دیوتا کا آنسو سوکھتا ہے


شدید دھوپ میں گاڑی پارک کرنے کے بعد جیسے ہی باہر قدم رکھا تو موسم کا اندازہ ہوا۔ گرم ہوا اور حبس نے استقبال کیا۔ پچاس ساٹھ قدم کے بعد سامنے وہ خوب صورت منظر تھا جسے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ گرم ہوا کبھی اونچا اڑانے کے لیے بھی چل سکتی ہے۔ کٹاس راج کے سبزی مائل نیلے پانیوں والا تالاب بغیر کیمرے کے بھی اتنا پیارا ہو گا یہ پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔ ہم لوگ تصویر پر بھروسہ کرتے ہیں، اسے دیکھتے ہیں، سراہتے ہیں، آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں لیکن دور کہیں دل میں یہ سوچ ضرور ہوتی ہے کہ یار، خدا معلوم اصل منظر ایسا ہو گا بھی یا نہیں، یہ جو تصویر دیکھتے ہی دیوانگی چھا گئی ہے، وہاں جانے پر کہیں مایوسی میں نہ بدل جائے، یہ خوبصورت ایفیکٹس تو انگوٹھے کی ایک جنبش کی مار ہیں، بھلا پانی کبھی ایسے رنگوں کا ہو سکتا ہے؟

لیکن ہوا، پانی عین اسی رنگ کا تھا کہ جیسے تصویروں میں دکھتا تھا۔ باوجود موسم شدید گرم ہونے کے، باوجود غیر ضروری پسینے ٹپکانے کے، باوجود ادھر ادھر کھجلانے کے، باوجود تھکن کا احساس ہونے کے، پانی جو تھا وہ عین ویسا ہی نظر آتا تھا جیسے تصویروں میں دیکھا تھا۔ پھر اس کا رعب ایسا تھا کہ لاکھ چاہنے کے باوجود اس منظر کا حصہ بننے کی ہمت نہیں ہوئی، تالاب میں اترنے کی جرات پانیوں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والی بات تھی۔ ایک سانولا سا چھوٹے قد کا تل چاؤلی داڑھی والا ملتانی جسے اپنی جڑوں کا بھی ٹھیک سے معلوم نہ ہو، وہ کیسے ان صدیوں پرانے مقدس پانیوں میں اترنے کی جرات کر سکتا تھا، تو بس نہیں کی۔

وہاں ہر دیوار میں کروڑوں سال پرانی تاریخ سانس لے رہی تھی۔ کٹاس راج مندر تین چار ہزار برس پرانا ہے، مہابھارت جو تقریباً پانچ سو قبل مسیح کی تصنیف ہے، اس میں بھی اس عبادت گاہ کا ذکر ملتا ہے، البیرونی “کتاب الہند” کے مطابق کچھ عرصہ یہاں رکا، سنسکرت سیکھی، زمین کا ریڈیس معلوم کیا، کچھ نہ کچھ اور بھی کیا ہو گا تو بس فارغ ہوا اور آگے نکل گیا۔ کئی جوگی، سادھو، سنت، فقیر بھی ادھر آسرا کیے رہتے پھر اپنا ہالہ چھوڑ کر اگلی منزل کو چلے جاتے۔ تو وہ جو ہر دیوار میں کروڑوں سال پرانی تاریخ سانس لیتی ہے، وہ ان میں استعمال کیے گئے پتھر کی بدولت ہے۔ وادی سون، یا وہ جو موٹر وے کے ساتھ کلر کہار کی پٹی شروع ہوتی ہے وہ پوری بیلٹ لاکھوں سال پرانے فوسلز اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ بس وہ پورا علاقہ بذاتہ فوسل ہے۔ وہاں موجود پہاڑ، مٹی، غار، پتھر سبھی چیزیں قبل از تاریخ کی داستانیں محفوظ کیے بیٹھے ہیں۔ اب وہ پتھر جن سے پورا مندر بنا، اس کی بہت زیادہ سپلائے انہیں آس پاس کے علاقوں سے ہوئی، تو ان دیواروں میں چنے پتھروں کے اندر آج تک پتوں، کیڑوں، جانوروں کی ہڈیوں وغیرہ کے فوسل موجود ہیں۔ اور وہ دیواریں بات کرتی ہیں۔ وہ اپنی پرہیبت موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری ایک ایک اینٹ کو غور سے دیکھ لو، ہمارا ہر کونہ چھان مارو، مجال ہے تمہیں کہیں آرکیٹیکچر کے کسی اصول کی پامالی مل جائے، کوئی ٹیڑھ نظر آ جائے، کوئی کجی ہو جو تم ہماری قدامت میں تلاش کر سکو۔ اور سننے والا جب کان لگا کر آنکھیں جماتا ہے تو اسے یہ گیان ملتا ہے کہ دیواریں سچ بولتی ہیں۔

ہر مذہب کی اپنی مائتھولوجی ہوتی ہے، مختلف قصے کہانیاں ہوتے ہیں۔ کہنے والوں نے کہا اور سننے والوں نے سنا کہ شیو جی کی بائیں آنکھ سے ٹپکنے والا آنسو یہاں گرا اور تالاب کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ روئے اس وجہ سے کہ ان کی شریک حیات ستی کا انتقال ہو گیا تھا۔ تو پیار محبت اور وفا کی اس کہانی میں دیوتا کی آنکھ سے ٹپکنے والا آنسو علاقائی موسموں نے بصد احترام ہزار ہا برس سنبھالے رکھا۔ یہاں مندر بنے، عبادت ہوئی، یاتری آئے، اپنی اپنی پریشانیاں شئیر کیں، رو رو کر دعائیں مانگیں، کچھ ادھر مستقل ہی آن براجے اور یہ معاملہ چلتا رہا۔ تقسیم کے بعد بھی ماننے والے ہر سال ہندوستان سے ادھر آتے ہیں، وقتی طور پر رونق میلہ لگتا ہے، مقامی لوگوں کی بھی روزی روٹی بندھ جاتی ہے، ان کے جانے کے بعد پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ اس سب کے بیچ شیو جی کا آنسو پوری آب و تاب سے چمکتا رہتا تھا۔

دو چار دن پہلے ایک تصویر دیکھی جس میں تالاب ایسے سوکھا ہوا تھا گویا دیوتا تو کیا روئے ہوں کبھی کسی نے ایک گلاس پانی تک ادھر نہ پھینکا ہو۔ یا خدا، ایک وحشت ہے، ایک پریشانی ہے، ایسی جگہ جو ہماری اہم کلچرل شناخت ہے، بلکہ دنیا بھر کا ثقافتی ورثہ کہیے کہ ہمیں تو سن سینتالیس کے بعد ملی اور جیسے تیسے ہم نے دھر دی، پری ہسٹورک دور کی چیزیں جہاں سے برآمد ہوتی رہیں، لاکھوں لوگوں کے دلوں میں جس کے لیے عقیدت ہے، جو دنیا کے چند خوبصورت اور پرشکوہ ترین آثار قدیمہ میں گنا جاتا ہے، جہاں آنے کا خواب آنکھوں میں لیے کتنے ہی غیر ملکی پیلینٹولوجسٹ ویزہ لگوانے کو ٹاپتے پھرتے ہیں، اس جگہ کے ساتھ ہم نے کیا کر دیا؟ وہ لاجوردی پانی ہم نے سکھا مارا جو صدیوں سے بے چارہ چپ چاپ اپنی راہ پر لگا ہوا تھا؟ جو اس پورے سٹرکچر میں ایسے خوبصورتی سے فٹ ہوتا تھا جیسے انگوٹھی میں کوئی فیروزہ بیٹھے، اللہ و اکبر!

وہاں کے رہنے والے اور فل ٹائم ایک گائیڈ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کر دی کہ جی صاحب ایسا ہی ہے۔ تالاب سوکھ چکا ہے، کسی نے آ کے خبر نہیں لی، چار ماہ سے یہی صورت حال ہے، بس جیسے تیسے گزارہ چل رہا ہے۔ پوچھا وجہ کیا تھی، تو کہنے لگے آس پاس جو سیمینٹ فیکٹریاں لگی ہیں ان کا بور اتنا گہرا ہے کہ سارا پانی وہاں چلا جاتا ہے اور یہاں تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہاں والے بس اب بارش پر آنکھیں جمائے رکھتے ہیں، جب ہو جائے تو موج ہے، نہ ہو تو ہم بھی پیاسے تالاب بھی پیاسا، کون کسے کچھ کہے۔ جو سیمینٹ فیکٹریاں ہیں وہ بااثر سیاست دانوں کی ہیں، ان سے تو درخواست ہی کی جا سکتی ہے جو پہلے بھی کئی مقامی لوگ کر چکے ہیں۔

وجہ سیمینٹ فیکٹریاں ہوں یا کوئی بھی اور ہو، اس تاریخی جگہ کو فوری طور پر محفوظ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بامیان میں دو بدھ مجسمے طالبان نے اڑائے، آج تک مہذب دنیا میں ان پر ماتم ہوتا ہے، حالانکہ ان غریبوں کو تو صدیوں سے کسی نے پوجا بھی نہیں تھا، وہ تو بس اپنے سائز کے زعم میں اکیلے کھڑے تھے کہ ایک دم بھک سے ملیامیٹ کر دئیے گئے۔ یہ تالاب، یہ تاریخی جگہ، یہ سارے مندر، یہ ہزاروں سال پرانی آرکیالوجیکل سائیٹ، یہ سب بچایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے دھندے چلتے رہتے ہیں، چلتے رہیں گے، نت نئے عظیم الشان شاپنگ مال بنیں گے، پاکستان کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر سڑکیں بنیں گی، مولا رنگ لگائے رکھے گا، سب بلائیں دور رہیں گی لیکن کٹاس راج کے آثار اگر اس ظالمانہ طریقے سے ختم ہونے پر آئے تو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ وہ صرف اس لیے نہیں کریں گی کہ وہ ہم سے زیادہ باشعور ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ آثار قدیمہ صرف ثقافتی ورثہ ہوتا ہے، وہ ملکوں کی پہچان ہوتا ہے، وہاں رہنے والوں کا مجموعی اثاثہ ہوتا ہے، اس کا تعلق کسی بھی عقیدے سے نہیں ہوتا۔ تو ان میں سے جب کوئی انٹرنیٹ پر کہیں تصویر دیکھے گا اور پوچھے گا کہ نانا ابا، یہ کٹاس راج کے پانیوں کا رنگ واقعی ایسا ہوتا تھا؟ تو ہمارے پاس جواب میں فقط آنسو نہ ہوں، کچھ ایسا ہو جو ہم لے جا کر انہیں دکھا سکیں کہ نانا کی جان یہ دیکھو، یہ رہے وہ سارے مندر اور یہ رہا وہ ایمرلڈ کلر کا تالاب، دیکھو پانی کے رنگ ویسے ہی ہیں نا جیسے تصویروں میں تھے؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain