لاہور کا عاشق اور ناچ گرل کی تاریخ لکھنے والا: پران نیول انتقال کر گئے


 ’’لاہور کا ذکر تو کجا، اس کافر ادا شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔‘‘ (کرشن چندر)

لاہور کی فضا میں کچھ ایسی تاثیر ضرور ہے کہ جو یہاں رہ لیا، پھر وہ کہیں چلا جائے، اس کا معاملہ کرشن چندرسے مختلف نہ ہوگا۔ یہ کوئی شہر تھوڑی ہے، ایک کیفیت ہے، جس کسی پر طاری ہو جائے، پھر اترتی نہیں۔ لاہورکو ہر دور میں ایسے غیر سرکاری وقائع نگار میسر آتے رہے، جنھوں نے اس شہر کے بارے میں لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ اس پہلو پر معروف دانشور وجاہت مسعود نے ابھی کل ہی توجہ دلائی ’’لاہور تو سولہویں صدی کی نورجہاں سے لے کر بیسویں صدی کے ناصرکاظمی تک اپنے عشاق کے ضمن میں ہمیشہ خوش نصیب رہا ہے۔‘‘ صرف بیسویں صدی کو ہی لیجیے تو اس بات کی اصابت ثابت ہو جاتی ہے۔

تقسیم کے بعد کے پچاس برسوں کا احوال بیان کرنے کے لیے لاہورکو انتظارحسین جیسا مایہ ناز قلم کار ملا، جس نے’’ چراغوں کا دھواں‘‘ لکھ کر قلم توڑ دیا۔ لاہورکے بارے میں ان یادداشتوں سے ہٹ کر انتظارحسین کے کالم بھی اس شہرکی ادبی و ثقافتی تاریخ جاننے کے لیے اہم ماخذ کا درجہ رکھتے ہیں۔ عجب بات ہے کہ 65 برس اس شہر میں بسرکرنے کے باوجود وہ معروف معنوں میں لاہوریے نہیں، اور وہ شخص جس کو تقسیم سے قبل کے لاہور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے، اسے یہ شہر چھوڑے اتنے ہی برس بیت گئے ہیں، جتنے انتظارحسین کو اس شہر کو اپنائے، لیکن وہ دھڑلے سے خود کو لاہوریا کہتا اور اس پر فخر محسوس کرتا ہے۔

نام ان کا پران نیول ہے اورجن نے “Lahore – A Sentimental Journey” کے عنوان سے کتاب میں لاہور میں بیتے دو ڈھائی عشروں کی داستان بڑے پرلطف پیرائے میں بیان کی ہے۔ کتاب کو اس شہر پر تحریر کردہ بہترین کتابوں کی فہرست میں بہت اونچا رکھا جا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو 1920ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں شہر بے مثال لاہور میں آنکھ کھولنے والے بہت کم افراد اب ہمارے درمیان موجود ہوں گے، اور ایسوں میں انھیں بھی شمار جانیے جو تقسیم کے باعث سرحد کے اس پار چلے گئے۔ ان پرانے لاہوریوں میں سے پران نیول کا نام نمایاں ہے۔

ان کا اس شہر سے جسمانی تعلق ٹوٹے 65 برس گزر گئے مگر روحانی ناتے میں ضعف نہیں آیا۔ 1997ء کے بعد سے جب بھی موقع بن پڑتا ہے، وہ جھومتے جھامتے حاضری دینے داتا کی نگری پہنچ جاتے ہیں۔ اس شہر سے ان کی والہانہ محبت کی بنا پر خالد حسن انھیں چلتا پھرتا لاہور قرار دیتے۔ ان کے بقول، لاہور آ کر وہ خود کو جوان محسوس کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں لاہور کو دوسرے شہروں کی مانند بیان نہیں کیا جا سکتا، اسے بسر اور محسوس کرکے ہی اس کے بارے میں بات ہو سکتی ہے۔‘‘

شہر جب کسی کے ناسٹلجیا کا حصہ بن جائے تو پھر وہ مرورِ زمانہ سے اس میں آنے والی تبدیلیاں دل سے قبول نہیں کرتا، اور پھر، اب وہ لاہور کہاں؟ قسم کے بیانات سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ پران کے ہاں مگر معاملہ یہ نہیں۔ وہ اس حرف محرمانہ سے واقف ہیں کہ جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا۔ لاہورکے چہرے مہرے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ان کی رائے جاننے سے قبل ہمارا گمان تھا کہ وہ تحفظات اور شکوے شکایات کا انبار لگا دیں گے، لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا۔ پران نیول کے بقول: ’’بدلاؤ کی جہاں تک بات ہے، وہ کس جگہ نہیں آیا۔ دہلی چالیس کی دھائی میں چار ساڑھے چار لاکھ کا تھا۔ اب اس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے۔ میں تبدیلی کو دیکھ کرخوش ہوتا ہوں۔

کیا دنیا میں کوئی چیز ایسی ہے جو بغیر بدلے رہے؟ بڑی بات یہ ہے کہ چیرنگ کراس سے نہر کی طرف اور پھر ہائیکورٹ اور جی پی او کی طرف کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔ مال روڈ میں جو بلڈنگیں پہلے موجود تھیں، چند ایک کو چھوڑ کر اب بھی موجود ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں لیکن پھر بھی اس شہر میں پرانا کافی کچھ موجود ہے۔ سنتالیس میں ہنگاموں سے شاہ عالمی کا علاقہ برباد ہوگیا۔ باقی اندورن شہر کا نقصان نہیں ہوا، لوہاری میں جس پورشن میں ہم رہتے تھے، اب بھی موجود ہے۔ شہر میں ہندوؤں کی دکانیں زیادہ تھیں، مثلاً انارکلی میں نوے فیصد دکانیں انھی کی تھیں، وہ چلے گئے تو پھر نقشہ تو بدلنا ہی تھا۔‘‘

بسنت کا تہوار لاہورکی خاص پہچان رہا ہے۔ پران نیول نے اپنی کتاب میں پورا باب ’’بو کاٹا‘‘ کے عنوان سے باندھا ہے، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ لاہور میں پتنگ بازی کا فن جس قدر اوج پر پہنچا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے ذہن میں بچپن کی یادوں میں پتنگ اڑانے سے زیادہ پرلطف یاد کوئی دوسری نہیں۔ لاہور میں بسنت پرکئی برسوں سے جاری پابندی کی بابت ان کے رائے جاننا چاہی تو وہ بولے ’’افسوس ہے کہ اب بسنت کا تہوار نہیں ہو رہا ہے۔ اس پابندی سے قبل میں بسنت منانے آتا رہا تو اس کا جدید رنگ بھی میں نے دیکھ رکھا ہے، ایک بار اپنے پوتے کو یہ سب دکھانے ساتھ لایا تھا۔‘‘ اس شہر سے ان کی بے پایاں محبت کی بنا پر تقسیم کے پچاس برس بعد یہاں کا پھیرا لگانا تھوڑا حیران کرتا ہے۔ اس تاخیرکی وجہ جاننا چاہی تو وہ بولے ’’لاہور کے بارے میں کتاب لکھنا چاہتا تھا، اس لیے قصداً یہاں آنے سے گریز کیا۔ کئی بار مواقع بنے، لیکن آیا نہیں، جبکہ کراچی کا چکر میں نے لگایا۔ ذہن میں یہ رہا کہ کتاب لکھ لوں، پھر جاؤں گا کیوں کہ میرے ذہن میں جو نقشے تھے، جو تصویریں تھیں، اور میرے جو محسوسات تھے، ان کو میں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کتاب میں سب یاد کے سہارے لکھا۔ اسے میں ریفرنس بُک نہیں بنانا چاہتا تھا۔‘‘

1993ء میں کتاب شائع ہوئی تو اسے جن دوستوں کے نام معنون کیا، ان میں سعید احمد خان بھی تھے، جن کے بارے میں انھیں کسی نے غلط طور سے بتا دیا تھا کہ وہ گزر گئے ہیں، خیر 1997ء میں یہ لاہور آئے تو اس یار جانی سے جی کھول کر دل کی باتیں کیں۔ سن 98ء اور 99ء میں بھی پران ان سے لاہور میں ملے۔ 2000ء میں سعید احمد نے ان سے ملنے دہلی جانا تھا مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ ماضی کی یادوں کو کھنگالتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سعید احمد خان کے والد یارمحمد خان کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے، ان کا بنگلہ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں تھا، یہ دس پندرہ منٹ پیدل چل کر ان کے ہاں پہنچ جاتے۔ یار عزیز کو پران نے مرنے کے بعد بھلایا نہیں اور جب ان کی مشہور کتاب’’ناچ گرل‘‘ چھپی تو اسے جن دوستوں کے نام معنون کیا ان میں سعید احمد خان کا نام سرفہرست تھا۔

پران نیول 22 اکتوبر 1922ء کو سوترمنڈی اندرون لوہاری گیٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پوسٹل سروس میں افسر تھے۔ چودہ برس وہ اندرون لاہور رہے اور پھر ان کا گھرانہ نسبت روڈ اٹھ آیا۔ ڈی اے وی اسکول میں وہ پڑھے، جو بعد میں مسلم ہائی اسکول نمبر دو کے نام سے جانا گیا اور اب بھی اسی پرانی جگہ پر موجود ہے۔ اس کے پاس ہی ڈی اے وی کالج تھا جو بعد میں اسلامیہ کالج سول لائنز کے نام سے معروف ہوا۔ تقسیم کے بعد پہلی دفعہ لاہور آئے تو اپنے اسکول کا دورہ کیا اور اس بات پر خوش ہوئے کہ جس جگہ وہ واقع تھا ادھر زیادہ نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ اس جگہ سے قریب ہی وہ عظیم درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور بھی ہے، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے بہترین چھ برس گزارے اور 1943ء میں معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد یہاں سے نکلے اور پھر ان کی اگلی منزل دہلی ٹھہرا جہاں انھیں ملازمت مل گئی تھی۔ ماہ بہ ماہ اہلخانہ سے ملنے لاہور آتے۔

47ء میں تقسیم ہوئی تو ان کا خاندان بھی مشکلات کا شکار ہوا اور اسے ہجرت کرنا پڑی۔ تاریخ کے اس پر آشوب دور کا ذکر کرتے ہوئے ان کا لہجہ تلخ نہیں ہوتا، اور وہ سب باتوں کو قصۂ ماضی سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ’’حالات کی خرابی سے میرا خاندان متاثر ہوا لیکن اس کے بارے میں بات نہیں کرتا کہ وہ ایک پرسنل بات ہے جس کی اب مجھے ریلی ونس نظر نہیں آتی۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ‘ اس شہر میں جس زمانے میں وہ رہتے تھے ملٹی کلچرل شہر بن چکا تھا جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی موجود تھی۔ اس پر ہم نے ان سے پوچھا ’’مگر شہید گنج جیسے واقعات بھی تو اس دور میں ہوئے؟‘‘ ان کے بقول ’’وقتی طور پر صورت حال پیدا ہوئی، لیکن اسے آپ فسادات تو نہیں کہہ سکتے۔‘‘ یہ سن کر تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کا حوالہ دیا تو ان کا مختصر جواب آیا۔ ’’انسان جب حیوان بن جائے تو پھر کیا ہو سکتا ہے؟‘‘

ہم نے پوچھا: لہور لہور اے۔کیوں؟ ’’یہ دنیا کی بڑی خاص جگہ ہے۔ تاریخی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی اعتبارات سے اسے منفرد حیثیت حاصل ہے۔ بیس برس مغل دارالحکومت رہنے سے اس کی اہمیت بڑھی، اور آگرہ کے بعد لاہورکا درجہ تھا، دلی کی باری اس کے بعد آتی تھی۔ سکھوں کے دور میں بھی اس کی اہمیت رہی اور پھر انگریز دور میں بھی۔‘‘

دہلی اور لاہور کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’’پرانا دہلی تاریخی اور ثقافتی حوالے سے عظیم شہر تھا۔ 1911ء میں انگریزوں نے کلکتہ کے بجائے دہلی کو دارالحکومت بنایا اور سیکرٹریٹ یہاں منتقل کیا تو اپنا شہر بسایا جو نئی دہلی کہلایا جو پرانی دہلی سے الگ تھا۔ نئی دہلی میں برصغیر بھر سے لوگ آئے، ان میں پنجابی بھی تھے، یوپی اور ساؤتھ کے بھی تھے۔ اس عرصے میں لاہور Multifaceted شہر بن گیا۔ ہمارے زمانے میں لاہورکا موازنہ یا مقابلہ دہلی کے بجائے لکھنؤ سے ہوتا، کیوں کہ لاہور بھی اردو کا مرکز تھا، دہلی اور لکھنؤ کے لوگ بھی یہاں سے شائع ہونے والے رسالوں میں چھپنا چاہتے تھے۔

لاہوریوں کا مزاج تھا کہ وہ ہر چیز میں اپنے آپ کو اوپر سمجھتے تھے اور لکھنؤ والوں کی نوابی شان اور ہر معاملہ میں رکھ رکھاؤ اور شائستگی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں: ’’پرانی انارکلی میں بنگالیوں کی آبادی تھی، جو یہاں انگریزوں کی آمد کے بعد آئے۔ بنگالی اساتذہ کو انگریزی پڑھانے کے لیے بلایا گیا کیونکہ پنجابی یہ زبان نہیں جانتے تھے، پھر پنجاب میں قائم دفاتر میں انگریزی میں کارروائی ہونی تھی تو ادھر بھی بنگالی ملازم ہوئے۔ سناتھن دھرم کالج کے پرنسپل بھی بنگالی تھے۔ اینگلو انڈین زیادہ ترگڑھی شاہو کی طرف رہتے تھے۔‘‘ لاہور سے تعلق رکھنے والی ماضی کی وہ شخصیات جنھیں ان کے خیال میں فراموش کر دیا گیا۔ ان میں وہ نامورگلوکارہ طمنچہ جان کا نام سب سے پہلے لیتے ہیں، جو اپنے زمانے کی بڑی گلوکار تھی، اور جسے تقسیم سے قبل انھوں نے براہ راست سنا بھی۔

97ء میں لاہور آئے تو گلوکارہ کو ڈھونڈ نکالا اور ان سے ملے بھی۔ پران نیول کے بقول، طمنچہ جان کے بارے میں اس وقت لوگوں کو پتا چلا جب ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ میں اس کے بارے میں مضمون چھپا۔ انھیں افسوس اس بات کا بھی ہے کہ امام بخش اور گاماں جیسے عظیم پہلوانوں کے بارے میں کسی نے تحقیق کی نہ ہی کوئی مبسوط کتاب سامنے آئی۔ ستم ظریفی کی بات ہے کہ لاہور کے بارے میں ان کی کتاب اس شہر میں بھی دستیاب نہیں۔ جب لوگ اس کی عدم دستیابی کا ذکر کرتے ہیں تو انھیں بڑی الجھن ہوتی ہے۔ اس کتاب کو ایک بڑے اشاعتی ادارے نے چند برس قبل دوبارہ چھایا تو اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا لیکن بعد میں بوجوہ اس کو چھاپنے سے گریز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ پران نیول کی سمجھ سے باہر ہے۔ ادھر ہندوستان میں یہ کتاب دھڑا دھڑ بک رہی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کی کتاب ڈھنگ سے ترجمہ ہو کر اردو میں بھی چھپے۔

یاد رہے کہ ان کی اجازت کے بغیر اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’لاہور جب جوان تھا‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ لاہور پر کتاب سے یہ فائدہ البتہ انھیں ہوا کہ بہت سے لوگوں سے تعلق استوار ہوگیا، جن میں سب سے زیادہ دوستی، تصویروں کے ذریعے پرانے لاہور کو اجاگر کرنے والے معروف مصور اعجاز انور سے ہے، جنھوں نے لاہور کنزرویشن سوسائٹی بنائی تواس میں اس پرانے لاہوری کو بھی شامل کیا۔

لاہور کے بارے ان کی کتاب اس قدر ہٹ ہوئی کہ ان کی علمی شناخت کا مرکزی حوالہ بن گئی اور ادھر پاکستان میں برٹش راج سے متعلق ان کے کام سے متعلق لوگ زیادہ جان پائے نہ ہی اس بارے میں زیادہ بات کی جاتی ہے۔ برصغیر میں برٹش راج کے بارے میں انھوں نے روایتی طرزتحقیق کے بجائے پرلطف پیرائے میں بعض ایسے پہلوؤں کی طرف خاص طور سے توجہ دی ہے جنھیں نظرانداز کیا جاتا رہا۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب ’’ناچ گرل‘‘ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جو سات برس کی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی۔ انھوں نے بڑے موثر انداز میں ناچ گرل کے برصغیر میں عروج و زوال کو بیان کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ناچ گرل کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں بس یہی تصور ہے کہ وہ آوارہ اور بدچلن ہوتی تھیں، اور ان کا کام صرف لوگوں کولطف اندوزکرنا ہوتا مگر ان کے خیال میں وہ شوگرل ہی نہیں بلکہ وہ موسیقی، رقص اور شاعری سے دلچسپی رکھنے والی مہذب اور شائستہ اطوار خواتین تھیں۔ بڑی خوشی سے بتایا کہ “Love Stories from the Raj” کے دس ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کتاب میں 21 حقیقی کہانیوں کو فکشن کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس سلسلے کی دیگر کتابوں میں “Beyond the Veil – Indian Women in the Raj”، “Rare Glimpses of the Raj” ، “Marvels of Indian Painting: Rise and Demise of Company School” شامل ہیں۔

ہم نے ان سے پوچھا ’’بھارتی وزارت خارجہ سے برسوں متعلق رہے اور اقوام متحدہ کے لیے بھی کام کیا توکیا اس حوالے سے اپنی یادداشتوں کو قلمبند کرنے کا خیال نہیں آیا ’’ ان یادداشتوں میں کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ بیوروکریٹ جو کتابیں لکھتے ہیں، انھیں کون پڑھتا ہے، یہ تو اپنی بیویوں کے لیے کتابیں لکھتے ہیں۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).