تاجر خواتین


میں ٹھہری ادب سے تعلق رکھنے والی بندی۔ ہم ادب والے بزنس کی الف، ب سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ ہاں البتہ ہم ادب والوں کی تخلیقی قوت کمال کی ہوتی ہے۔ میں نے بھی اپنی تخلیقی طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے ایک کاروباری منصوبہ بنایا۔ اور اس پہ کام شروع کیا۔ اسی دوران کچھ روز قبل میری نظر سے ایک خبر گزری کہ ویمن چیمبر آف کامرس لاہور ایک نمائش کا انعقاد کر رہا ہے جس کا بنیادی مقصد ابھرتی ہوئی خواتین تاجروں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں خواتین کے لیے وسائل اور مواقع کم ہیں تو ایسی صورتحال میں یہ موقع عید کا چاند ہی لگا۔ پاکستان میں خواتین 50 فیصد ہیں اور اس نصف تعداد میں تعلیم یافتہ خواتین آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں تو بچیوں کو سکول دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تو تعلیم کے حصول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس ملک میں خواتین کو بنیادی حقوق نہیں دیے جا رہے تو اس نظام میں ان کے لیے کاروبار کرنا یا کسی ایسی سرگرمی میں حصہ لینا ایک بہت بڑا سوال ہے۔

کچھ برسوں سے اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ویمن انٹرپنوررشپ کے فروغ کے لیے کچھ پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے جبکہ اسلام میں اس کی مثال توچودہ سو سال قبل موجود ہے۔ حضرت خدیجہؓ تجارت کرتی تھیں۔ آپ اسلام کی سب سے پہلی ویمن انٹرپنورر ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے ان پہلووں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جن سے کسی اور کا فائدہ منسوب ہوتا ہے بالخصوص عورتوں کا۔ اگر اسلام کی اصل کو دیکھا جائے تو اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے عورتوں کو تمام بنیادی حقوق دیے ہیں۔ خیر یہ تو میرے آج کے بلاگ کا مدعا نہیں ہے۔

تو ہمارا آج کا مدعا ہے تیرہویں لائف سٹائل نمائش جو کہ ویمن چیمبر آف کامرس نے ہاوس آف شازیہ چیمہ کے تعاون سے 31 مئی کو منعقد کروائی۔ اس نمائش میں 97 سٹالز تھے اور اکثریت کی آرگنائزرز خواتین تھیں۔ رنگا رنگ سٹالز ان کی منفرد اور مختلف نوعیت کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ ان میں کچھ دست کاری میں ماہر تھیں اور کچھ کا کمال گھر میں تیار کردہ سادہ اور سستی کھانے کی اشیا میں تھا۔ خوبصورت ہاتھ کی کڑھائی والے لباس کچھ سٹالز کی رونق کا باعث تھے اور کچھ سٹالز کو ہاتھ سے بنی جیولری ، کارڈز اور مختلف قسم کے تحائف خوبصورت بنا رہے تھے۔

میں نے بیشتر سٹالز کی منتظمین سے بات چیت بھی کی۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ اپنی ساس کی اچار کی ترکیب لے کر آئی ہیں اور اپنے گھر سے وہ یہ اچار فروخت کرتی ہیں۔ اور اس نمائش نے ان کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی ترکیب عام لوگوں کو بتا سکیں۔ اسی طرح ایک اور خاتون نے بتایا کہ وہ پہلی مرتبہ اس طرح کے پلیٹ فارم پر اپنی تیار کردہ اشیا لے کر آئی ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میں پچھلے دو ماہ سے اپنے پراجیکٹ پہ کام کر رہی تھی لیکن کنفیوزڈ تھی کہ میرا کام لوگوں کو پسند آئے گا یا نہیں لیکن اس نمائش میں جو پذیرائی ملی اس نے کام کرنے کی لگن کو جلا بخشی۔

اس نمائش کی شرکا خواتین میں خود اعتمادی کو بحال کرنے میں اس کے منتظمین نے بھی اہم کردار ادا کیا کہ ویمن چیمبر آف کامرس کی رکن میڈم قیصرہ نے تمام ینگ ویمن انٹرپنوررز کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ وہ باری باری تمام سٹالز پر گئیں اور شرکا سے ان کے کام کے بارے میں پوچھا اور ینگ ویمن انٹرپنوررز کو تحفے دے کر ان کے کام کو سراہا۔ ہاوس آف شازیہ چیمہ کی صدر میڈم شازیہ چیمہ نے اس نمائش کو شاندار طریقے سے ترتیب دیا بالخصوص ہالز کی صفائی کا بہت خیال رکھا گیا ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر نمائشوں میں صفائی کی صورتحال خاصی ناقص ہو تی ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ ویمن چیمبر آف کامرس کی طرف سے ینگ ویمن انٹرپنوررز کے لیے یہ انتہائی مثبت قدم ہے کیونکہ جس ملک میں کچھ خاص طبقے کی اجارہ داری ہو وہاں عام عوام اور بالخصوص خواتین کو ترقی کے مواقع کم ہی ملتے ہیں۔ اور پھر ہم جیسے چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے تو کسی شمار میں ہی نہیں آتے۔ اس نمائش نے مجھ جیسی کئی خواتین کو خود اعتمادی بخشی۔ میں اس خوبصورت پلیٹ فارم اور منفرد تجربے کے لیے ویمن چیمبر آف کامرس، لاہور کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور درخواست کرتی ہوں کہ ایسے اقدامات ہونے چاہئیں کہ جن سے ٹیلنٹڈ لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).