ذوالفقار علی بھٹو اور حسنہ شیخ: ایک پس پردہ محبت کی کہانی (2)


1973ءکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب عمرے کے لئے جانے لگے تو مولانا کوثر نیازی نے ازراہ مذاق یہ کہا کہ جناب آپ اللہ کے گھر جا رہے ہیں حُسنہ صاحبہ سے اپنا تعلق لیگل کرلیں۔ بھٹو صاحب مان گئے اور کوثر نیازی کا کہنا ہے میں نے بڑی سادگی سے ان کا نکاح پڑھایا تھا لیکن کسی طرح یہ اطلاع بیگم نصرت بھٹو تک پہنچ گئی اور انہوںنے نیند کی گولیاں کھالیں۔ بھٹو صاحب بہت پریشان ہوئے اور جب ان کی حالت سنبھلی تو انہوں نے یقین دلایا کہ آپ میری قانونی بیوی ہیں اور فرسٹ لیڈی ہی رہیں گی۔ حُسنہ کو کراچی میں ”منزل“ نامی گھر میں شفٹ کردیا گیا۔ بھٹو صاحب کے دوراقتدار میں متعدد وزراءان سے ملنے اس ”منزل“ نامی گھر میں جاتے تھے۔ حُسنہ جو بہت حسین بنگالی خاتون تھیں ان کی آواز HUSKY تھی۔ بھٹو صاحب کی خواہش کے مطابق حُسنہ نے اپنا نام بدلنے کی کبھی کوشش نہ کی اور ہمیشہ حُسنہ شیخ ہی رہیں۔ بھٹو صاحب کے سارے قریبی جاننے والے اس بات سے آگاہ تھے۔ سندھ انتظامیہ کی طرف سے گھر کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور لان اور باڑ کی صفائی بھی سرکاری اہلکاروں کے ذمہ تھی۔ کراچی میں حُسنہ نے ایک ٹریول ایجنسی چلائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک فائیوسٹار ہوٹل میں پارٹنر تھیں ان کی والدہ انڈین تھیں اور کلکتہ کی رہنے والی تھیں جبکہ باپ بنگالی تھا۔ دو بھائی تھے جو حُسنہ کے ساتھ ہی پاکستان آگئے تھے۔ اس کا ایک بھائی کراچی میں ایک ملز کا مالک تھا جبکہ دوسرا حُسنہ کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کے بعد لندن چلا گیا۔ حُسنہ کی بیٹی چنن کی شادی پر نور جہاں اور مہدی حسن نے بھی گیت گائے تھے۔ مولانا کوثر نیازی کا ایک انٹرویو جو میں نے ان کی پیپلزپارٹی سے علیحدگی کے بعد کیا اس میں بھی کوثر نیازی نے حُسنہ اور بھٹو کی شادی اور نکاح کا ذکر کیا ہے۔

سٹینلے والپرٹ کی ایک کتاب میں بھی حُسنہ شیخ کا تذکرہ موجود ہے اور یہ لکھا ہے کہ 1961ءمیں بھٹو صاحب کی ڈھاکہ میں اس سے ملاقات ہوئی تھی جب وہ مرکزی وزیر تھے اور ان کی عمر 34 سال تھی۔ حُسنہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھٹو صاحب میری خوبصورتی سے نہیں بلکہ میری ذہانت سے متاثر ہوئے تھے۔ سٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے حُسنہ اور بھٹو صاحب کے مابین ذہن‘ جسم اور روح کا تعلق تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1990ءتک حُسنہ کا کچھ مشترکہ بزنس سندھ کے سابق وزیراعلیٰ جام صادق مرحوم سے بھی تھا۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے تو حُسنہ نے عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان سے بار بار ملاقاتیں کیں اور ان سے درخواست کی کہ بھٹو صاحب کو رہا کروائیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ شیخ زید نے کوشش بھی کی مگر ضیاءالحق نہ مانے‘ مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کی رہائی کے لئے جو مہم چلائی اس کے لئے حُسنہ نے عرب ریاستوں کے سربراہوں سے فنڈز بھی حاصل کئے اور آخر میں مایوس ہوکر وہ دبئی سے لندن چلی گئیں تاہم دبئی ان کا دوسرا گھر رہا ہے کیونکہ شاہی خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات بھٹو صاحب ہی نے قائم کروائے تھے۔

حُسنہ شیخ کے بارے میں مجھے خاص معلومات کوثر نیازی نے اس وقت فراہم کیں جب وہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری الیکشن میں پیپلزپارٹی میں دوبارہ شامل ہوئے۔ پیپلزپارٹی میں واپسی کے باوجود بینظیر بھٹو صاحبہ کا دل کوثر نیازی کی طرف سے صاف نہیں ہوا۔ الیکشن جیت جانے کے بعد انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بنا دیا گیا۔ میری ان سے آخری ملاقات تین ساڑھے تین گھنٹے پر محیط تھی۔ انہوں نے ٹیلی فون پر مجھے دعوت دی تھی کہ میرا جی آپ سے ملنے کو چاہتا ہے۔ آپ اسلام آباد میرے گھر پر آﺅ۔ میں گیا تو نہ وہ بہت آزردہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرپرسن نے مجھے دل سے معاف نہیں کیا۔ یوں تو بہت سے انکلوں کو انہوں نے حکومت سے باہر رکھا ہے۔ لیکن مجھ سے شاید انہیں زیادہ ناراضی ہے۔ کوثر نیازی نے کہا کہ دراصل بے نظیر مجھ سے اس لئے ناراض تھیں کہ ان کی والدہ مجھ سے ہمیشہ خفا رہیں اور ان کا خیال تھا کہ میں نے حُسنہ شیخ سے بھٹو صاحب کی شادی کروائی ہے اور میرے اوپر ایک سوتن کو لا بٹھایا ہے۔ پھر کوثر نیازی نے مجھے تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا میں نے تو نیک نیتی سے کہا تھا برسوں سے بھٹو صاحب شادی کے بغیر ہی حُسنہ شیخ کے بہت قریب تھے اور میں سمجھتا تھا کہ میرا لیڈر اسلامی احکام کے مطابق باقاعدہ نکاح کرلے۔ میں بہرحال ان کی بھلائی چاہتا تھا۔ حالانکہ بیگم نصرت بھٹو خود جانتی تھیں کہ ان دونوں کے تعلقات کس قدر مسلمہ اور قریبی تھے۔ پھر وہ بولے شاید خدا نے مجھے اس کام کے لئے منتخب کیا ہے یہ ادارہ یعنی اسلامی نظریاتی کونسل جو مولویوں سے اپنی جان چھڑانے کے لئے حفیظ پیرزادہ نے آئین میں رکھوایا تھا وہ دائرہ کار اور اختیارات کے سبب کچھ نہ کرسکا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ مولانا! آپ کو جو موقع ملا ہے آپ سیاست پر لعنت بھیجیں اور کونسل میں رہتے ہوئے دل و جان سے اسلام کی خدمت کریں۔ میں نے کہا کہ حُسنہ شیخ اور بھٹو صاحب کا معاملہ بھی اللہ پر چھوڑیں کوثر نیازی کہنے لگے کہ یقین مانو کہ یہ سب کچھ مذاق ہی مذاق میں ہوا تھا۔ لیکن میری نیت نیک تھی۔ کوثر نیازی سے آخری ملاقات بہت دلچسپ تھی کہ نکاح پڑھوانے والا بھی میرے سامنے تھا اور ہر بات تسلیم کررہا تھا۔ بہت وقت گزر گیا اللہ تعالیٰ کوئی غلطی ہوئی ہے تو بھٹو صاحب اور کوثر نیازی‘ دونوں کو معاف کرے۔

حُسنہ شیخ کے بارے میں آخری معلومات بہت اہم ہیں اور عام لوگوں کو ان کے بارے میں کم ہی معلوم ہے کہ دبئی سے لندن جانے کے بعد وہ کیا کرتی رہیں۔ بھٹو صاحب کی زندگی میں وہ مسلسل ان کی رہائی کے لئے کوشاں رہیں بعد میں انہوں نے کچھ عرصہ شدید پریشانی کے عالم میں گزارا۔ پھر لندن سے اردو میں روزنامہ ”ملت“ شائع کرنا شروع کیا ظاہر ہے کہ وہ اخبار نویس نہیں تھیں صرف فنانسر تھیں۔ جن لوگوں کے سپرد اخبار کی ادارت عملاً تھی وہ پیشہ وارانہ اعتبار سے زیادہ مضبوط نہیں تھے۔ انہوں نے مولانا کوثر نیازی کے بارے میں ایک سٹوری شائع کی کہ وہ ”لوطی“ ہیں۔ برطانیہ کے قوانین انتہائی سخت ہیں اور اگر آپ نے جو تحریر چھاپی ہو اسے ثابت نہ کرسکیں اور مقدمہ کرنے والا اپنی عزت کی قیمت جتنی مقرر کرے عام طور پر اس رقم کی ڈگری ہوجاتی ہے۔ کوثر نیازی نے یہی دھمکی دی تھی کہ میں آپ کا اخبار تک بکوا دوں گا۔ مجھے رقم یاد نہیں لیکن اچھی خاصی مقدار تھی اور واقعی ان مالی مشکلات کی وجہ سے ”ملت“ بند ہوگیا۔ کہتے ہیں آج کل حُسنہ شیخ نے سیاسی لوگوں سے ملنا جلنا ترک کررکھا ہے اور وہ انتہائی سادگی اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہی ہے۔

حُسنہ شیخ بھٹو صاحب کی بیوی تھیں یا یہ محض الزام تراشی ہے اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ بھٹو صاحب نے کبھی اسے اون نہیں کیا۔ شاید شادی نہ ہو اور صرف حلقہ احباب میں شامل ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).