تعلیمی اداروں کی انتظامی زبوں حالی


(ہما بٹ)

علم کے میدان میں آگے بڑھے بغیر ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شعبہ تعلیم و تدریس سے جڑ ے ہوئے کوئی لگ بھگ سات برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پیشہ پیغمبری پیشہ کہلاتا ہے۔ لیکن اکثر یہ خیال ذہن میں پنپتا تھا کہ اگر نبیوں، پیغمبروں کو اسی صف میں کھڑے ہونے کا شرف حاصل رہا ہے تو پھر اسے پیشہ کیوں کہتے ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ ایک نہ رُکنے والا سفر ہے۔ جو نسلوں درنسلوں کو منتقل کرنے کے لئے االلہ تعالیٰ نے نبیوں اور پیغمبروں کو چُنا تھا۔ لیکن آج کل کے دور میں نہ تو کوئی خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے امین اور مامون پیدا ہورہے ہیں جو اپنے استادوں کے جوتے سیدھے کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے تھے اور نہ استاد اسے پیغمبری درجہ دے رہے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو بھی پیشہ بنا دیا ہے۔

وطن ِ عزیز میں کرپشن کے نئے نئے سیکنڈ لز سامنے آرہے ہیں کبھی منی لانڈرنگ کے کیس، کبھی عدلیہ کے غیر منصفانہ فیصلے، تو کبھی حکومتی اداروں کی آپس کی چپقلش۔ لیکن ابھی تک کسی نے توجہ اس طرف نہیں دلوائی کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کرپشن کس حد تک عروج پر پہنچ چکی ہے۔ کرپشن کا تعلق ہمیشہ کسی مالیاتی تقسیم سے نہیں ہوتا۔ کسی کو جائز حق سے محروم کردینا بھی کرپشن ہے۔ صحیح وقت پر غیر جانبدارانہ فیصلہ نہ کرنا بھی کرپشن ہے۔ کسی کے حق میں سچی گواہی نہ دینا، ظالم حاکم کا ساتھ دینا یہ سب کرپشن ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا کرپشن نہیں تو اور کیا ہے۔

میں مانتی ہوں کہ عصرِ حاضر میں حلافت ِ راشدہ کے عمرؓ بن خطاب نہیں آسکتے۔ کہ جو کہیں کہ دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو قیامت کے روز عمرؓ اس کا حساب دے گا یا پھر یہ کہ حاکم ِ وقت منبر رسولؐ پر کھڑا خطبہ دے رہا ہو۔ اور ایک غریب اور ادنیٰ شخص للکار کر کہے کہ اے امیر المومنین ہم آپ کا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک آپ یہ نہیں بتاتے کہ آپ کے جسم پر اس وقت جو کپڑا ہے وہ کیوں زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے ملنے والا کپڑا تو کم تھا۔ حاکم وقت نے تو اس وقت غریب اور ادنیٰ رعایا کی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا تھا اور نہ منصوبہ بندی کی تھی۔ اس کے خلاف بلکہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے پیش کیا تھا میری سمجھ سے بالا تر ہے یہ بات کہ دورِ حاضر کی انتظامیہ کو خوف کس بات کا ہے۔ اپنے اختیارات کو ناجائز استعمال کرنے کا، عملے کو جائز حقوق نہ دینے کا۔ یا پھر اپنی نا اہلی کا جو تلوار کی طرح ان کے سروں پر لٹکتی رہتی ہے یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ یہاں کیکر کے درخت پر سرسوں نہیں اُگا کرتی۔ ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا اسی دنیا میں ہی پائیں گے۔ اور یہ ایک ایسا قرض ہے جو اگر آپ نہ چکا سکے تو آپ کی آئندہ آنے والی نسلوں کو چکانا پڑے گا۔ اگر آپ کے اندر خدا نے غیر جانبدارانہ فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت نہیں دی ہوئی تو برائے مہربانی اس کا غلط استعمال نہ کریں۔ آخر میں ارتضیٰ نشاط کا خوبصورت شعر یاد آرہا ہے۔

؂ کرسی ہے، تمہارا جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).