چوہدری نثار علی: ڈنڈے کے زور پر احترام کا مطالبہ


 انسان اگر عقل کل ہوجائے تو چوہدری نثار علی خان بن جاتا ہے۔ اور اگر وہ پاکستان جیسے ملک کا وزیر داخلہ بھی بن جائے تو یا تو اس کی حماقتوں پر سر دھننے کو جی کرتا ہے یا ان سے خوف محسوس ہوتا ہے کیوں کہ اس قسم کے حاکم ماضی میں ایسے رویوں اور سماجی مزاج کو جنم دینے کی وجہ بنے ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ میں گھٹن اور ذہنی بے راہروی پیدا ہونے کے علاوہ سماج کے ایسے مصلحین کی ایسی پوری نسل تیار ہوئی ہے جو اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے مشعال خان جیسے نوجوان کو قتل بھی کر سکتی ہے اور جس کے علما ببانگ دہل یہ اعلان بھی کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ ’ گستاخ کی سزا ۔ سر تن سے جدا‘ ۔ اس مزاج نے معاشرہ میں جو گل کھلائے ہیں ، وہ پوری قوم کے سامنے ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم سمیت بعض رہنما کبھی کبھار ان رویوں کو سماجی برائی اور نا قابل قبول رویہ قرار دینے کی زحمت بھی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ انتباہ بھی معاشرہ سے انتہا پسندی اور اپنا قانون خود ہی نافذ کرنے کے طریقہ کو ختم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

جو خیال گیارہ برس تک ملک کے سیاہ و سپید کا مالک رہنے والے سابق فوجی آمر ضیا ء الحق کو توہین مذہب کے حوالے سے آیا تھا کہ ملک کے قوانین، مذہب کا پرچم بلند کرنے کے قابل نہیں ہیں ، اس کی حفاظت کے لئے 295 سی جیسی شق کو قانون کا حصہ بنانے اور ملک کے ملاؤں کو اس قانون کی تشریح کرنے اور اس پر عمل کرواتے ہوئے ’مجرموں ‘ کو سر عام سزا دینے کا اختیار دینا ضروری ہے، اب اسی قسم کا انقلاب آفرین خیال چوہدری نثار علی خان کے ذہن رسا میں در آیا ہے اور انہوں نے آئین میں آزادی اظہار کے حق کی ازسر نو تشریح کرتے ہوئے اپنے زیر انتظام کام کرنے والے ادارے ایف بی آئی کی کرائمز برانچ کو حکم دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر مسلح افواج کے خلاف تنقید اور اس کی توہین کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ نہ جانے ملک کے وزیر داخلہ کو فوج کا احترام کروانے کا خیال کیوں کر آیا اور وہ اس طرح فوج کے قریب ہو کر مزید کیا پوزیشن حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن انہیں یہ حکم دینے سے پہلے فوج کے ہاتھوں منتخب حکومتوں اور لیڈروں کی درگت بننے کی داستان پر ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔

یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ کوئی بھی ذمہ دار شہری ملک کے کسی بھی ادارے یا فرد کے خلاف کوئی توہین آمیز بات کرنے کا روادار نہیں ہوتا۔ یہ بات بنیادی اخلاقیات کا حصہ ہے کہ کسی بھی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے یا کسی غلط اقدام کو مسترد کرتے ہوئے الفاظ کا مناسب چناؤ بے حد اہم ہے۔ تاہم اس مزاج کو راسخ کرنے کے لئے ملک کے نظام تعلیم کی اصلاح کرنے اور اسے انسان دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بنیادی اخلاقی اصول سکھانے کے لئے نہ تو قانون بنائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ڈنڈے کے زور پر ایسے قوانین پر عمل کروایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خود سیاست دان قوم پر یہ احسان کر سکتے ہیں کہ وہ سیاسی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جھوٹ بولنے، غلط بیانی کرنے اور مخالفین کے بارے میں بد اخلاقی اور غیر مہذب انداز میں بات کرنے سے گریز کریں۔ ملک کے رہنما شائستہ اور خوش کلام ہو جائیں گے اور اپنی رائے کا اظہار دلیل اور حقائق کی بنیاد پر کرنے لگیں گے تو یہاں آباد لوگ بھی اپنا لب و لہجہ تبدیل کرلیں گے۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ملک کے دینی رہنما بھی حرف مدعا زبان پر لانے کے لئے ایسی گل افشانی فرماتے ہیں کہ بعض بیانات تو مہذب گھرانے اپنی بہو بیٹیوں کے ساتھ سننے کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔

چوہدری نثار علی خان کو یہ خیال نہ جانے کیسے آیا کہ فوج کی عزت ان کے حکم اور ان کے زیر اختیار اداروں کی کارروائیوں کی محتاج ہے۔ فوج کو بطور ادارہ ہمیشہ ملک کے عوام میں وسیع احترام حاصل رہا ہے۔ ملک کے لوگوں کی اکثریت اب بھی فوج کو سیاست دانوں سے زیادہ قابل اعتماد سمجھتی ہے اور سیاسی لیڈروں کی قلابازیوں ، بد عنوانیوں اور بے اعتدالیوں کی صورت میں بعض اوقات معقول دکھائی دینے والے لوگ بھی مسئلہ کا ایک ہی حل سمجھتے ہیں کہ فوج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یا تو سیاستدانوں کی گو شمالی کرتی رہے یا پھر انہیں کان سے پکڑ کر ایوان اقتدار سے نکال باہر کرے اور خود ملک کی ’درست سمت‘ میں رہنمائی کا فریضہ ادا کرے۔ حالانکہ پاکستان کی مختصر تاریخ گواہ ہے کہ فوج نے جب بھی ایسی طبع آزمائی کی ہے ، تو اس سے خرابی ہی کی صورت پیدا ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا پر عام لوگ اپنے دکھ سکھ اور بے چینی کا اظہار کرتے ہیں، اس میڈیم کے ذریعے وہ آوازیں بھی سامنے آنے لگی ہیں جن کا اظہار ملک کے اخبارات یا ٹیلی ویژن کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح رائے دینے کا ایک طاقور فورم تشکیل پا رہا ہے جو جمہوریت کے نام پر ملک میں آمرانہ طرز حکومت اختیار کرنے والے لیڈروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ پاکستان میں مسلح افواج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں یا بطور ادارہ ان کی قومی خدمات پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی جاتی البتہ جب فوج سیاسی معاملات میں ملوث ہوتی ہے تو اس حوالے سے تند و تیز خیالات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ملک کا ہر فرد تو چوہدری نثار کی طرح وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا کہ کسی درشت اور غیر آئینی ٹویٹ پر ناراضی کا اظہار کرنے کے لئے پریس کانفرنس منعقد کرسکے ، وہ اس بے چینی کا اظہار سوشل میڈیا پر ہی کرے گا۔ آزادی اظہار کا سبق پڑھاتے ہوئے اگر ان آزادیوں کو ختم کرنے اور لوگوں کی رائے کو دبانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ سب سے پہلے سیاست دانوں کے حق حکمرانی کو ہی نقصان پہنچائے گی جو عوام کی نمائیندگی کا نام لے کر ہر قسم کا غیر عوامی کام کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

دو روز قبل ملک کے وزیر داخلہ نے اپنی اسلام دوستی ثابت کرنے کے لئے سب کا احترام کرنے کے رویہ اور اصول کو مسترد کرتے ہوئے سیکولر ازم کو کسی جاہل ملا کی طرح لادینیت قرار دیا تھا۔ اب وہ ڈنڈے کے زور پر فوج کی عزت بحال کروانے کے مشن کا اعلان کررہے ہیں۔ عالم فاضل وزیر داخلہ کو خود ہی اپنی اداؤں پر غور کرتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ وہ کیا فرماتے ہیں اور کیا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ عام آدمی تو کیا اس ملک کے بااثر لوگوں کی بھی یہ مجال نہیں کہ وہ چوہدری صاحب سے پوچھ سکیں کہ میاں تمہارے منہ میں کے دانت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali