آصف زرداری سیاست کریں، جھوٹ نہ بولیں


 پاکستان پیپلز پارٹی کے معاون چیئر مین آصف علی زرداری آئیندہ انتخابات کے لئے سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے اور نئے ساتھی تلاش کرنے کے لئے اس وقت خیبر پختون خوا کا دورہ کررہے ہیں۔ پشاور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بعض ایسی باتیں کہی ہیں جو ایک قومی لیڈر کو زیب نہیں دیتیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کو بیک وقت نیچا دکھانے کے لئے خیبر پختون خوا کے باشندوں کی مظلومیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس صوبے کے عوام کن صعوبتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی باور کروانے کی کوشش کی کہ کراچی میں پختونوں کی سب سے زیادہ تعداد رہتی ہے۔ آصف زرداری نے ملک کی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان نے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دشمنی کا رشتہ استوا کیا ہؤا ہے جبکہ ان کے دور میں ہر طرف امن ہی امن تھا۔

کسی بھی سیاست دان کو اپنے کارناموں کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لینے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان کی سیاست میں عوام سے رابطہ مہم کے دوران اپنے اور مخالفین کے بارے میں جھوٹ بولنا مسلمہ اصول کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ تاہم اس قسم کی پارٹی یا شخصی سیاست کرتے ہوئے کسی بھی لیڈر کو قومی مفادات کے ساتھ کھلواڑ کرنے یا نسلی و علاقائی بنیادوں پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ زرداری کا یہ دعویٰ مبنی بر حقیقت ہے کہ کراچی پختون آبادی کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن اس میں پیپلز پارٹی یا آصف علی زرداری کا کوئی کردار نہیں ہے۔ زرداری گزشتہ بار اپنے دور اقتدار کے دوران پختونوں کی محبت میں انہیں بسانے کے لئے کراچی نہیں لے گئے تھے بلکہ روزگار کی تلاش میں ملک بھر سے لوگ کراچی جاتے ہیں اور یہ شہر ہر نسل اور علاقہ کے لوگوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتا رہا ہے۔ تاہم اس شہر میں سیاست کرنے والی پارٹیوں نے شہر کو نسلی اور لسانی بنیادوں پر ضرور تقسیم کیا ہے ۔ جس وقت آصف زرداری ملک کے صدر تھے اور پیپلز پارٹی سندھ میں بھی برسر اقتدار تھی تو امن کمیٹیوں کے نام پر اس پارٹی نے بھی سماج دشمن عناصر پر مبنی عسکری گروہ استوار کئے تھے جو پیپلز پارٹی کی بالا دستی کے لئے دوسری دو پارٹیوں کے ساتھ دست و گریباں رہتے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کی ان ہی حرکتوں اور بے اعتدالی کی وجہ سے کراچی ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور جترائم کا گڑھ بن گیا تھا۔ اس صورت حال کو پاک فوج کی مداخلت کے بعد ہی تبدیل کیا جا سکا ہے۔

پیپلز پارٹی اور آصف زرداری جب مرکز میں برسر اقتدار نہیں ہوتے تو وہ سندھ کی سیاست کرتے ہیں تاکہ اس بنیاد پر وفاقی حکومت کو بلیک میل کرتے رہیں۔ تاہم اب انتخابات کی تیاری میں زرداری سیاسی گٹھ جوڑ کے لئے ملک کے دوسرے صبوں کے دوروں پر نکلے ہوئے ہیں لیکن انہیں ایسی باتیں کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو ملک میں متعصبانہ رویوں کو مستحکم کرنے کا سبب بنیں۔ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اتحاد کرکے کراچی کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا اور الطاف حسین کراچی کے ڈی فیکٹو حکمران تھے۔ ان کے کارکن شہر پر راج کرتے تھے۔ تاہم جب پیپلز پارٹی کو مرکز میں حکومت سازی کے لئے ایم کیو ایم کی ضرورت نہ رہی تو اس کے ساتھ شریک اقتدار کی بجائے سیاسی مقابلہ بازی کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس وقت کراچی کے میئر کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے لیکن سندھ کی حکومت انہیں شہر کے معاملات چلانے کے لئے وسائل فراہم کرنے یا ان کے اختیارات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

آصف زرداری کا یہ دعویٰ بھی سو فیصد درست نہیں ہے کہ ان کے زمانے میں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بہت خوشگوار تھے۔ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے امریکہ نواز پالیسیوں کی وجہ سے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرلئے ہیں۔ آصف زرداری کے دور میں امریکہ نواز پالیسیوں کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اسی دور میں میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا اور ان کے مقرر کردہ سفیر نے ہی امریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے امریکی ایجنٹوں کو کسی روک ٹوک کے بغیر پاکستان آنے اور کام کرنے کی سہولیات فراہم کیں۔ اس کے علاوہ زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ خارجہ معاملات میں منتخب سول حکومت کس حد تک ’خود مختار‘ ہوتی ہے اور اسے کس حد تک ان فیصلوں کو قبول کرنا پڑتا ہے جو جی ایچ کیو سے اس تک پہنچائے جاتے ہیں۔

یہ کسی ایک پارٹی کا معاملہ نہیں ہے۔ حکومت سنبھالنے والی کوئی بھی پارٹی انہی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ کیوں کہ سیاستدان مل کر یہ تسلیم کروانے میں ناکام رہے ہیں کہ ملک کی منتخب پارلیمنٹ ہی واحد بااختیار ادارہ ہے۔ سیاسی لیڈر جب تک ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے رہیں گے، دیگر اہم معاملات کی طرح ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں فیصلے بھی فوج ہی صادر کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali