صبا قمر، قندیل پہ ڈرامہ بنانا آسان ہے، مشال پہ بنا سکتی ہو؟


خبر ہے کہ صبا قمر قندیل بلوچ کا سا انداز اپنائے اس کی یاد دلائے گی۔ مجھے قندیل بلوچ کبھی پسند کیا آنا تھی متاثر کن والی فہرست میں بھی نہیں ڈالا تھا اسے۔ ایک مرتبہ کافی بیہودہ سی ویڈیو کی وجہ سے اس کا فیس بک پیج پی ٹی اے کی نظر میں آیا تھا۔ اس ویڈیو کو واٹس ایپ گروپس، میں شیئر کیا گیا، فیس بک ٹویٹر پہ وائرل کیا گیا۔ سب نے اسے دیکھا۔ فاحشہ، طوائف، بیہودہ عورت اور اس سے بھی زیادہ گندے خطابات دئیے۔ وہ گناہ کر رہی تھی اور اس کے دیکھنے والے پارسا تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے وہ آوارہ کہلاتی ہے اور ‘مفتی صاحب’ حضرت، جناب، صاحب اور محترم کہہ کر پکارے جاتے ہیں۔ کچھ برساتی اینکرز نے اسے مزید اکسا کر زیادہ سے زیادہ بھونڈی حرکات کروائیں تا کہ اپنے پروگرام کی ریٹنگ اور اپنے ریٹ بڑھا سکیں۔ کبھی کسی سیاستدان کو شادی کا کہتی تو کبھی کسی کرکٹر سے اظہار محبت کرتی۔ نظروں میں رہتی بھی تھی اور کھٹکتی بھی تھی۔

میری ناقص رائے میں وہ محروم طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک ‘اٹینشن سیکر’ تھی۔ ایسے لوگ توجہ حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس ایسے بے شمار لوگ ہیں مگر ہر ایک مختلف شدت اور نوعیت سے توجہ مانگتا ہے۔ کچھ لوگ اونٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں، کچھ اپنے آپ کو بہت پہنچی ہوئی چیز بتا کر اپنے اطراف کی توجہ مانگتے ہیں اور کچھ ضد، غصہ اور بحث کر کے اپنی اس نفسیاتی کیفیت کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ قندیل کو بالآخر قتل کر دیا گیا۔ اس کا قتل غیرت کے نام پر کیا گیا جبکہ پس پردہ حقائق میں جہالت، غربت، عدم برداشت، حسد اور معاشرتی دباو جیسے عوامل بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ بہرحال غیرت وہ پردہ ہے جس کے نیچے بہت سی معاشرتی غلاظتوں کو چھپایا جاتا ہے اور قانون اجازت دے یا نہیں مگر ہمارا بے حس سماج اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ذاتی رنجش یا محرومی کو غیرت کا نام دو اور ہیرو بن جاؤ۔

دوسری طرف مشال خان کو گستاخی کا نام دے کر قتل کیا گیا۔ اس کا قصور تھا سوچنا اور آواز اٹھانا۔ ان دونوں ‘گستاخیوں’ پہ سزا ملتی ہے۔ دراصل کمزور ایمان اور جہالت کا روزانہ کی عبادات اور ڈگریوں کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مشال کے قاتل تمام پڑھے لکھے افراد تھے۔ گملا مارنے والے، دوسری منزل سے دھکا دینے والے، لاتیں مکے مارنے والے، زمین پر گھسیٹنے والے، اس پہ گولی چلانے والے، اسے برہنہ کرنے والے، اسکی لاش سے اپنی کرگس فطرت کو تسکین پہنچاتے، اس کا جنازہ پڑھنے سے انکاری، اس کو مارنے کے بعد اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے، ڈنڈے پتھر مارنے والے تمام افراد کسی نہ کسی حد تک تعلیم یافتہ تھے۔ نہیں ‘تعلیم یافتہ’ ایک غلط اصطلاح ہے۔ وہ تمام افراد درسگاہوں سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ کتابوں کا بوجھ ڈھو چکے تھے۔ ان سب کے ماں باپ نے سوچا تھا ‘افسر بنے گا’ مگر وہ سب ‘قاتل بنے’ اور قتل اس معصوم کا ایسے کیا کہ درندے بھی شرمائیں۔

ایک سماجی خداوں کو چیلنج کرتی تھی اور دوسرا مذہبی جنونی معاشرے سے غور و فکر اور برداشت کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ ایک کا قتل پسماندہ علاقے کی سوچ سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے کیا۔ دوسرے کا قتل شہر کی یونیورسٹی میں درس و تدریس کے مقدس فریضے کو حاصل کرتے کئی افراد نے۔ ایک کو سماجی خنجر سے مارا اور دوسرے کو مذہبی۔ مگر ان دونوں کی اصل قاتل ‘سوچ’ ہے۔ وہ سوچ جو جہالت میں لتھڑی ہوئی ہے۔ وہ سوچ جو یہ مانتی ہے کہ سوال اٹھانا گناہ ہے۔ حق خدا اسکی سزا دے یا نہیں مگر باطل خدا اسکی سزا ضرور دیتے ہیں۔ یہ قاتل سوچ عدم برداشت کی پیداوار ہے۔ ہم سب اس سوچ کے مالک ہیں۔

ہر قاتل پہلے ہاتھ اٹھاتا ہے پھر موقع ملنے پہ ہتھیار۔ ہر زانی پہلے کلائیاں پکڑتا ہے پھر موقع ملےتو مروڑتا ہے۔ تشدد کی ابتداء چلانے سے ہوتی ہے پھر ہاتھ اٹھایا جاتا ہے اور پھر آخر میں ہتھیار۔ بچہ رو رہا ہے؟ اسے مارو، طالبعلم نکما ہے؟ اسے مارو، اولاد کہنا نہیں مان رہی؟ اسے مارو، بھائی بہن کو قابو رکھنا ہے؟ انہیں مارو۔ ملازم صحیح کام نہیں کر رہا؟ اسے مارو۔ بیوی نے انکار کیا؟ اسے مارو۔ نند دیور پہ رعب جمانا ہے؟ انہیں مارو۔ بہو کو قابو میں کرنا ہے؟ اسے مارو۔ بھابھی نے حکم عدولی کی؟ اسے مارو۔ پڑوسی سے جھگڑا؟ اسے مارو۔

قندیل پہ ڈرامہ بنانے والو! کیا مشال کے قتل پہ ڈرامہ بنا سکتے ہو؟ کیا ہم سب اس قابل ہو گئے کہ ایسا ڈرامہ بننے پر فتوی کے خوف سے عاری ہو کر ڈرامہ دیکھ بھی سکیں گے؟ کیا اپنے بچے کو تربیت دیتے ہیں کہ سب انسان برابر ہیں؟ نہیں۔ ہم یہ سکھاتے ہیں کہ غیر مسلم کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے، دوسرا فرقہ دین کا دشمن ہے اوردین کا دشمن واجب القتل ہے۔ فلاں فرقے کی حلیم میں تھوک ملا ہوتا ہے ، جو مزار پہ نہیں جاتا، وہ رسالت کا منکر ہے۔ سوال پوچھنا گستاخی ہے۔ جوگستاخ کا قاتل ہے وہ مع اہل و اعیال جنتی ہو گا۔ بڑھتے بچے میں اتنی نفرت ڈالو تو افسر کی بجائے قاتل ہی بنے گا۔

شرابی اور زانی گنہگار مگر جو ہدیہ لے کر فتوی جاری کر دیں وہ صاحب دین۔ کسی زمانے میں یہی دین دار ہمیں بتاتے تھے سالگرہ پہ کیک عیسائی کاٹتے ہیں پھر ان آنکھوں نے مذہبی تہواروں پہ کئی سو پونڈ کے کیک کٹتے دیکھے۔ کہتے تھے ٹی وی دیکھو گےتو آنکھوں میں آگ اترے گی اب خود ٹی وی پہ شو میں بیٹھتے ہیں۔

قندیل پہ ڈرامہ بن سکتا ہے کیونکہ وہ ایک بدنام زمانہ بی گریڈ فنکارہ تھی۔ اس ڈرامہ میں دیکھنے والی چیز یہ ہو گی کہ مفتی صاحب کا کیا کردار ہوتا ہے۔ مشال پہ ڈرامہ نہیں بن سکتا کیونکہ پھر ڈرامہ میں یہ کون دکھا سکتا ہے کہ کون سے رنگ کی پگڑی پہنے ملا اسکے قتل ناحق کو جنت کا ٹکٹ بتا رہے تھے اور قاتل کی گرفتاری پر خون کی ندیاں بہانے کے دعویدار تھے۔ جذباتی سیاستدان اس کے نام پہ یونیورسٹی لگانے کا کہہ گئے۔ نرا جوش خطابت۔ جس دن اتنی ہمت دکھا دی جائے کہ اسکے نام پہ ایک زمین کا ٹکڑا بھی لگ گیا اس دن سے یہ گستاخی والی دکان بند ہو جائے گی لہذا مشال کا نام اسکی قبر کے کتبہ تک ہی محدود رہے گا۔

 ہم سب مشال کے قاتل ہیں۔ جس دن تک ہم اپنی اولاد کو ‘انسان’ کی جان بچانے والا نہیں بنائیں گے ہم جان لینے والوں کی نسل بناتے جائیں گے اور اس چیز پہ سبحان اللہ کہتے جائیں گے کہ 2050 میں اسلام یورپ میں سب سے زیادہ مانا جانے والا مذہب ہوگا کیونکہ ظاہر سی بات ہے زیادہ بچے ہونگے تب ہی تو افرادی قوت میں اضافہ ہوگا، علم، دیانت اور رواداری سے مزید دوری ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).