنے کلائنٹس اور آفس کی ٹیم کے ساتھ۔ ایسے میں آپ کے کلائنٹ اور باس کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے جواب مل جانا چاہیئے۔ مجھے شام کے چھ، سات بجے یہاں تک یہاں تک کہ آدھی رات کو بھی ای میلز آتی ہیں۔ اگر میری ماں آ کر مجھ سے کچھ کرنے کا کہیں تو میں تھوڑی اونچی آواز میں بھی بول جاتا ہوں اور تلخ بھی ہو جاتا ہوں، میں ان کے لئے کبھی میسر نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں کہیں لے کر جاتا ہوں یا ان کے ساتھ کہیں جاتا ہوں۔ میرے خیال میں میرے والد کاروباری دنیا کے جھمیلوں کو سمجھتے ہیں مگر وہ بھی کبھی کبھار کہہ دیتے ہیں کہ “بیٹا چوبیس گھنٹے کون کام کرتا ہے”۔ میں نے اپنے رشتہ داروں سے ملنا چھوڑ دیا ہے، ہاں میری کوئی سماجی زندگی نہیں ہے مگر اس میں میرا کیا قصور ہے؟ مجھے آفس کی جانب سے اچھے پیسے ملتے ہیں، میں اچھا کماتا ہوں اور میرے خیال میں اپنے ماں باپ کا مثالی بیٹا ہوں جو بین الاقوامی کمپنی میں خوب کماتا ہے مگر ان کے لئے میسر نہیں ہے!

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس سب میں میرا قصور کیا ہے؟ واٹس ایپ کو دفتری امور میں کون لایا؟ کب ہماری توجہ ای میل سے واٹس ایم کی جانب مبذول ہو گئی؟ کون سا قانون کہتا ہے کہ ہم چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن کام کریں؟ نجی شعبے پر حکومت یا کسی اور محکمے کا کوئی زور نہیں چلتا۔ اگر ہم اس کے خلاف بولیں تو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں اور میرے ماں باپ کو اچھا نہیں لگے گا کہ ان کا بیٹا سارا دن گھر میں پڑا سوتا رہے یا نیٹفلکس دیکھے۔

میرا زور اپنے آفس پر نہیں چلتا مگر ہاں میں اپنے والدین کو سمجھا سکتا ہوں کہ اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہی سب تو آپ لوگ چاہتے تھے مجھ سے اور اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ میرا آفس کیوں میری زندگی کی فکر کرے گا؟ یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے اور حکومت پر الزام لگانا ویسے ہی مضحکہ خیز ہے۔ آخر میں مَیں یہی کہوں گا کہ قصور میرا ہی ہے کیونکہ جب میں دس سے بارہ گھنٹے تک کام کرتا ہوں اور چوبیس گھنٹے دفتر کے لئے دستیاب رہتا ہوں تو اس سے میرا رویہ تبدیل ہو سکتا ہے، آپ کسے بھی ماہر نفسیات سے پوچھ لیں۔ جب ہفتہ وار چھٹیوں میں بھی دفتری کام کرنا پڑے تہ ایسے میں مَیں کیا کہہ سکتا ہوں ؟ میرا دل کرتا ہے کہ سب چھوڑ چھاڑ کے یہاں سے بھاگ جاؤں۔ سماج اس بات کو سمجھ لے کہ  یہ مشینی زندگی اور غیر انسانی کاروباری اصول، اس کے نتائج ہمیں بھگتنے پڑیں گے۔ آج میری ماں نے تحفے لینے سے انکار کیا ہے اور کل آپ سب کو بھی گھر پر اس طرح کے ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).