محبت کرنے والی سب ماؤں کو ہیپی مدرز ڈے


جب میری پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو نرس نے لا کر مجھ دکھائی۔ نہ تو فوراً مامتا کے سوتےابلے نہ ہی کچھ خاص محبت امڈی۔ چھوٹی سی گلابی رنگ کی ایک بچی جو کمبل میں لپٹی ہوئی تھی مجھے کچھ پرائی سی لگی۔ اچھا تو یہ ہے میری بیٹی، میں تو سمجھ رہی تھی کہ یہ کالی کلوٹی ہو گی، یہ تو بڑی گوری ہے۔ یہ حقیقت میں وہ الفاظ ہیں جو میں نے اپنی بچی کو دیکھ کر سوچے۔ خیر کچھ دن ٹھہر کر اچھی خاصی محبت پیدا ہو گئی۔ شاید افسانوی سی ہی۔

ماؤں کے بے لوث اور مامتا بھرے جذبے کے بارے میں بہت سی افسانوی تشبیہات ملتی ہیں۔ ایک ماں جتنی محبت کوئی نہیں کر سکتا، ماں برا نہیں چاہ سکتی وغیرہ وغیرہ۔ مگر کیا مامتا بھرا یہ جذبہ صرف جنم دینے والی خاتون میں ہی پایا جا سکتا ہے؟ میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ ہمارے معاشرے میں سوتیلی مائیں کم ہیں مگر مغربی معاشرے میں سوتیلی مائیں بہت زیادہ ہیں۔ وہاں تو اب اس رشتے کے لئے ایک نیا لفظ ہے بونس مام یعنی اضافی طور پر یا انعام میں ملی ہوئی ماں۔ انٹرنیٹ پر ان ماؤں اور ان کے بچوں کے افکار اور خیالات پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ رشتے ڈی این اے کے نہیں بلکہ صرف محبت کے محتاج ہوتے ہیں۔ بچے تو صرف محبت کے پیاسے ہوتے ہیں اور دل کو ذرا سا وسیع کر لینے سے وہ اس میں پوری طرح سما جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی اب نئے زمانے میں بہت سی محبت کرنے والی سوتیلی ماؤں سے میں واقف ہوں۔

سوتیلی کے علاوہ ایک ماں وہ بھی ہے جو بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور کسی کا بچہ لے کر اس پر اپنی مامتا لٹا دیتی ہے۔

اور ایک وہ بھی جو اپنے بچے ہونے کے باجود کسی ایسے بچے کو پال لے جسے ماں کی ضرورت ہے۔ میری نانی نے اپنے ایک بھائی کے بیٹے کو گود لے لیا جن کی والدہ ان کی پیدائش پر انتقال کر گئی تھیں۔ کہنے کو تو انہیں پھپھو نے پالا مگر اس قدر محبت سے پالا کہ ہمیں ان میں اور اپنے اصلی ماموں میں آج تک کچھ فرق نہیں محسوس ہوا۔

مگر ہر عورت ایک بہترین ماں نہیں ہوتی اور کچھ خواتین طبعی طور پر ماں بننے کے باوجود اس ذمہ داری کو نہیں نبھاتیں یا بہترین طریقے سے نہیں نبھاتیں۔ میرے بچپن میں اشفاق احمد صاحب کا ایک ڈرامہ تھا ماما سیمی۔ شاید کچھ لوگوں کو یاد ہو۔ جس میں ایک ماں کو اپنی سماجی زندگی بہت عزیز ہوتی ہےاور بچہ اس کے لئے ایک ثانوی حیثیت اور کم اہمیت رکھتا ہے۔

امی ایک ایسی ماں کا قصہ بھی سناتی ہیں جنہوں نے اپنے چھوٹے سے بچے کو ان کی آنکھوں کے سامنے ذرا سی بات پر روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا اور جو پلنگ کے پایوں تلے اپنے بچوں کے ہاتھ سزا کے طور پر دبا کر اس پلنگ پر بیٹھ جاتی تھیں۔

میاں صاحب کو ایک دن کسی کام کےسلسلے میں فیملی کورٹ جانا پڑا تو وہاں پر ایک طلاق شدہ جوڑے کا کیس چل رہا تھا جن کی یہی کوئی پانچ چھ سال کی بچی تھی۔ نہ تو ماں اس بچی کو ساتھ لے جانے کو تیار تھی اور نہ ہی باپ، جج نے پھر نانی یا دادی کو طلب کیا ہوا تھا کہ شاید ان میں سے کوئی اس بچی کو رکھ لے۔ شاید اس ماں کی بھی کچھ مجبوریاں ہوں گی جو ہم نہیں جانتے۔ امی کی ایک بہت اچھی دوست ہیں انہوں نےکچھ برس قبل ایک بچہ گود لیا جس کی پیدائش ہوتے ہی اس کی ماں اسے ہسپتال میں چھوڑ گئی تھی اور باپ نے بھی لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ کوئی ایک ماہ کا بچہ ہوگا جب ان خاتون نے اسے گود لیا۔ اب بیس برس کا نوجوان ہے اور پالنے والی ماں کی جان اس میں ہے۔ پھر بھی ڈرتی ہیں اور حقیقی ماں کا نام پتہ سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ طلب کرنے پر اس بچے کے حوالے کر سکیں۔

ہمارا معاشرہ اور ہمارا قانون صرف اس ماں یا باپ کا حق بچے پر سمجھتے ہیں جن کا اس کے جنم میں کچھ ہاتھ ہو مگر پھر ہمارے اسی معاشرے میں بہت سے بچے کوڑے کے ڈھیر پر بھی ملتے ہیں۔ میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ مامتا اور ماں ہونا طبعی رشتے سے زیادہ ایک جذبے کا نام ہے۔ ایک بے لوث جذبے کا نام جو کہ صرف خون کے تعلق کا محتاج نہیں۔

جو عورت پوری محبت سے کسی بھی بچے کو اپنے کلیجے سے لگا لیتی ہے وہ بس ماں ہوتی ہے۔ چاہے سگی ماں، سوتیلی ماں یا بس پالنے والی ماں۔ اس مضمون میں بس میں سب ماؤں کو ہیپی مدرز ڈے کہوں گی جو چاہے اپنے بطن سے جنم دے کر یا چاہے صرف اپنے دل میں جگہ دے کر ایک ماں کے عہدے پر فائز ہیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim